نوجوان لڑکیوں کے ریپ، قتل اور اغوا میں اپنے سیریل کِلر شوہر کی معاونت کرنے کے جرم میں خاتون کو عمرقید

مچل فورنیریٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, سٹیو نبز، ڈیکن ہوپر، ڈان لمبو اور جیسمین کیٹبو فولے
  • عہدہ, بی بی سی نیوز پیرس اور گلوسٹرشائر

ایک بدنام زمانہ فرانسیسی سیریل کلر مچل فورنیریٹ کی سابقہ بیوی کو دو لڑکیوں کے قتل اور اغوا میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

75 سالہ مونیک اولیور پر فرانس میں سنہ 1990 میں 20 سالہ جوانا پیرش اور سنہ 1988 میں 18 سالہ میری-اینجیل ڈومیس کے ریپ اور قتل میں ملوث ہونے کا مقدمہ چل رہا تھا۔

مونیک پر سنہ 2003 میں نو سالہ لڑکی ایسٹیلی موزین کو اغوا کرنے میں مدد کرنے کا بھی الزام تھا۔ اغوا ہونے والی نو سالہ لڑکی کی لاش کبھی نہیں ملی تھی۔

اگرچہ خاتون کو تو عمرقید کی سزا سنائی گئی ہے مگر انھی کیسوں میں ملوث ان کے شوہر اور سیریل کلر مچل فورنیریٹ پہلے ہی جیل میں وفات پا چکے ہیں۔

یہ سزا سنائے جانے سے قبل ہی اولیور مونیک ماضی میں اسی نوعیت کے جرائم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

اب نئے مقدمات میں انھیں دوسری مرتبہ عمر قید سنائی گئی ہے۔

عدالتی فیصلے کے بعد مقتول لڑکی جوانا پیرش کے والد راجر پیرش نے تمام متاثرین کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس دن کے لیے بہت طویل انتظار کیا ہے۔‘

مونیک اولیور
،تصویر کا کیپشن

مونیک اولیور

مچل فورنیریٹ کے جرائم

حکام کے مطابق فرانسیسی سیریل کلر مچل فورنیریٹ نے سنہ 1987 سے 2001 کے درمیان کم از کم آٹھ لڑکیوں یا نوجوان خواتین کو قتل کیا تھا۔ مچل کی موت سنہ 2021 میں 79 سال کی عمر میں دوران قید ہوئی تھی۔

مچل فورنیریٹ کو سنہ 2008 میں سات لڑکیوں اور نوجوان خواتین کے ریپ اور قتل کا مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سنہ 2018 میں انھیں ایک اور مقدمہ قتل میں دوسری بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

انھوں نے برطانوی طالبہ جوانا پیرش سمیت کئی دیگر لڑکیوں کے قتل کا بھی عدالت میں اعتراف کیا تھا۔

مچل فورنیریٹ کے متاثرین میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو ریپ کیا گیا تھا جن کی عمریں 12 سے 30 سال کے درمیان تھیں۔ اور انھیں گولی مار کر، گلا گھونٹ کر یا چھرا گھونپ کر قتل کیا گیا۔

ان میں سے زیادہ تر کو شمالی فرانس اور بیلجیئم کے علاقے ارڈینس میں قتل کیا گیا تھا۔

مچل فورنیریٹ کو پہلی بار 25 سال کی عمر میں جنسی جرم کا مجرم قرار دیا گیا تھا جب انھیں اپنے آبائی علاقے میں ایک لڑکی پر حملہ کرنے کے الزام میں آٹھ ماہ کی سزا ملی تھی۔

سنہ 1984 میں انھیں ایک اور نوجوان لڑکی پر حملہ کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا اور جیل میں ہی انھوں نے مونیک اولیور (سابقہ اہلیہ) کے ساتھ خط و کتابت شروع کی۔

استغاثہ کے مطابق مونیک اولیور اس بات پر آمادہ ہو گئی تھیں کہ اگر مچل نے ان کے شوہر کو قتل کر دیا تو وہ بدلے میں اس کے لیے نوجوان لڑکیوں کو تلاش کرنے میں مدد کریں گی۔ سنہ 1987 میں مچل کے جیل سے رہا ہونے پر مونیک اولیور باہر ان کا انتظار کر رہی تھیں اور بمشکل دو ماہ بعد دونوں نے مل کر انھوں نے اپنا پہلا جرم کیا۔

مچل فورنیریٹ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

مچل کی موت دوران قید ہوئی تھی

یہ بھی پڑھیے

مچل فورنیریٹ کے شکار کون تھے؟

دسمبر 1987 میں مونیک اولیور نے 17 سالہ ایزابیل لاویل کو اس وقت اٹھا لیا تھا جب وہ سکول سے گھر جا رہی تھی۔

