جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

نوجوان لڑکیوں کے ’خودکشی‘ سے متعلق انسٹاگرام گروپ کا انکشاف

نوجوان لڑکیوں کے ’خود کشی‘ سے متعلق انسٹاگرام چیٹ گروپ کا انکشاف

  • نوئیل ٹیدریج
  • بی بی سی نیوز

Girl texting on smartphone at home

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بی بی سی نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے سوشل میڈیا پر نوجوان لڑکیوں کے ایسے گروپ کا پتا چلایا ہے جو انھیں ’خودکشی کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔‘

جنوبی انگلینڈ سے تعلق رکھنے والی 12 سے 16 برس کی تقریباً 12 لڑکیاں ایک انسٹاگرام چیٹ گروپ کا حصہ تھیں جس کے نام کا مطلب ‘خود کشی کرنا’ ہے۔

اس گروپ کے بارے میں اس وقت علم ہوا جب اس گروپ میں سے تین لڑکیاں لاپتہ ہو گئیں اور لندن سے انتہائی بیمار حالت میں ملیں۔

انسٹا گرام کا کہنا ہے کہ اسے اس گروپ سے خودکشی اور خود کو نقصان پہنچانے سے متعلق کوئی مواد نہیں ملا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سنگین ذاتی نقصان

بی بی سی نیوز نے اس گروپ سے متعلق پولیس کی بریفننگ حاصل کی ہے۔

اس کے مطابق ’نوجوانوں میں گپ شپ کرنے والوں کے زیر اثر خود کشی سے متعلق نظریات بڑھ رہے ہیں اور یہ اس حد تک جا رہا ہے کہ یہ جان لینے کے اور خود کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔‘

یہ گروپ اس وقت نظر میں آیا جب لاپتہ ہونے والی تین لڑکیوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی کے وہ آپس میں ملاقات کے لیے بذریعہ ٹرین لندن گئی تھیں۔

وہ تینوں ایک سڑک پر بہت زیادہ بیمار حالات میں ملیں جنھیں ایمبولینس کے ذریعے ہنگامی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔

ایک لڑکی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان کی ملاقات پہلی مرتبہ آن لائن ہوئی جس میں خود کشی کے بارے میں بات کی گئی۔

اس کے بعد پولیس نے ان لڑکیوں کے ڈیجیٹل آلات کی جانچ پڑتال کی جہاں سے انھیں اس آن لائن گروپ کا نام اور اس کے ارکان کے بارے میں علم ہوا۔

پولیس کی جانب سے اس گروپ کا سراغ لگانے سے قبل بارہ لڑکیاں خود کو نقصان پہنچا چکی تھیں۔ سات مختلف اوقات میں بچوں کی فلاح کے اداروں نے اس گروپ میں شامل بچیوں کی جان بچائی۔

بی بی سے نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ بعض بچیاں دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ملیں لیکن وہ بھی انسٹا گرام کے اس خفیہ گروپ کا حصہ تھے۔

اس گروپ کے نام میں خود کشی اور گمشدگی کے الفاظ موجود ہیں۔

نومبر 2020 میں انسٹاگرام نے ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی تھی جس میں اس کی ایپ پر خود کو نقصان پہنچانے یا خود کشی کرنے جیسے مواد کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔

اس قسم کے مواد کے نوجوانوں پر اثرات سے متعلق آگہی اس وقت بڑھی جب 14 سالہ طالبہ مولی رسلز نے سنگین نوعیت کی تصاویر دیکھنے کے بعد خود کشی کر لی تھیں۔

مولی کے والد ایئن نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’سوشل میڈیا کے ایلگورتھم نے میری بیٹی کے قتل میں مدد کی۔‘

انسٹاگرام کی مالک کمپنی فیس بک نے اس بند گروپ کے نام کے خود کشی سے منسلک ہونے کی تصدیق تو کی تاہم کہا کہ اسے ختم نہیں کیا گیا کیونکہ اس کے اندر بھیجے جانے والے پیغامات میں اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔

ایک بیان میں کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا وہ پولیس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

’ہم نے اس رپورٹ کا جائزہ لیا ہے اور ہمیں ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ گروپ میں شامل لوگوں نے خودکشی یا خود کو نقصان پہنچانے سے سے متعلق اصول توڑے ہوں۔‘

’ہم گرافک مواد یا ایسے مواد کی تشہیر یا حوصلہ افزائی نہیں کرتے جو خود کشی یا خود کو نقصان پہنچانے پر اکسائے اگر ہمیں ایسا کچھ ملا تو ہم اسے ہٹا دیں گے۔‘

’ہم پولیس کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے اور ہم معلومات کے حصول کے لیے کسی بھی مستند قانونی درخواست کا جواب دیں گے۔‘

تحقیقات کی سربراہی کرنے والی برطانوی ٹرانسپورٹ پولیس نے اس حوالے سے موقف دینے سے انکار کر دیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.