انھوں نے ایزابیل کو کہا تھا کہ وہ راستہ بھٹک گئی ہیں اور اسے راستہ سمجھانے کے لیے وین پر سوار ہونے کے لیے آمادہ کیا تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے وہ راستے سے فورنیریٹ کو لینے کے لیے رکی اور ایزابیل سے کہا گیا کہ مچل کی گاڑی خراب ہو گئی ہے۔

حقیقت یہ تھی کہ یہ جوڑا کچھ عرصے سے ایزابیل کی نگرانی کر رہا تھا اور اس دن اسے خاص طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس دن سفر کے دوران جب وہ تینوں وین میں موجود تھے فورنیریٹ نے ایزابیل کا ریپ کیا اور اسے قتل کر دیا۔

ایزابیل ان کا پہلا شکار تھی لیکن اگلے 16 سالوں میں اس جوڑے نے فرانس اور بیلجیم میں کم از کم آٹھ لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو اغوا اور قتل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔

بالآخر انھیں 2003 میں پکڑ لیا گیا جب فورنیریٹ ایک 13 سالہ لڑکی اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ ان کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی اور اس کے نتیجے میں اس کی اور اولیور کی گرفتاری ممکن ہوئی۔

فورنیریٹ کی متاثرہ لڑکیوں میں ایزابیل لاویل، فیبین لیروئے، جین میری ڈیسرماولٹ، ایلیسبتھ بریچیٹ، نتاچا ڈانائس، سیلائن سائسن، مانانیا تھمفونگ، فریدہ ہمیچے، میری-اینجیل ڈومیس، جوانا پیریش اور ایسٹل موزین شامل ہیں۔

مچل فورنیریٹ کو سنہ 2008 کے مقدمے میں ساتھ قتل کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور سنہ 2018 میں اسے فریدہ ہمیچے کو قتل کرنے کا مجرم بھی پایا گیا تھا جو کہ ایک بینک ڈکیت کی ساتھی تھی جس سے فورنیریٹ جیل میں ملا تھا۔

بعدازاں 2018 میں مچل فورنیریٹ نے آکزیری کے علاقے کی ایک معذور خاتون ڈومیس اور جوانا پیرش کے قتل کا اعتراف بھی کیا تھا۔ لینگویجز کی طالبہ جوانا پیرش اپنی یونیورسٹی کے ایک کورس کے لیے 1990 میں گلوسٹر شائر کے علاقے نیونہم آن سیورن سے فرانس کے آکزیری میں منتقل ہو گئی تھیں۔

اس کی لاش 17 مئی کو دریائے یون سے ملی تھی۔ ان کا ریپ کیا گیا تھا، تشدد کیا گیا تھا اور گلا گھونٹ کر قتل گیا تھا۔

مچل فورنیریٹ کی سب سے کم عمر شکار ایسٹل صرف نو سال کی تھیں جسے مچل نے 2003 میں قتل کیا تھا۔ ایسٹل کے قتل کا معمہ اس وقت تک حل نہ ہو سکا جب تک کے فورنیریٹ نے اس کا اعتراف نہ کر لیا۔کیونکہ اس کی لاش کبھی مل نہ سکی تھی۔

مونیک اولیور کا کردار

مونیک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مونیک اولیور کو سزا سنائے جانے کے بعد جوانا پیرش کے والد راجر پیرش نے جرائم میں اس کے کردار کر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کی مچل کے ساتھ موجودگی کا مقصد صرف معصوم لڑکیوں کا اعتماد حاصل کرنا ہوتا تھا۔ کیونکہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ایک عورت بھی اس گھناؤنے کھیل کا حصہ ہو سکتی ہے۔‘

پیرش خاندان کے وکیل ڈیڈیئر سیبان کا کہنا تھا کہ ’مونیک اولیور کو سزا سنائے جانا ایک فتح ہے، متاثرہ خاندانوں کی فتح ہے۔‘

عدالت کو بتایا گیا کہ کس طرح ان وارداتوں میں اولیور کا کردار متاثرین کو یقین دلانا تھا کہ وہ فورنیریٹ کی وین میں بیٹھ جائیں۔

اولیور نے بھی عدالت میں جوانا پیرش کے اغوا، قتل اور ریپ کے وقت آکزیری میں اپنی موجودگی کا اعتراف کیا ہے۔

اس نے عدالت کو بتایا کہ ’مجھے اپنے کیے پر پچھتاوا ہے اور میں متاثرین کے اہل خانہ سے معافی مانگتی ہوں، جبکہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔‘

عدالت نے بھی مونیک اولیور اور مچل فورنیریٹ کے جرائم کو ’غیر انسانی‘ قرار دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