ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کی پلاٹینم جوبلی: نوجوان الزبتھ کو کب احساس ہوا کہ وہ ایک دن ملکہ بن جائیں گی؟
- رابرٹ لیسی
- برطانوی مورخ اور سوانح نگار
اس اتوار کو ملکہ الزبتھ کے برطانیہ کا تخت سنبھالنے کی 70 ویں سالگرہ ہے۔
جب وہ ایک شہزادی تھیں، اس وقت کی الزبتھ کا موازنہ جدید دور کی شہزادی بیٹریس سے کیا جاتا ہے، جو کہ رینک میں دوسرے نمبر کے ڈیوک آف یارک (1926 میں ‘برٹی’ اور آج کے شہزادہ اینڈریو)، کی بیٹی ہیں۔
آج جیسے شہزادی بیٹریس کے ملکہ بننے کا امکان بہت کم، اسی طرح الزبتھ کا بھی برطانوی تاج تک پہنچنے کا امکان کافی کم تھا۔
اس پس منظر میں دسمبر 1936 ایک ڈرامائی موڑ بن گیا جب شہزادی الزبتھ کے چچا ڈیوڈ، کنگ ایڈورڈ ہشتم نے اپنی طلاق یافتہ امریکی دوست والیس سمپسن سے شادی کرنے کی خاطر تخت سے دستبردار ہو کر دنیا اور اپنے خاندان کو حیران کر دیا۔
اس وقت دس سالہ الزبتھ جانشینی کی براہ راست قطار میں آ گئیں۔ان کے والد شہزادہ البرٹ نے کنگ جارج ششم کا لقب اختیار کیا، اور ان کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے الزبتھ ان کے بعد آنے والی وارث بن گئی۔ قطار میں سب سے آگے۔
لیکن کیا نوجوان شہزادی واقعی اس کے لیے تیار نہیں تھیں؟
الزبتھ نے دسمبر کے اس دن پیکاڈیلی میں اپنے ٹاؤن ہاؤس کے باہر جمع ہونے والے ہجوم کی اچانک خوشی کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی چھ سالہ بہن مارگریٹ کو بتایا تھا کہ ‘پاپا بادشاہ بن رہے ہیں۔’
مارگریٹ نے پوچھا ‘کیا اس کا مطلب ہے کہ تم ملکہ بننے والی ہو؟’
‘ہاں’، الزبتھ نے آرام سے جواب دیا، ‘مجھے ایسا ہی لگتا ہے۔’
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مارگریٹ نے 1980 کی دہائی میں الزبتھ لانگ فورڈ کو اس موقعے کے متعلق بتایا تو انھوں نے کہا کہ بطور چھوٹی بہن انھوں نے اس وقت مزاحیہ انداز میں کہا تھا ‘تم بیچاری’۔
لیکن دو دہائیوں بعد جب مارگریٹ نے تاریخ دان بین پملوٹ کو یہ کہانی دوبارہ سنائی تو انھوں نے اس لطیفے کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
انھوں نے اس کی بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کی کہ ان کی بہن کو بظاہر اپنی ڈرامائی بلندی کی طرف بڑھنے پر بات کرنے میں دلچسپی نہیں تھی۔ شہزادی نے پملوٹ کو بتایا کہ ‘انھوں نے کبھی اس کا دوبارہ ذکر نہیں کیا۔’
تو 10 سالہ شہزادی الزبتھ کو کیا معلوم تھا؟ اور انھیں کب کیا پتا چلا؟
ملکہ الزبتھ دوئم کے سامنے بادشاہت کی پہلی مثال ان کے دادا، سیدھے سادھے اور داڑھی والے شاہ جارج پنجم (1865-1936) تھے۔
وہ انھیں ‘گرینڈ انگلینڈ’ کہہ کر پکارتی تھیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی سی لڑکی شروع ہی سے شاہی طور طریقے کی روح کو کس قدر سمجھ چکی تھی۔
جارج پنجم کے سرکاری سوانح نگار جان گور نے اعتراف کیا تھا کہ جارج پنجم کے پاس ‘نہ تو کوئی میل جول کا ہنر تھا، نہ ہی کوئی ذاتی کشش، نہ ہی کوئی فکری طاقت۔ وہ نہ تو عقل مند تھے اور نہ ہی کوئی شاندار داستان گوہ۔‘ دوسرے لفظوں میں بوڑھے بادشاہ، بالکل اپنی رعایا کی طرح تھے۔ لیکن ان کی بقا اور علامتیت کی حس بہت تیز تھی۔
یہ جارج پنجم ہی تھے جنھوں نے 1917 میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ شاہی خاندان کی جرمن کنیت یعنی ان کا نام کے جرمن حصے سیکسے۔کوبرگ۔گوتھا کو نکال دیا تھا۔ لہٰذا یہ اتنی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد دنیا اس مہارت کی تعریف کرے جو ملکہ نے منفرد طور پر طویل اور ممتاز حکمرانی میں دکھائی۔ انھوں نے یہ مہارت ہاؤس آف ونڈسر کے بانی سے براہ راست سیکھی تھی۔
جارج پنجم کو سمندر بہت پسند تھا۔ وہ اپنی پوتی کی مشہور خاندانی عرفیت ‘للیبیٹ’ کے بھی موجد تھے۔ اپریل 1929 میں، شہزادی الزبتھ کی تیسری سالگرہ کے موقع پر، ٹائم میگزین نے انھیں اپنے سرورق پر بطور ‘پرنسیز لیلیبیٹ’ لیا تھا۔
ان کے دادا کی ان کی بڑی احتیاط سے لکھی گئی ڈائری میں یہ نام نظر آتا ہے، جو کہ ونڈسر رائل آرکائیوز میں محفوظ ہے۔
سنہ 1929 کے موسم بہار میں بوڑھے بادشاہ نے اصرار کیا کہ ان کی پیاری پوتی کو، جو اس وقت صرف تین سال کی تھیں، ان کے پاس سسکس کے ساحل پر بوگنور ریجیس ملنے کے لیے لایا جائے۔ یہ پھیپھڑوں کے آپریشن کے بعد صحتیابی کے لیے ان کی طرف سے رکھے گئے دو اہم مطالبات میں سے ایک تھا۔ (دوسرا یہ تھا کہ ‘انھیں سگریٹ پینے کی اجازت دی جائے’)۔
سنہ 1929 کے ابتدائی مہینوں میں جارج پنجم نے پہلی مرتبہ کہا تھا کہ انھیں امید ہے کہ ایک دن ان کی پوتی برطانوی تخت پر بیٹھے گی۔
انھوں نے لیلیبیٹ کے والد سے، جو ان کی صحتیابی کے دوران ان سے ملنے آئے تھے، کہا کہ ‘تم دیکھو گے کہ تمہارا بھائی کبھی بادشاہ نہیں بنے گا’۔
مادرِ ملکہ نے کئی سال بعد بتایا کہ ‘مجھے یاد ہے کہ ہم نے سوچا کہ کتنا مضحکہ خیز ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سوچا کیا ‘بکواس’ ہے۔’
لیکن بوڑھے بادشاہ ڈٹے رہے۔ انھوں نے غیر معمولی پیش بینی یا بصیرت سے اپنے ایک ساتھی کو اپنے بڑے بیٹے کے بارے میں کہا کہ ‘وہ دستبردار ہو جائے گا۔’ حالانکہ یہ اس واقعہ سے سات سال پہلے کی بات ہے۔
جارج پنجم کو تشویش تھی کہ نہ صرف ان کے سب سے بڑے بیٹے ڈیوڈ اپنی حکمرانی چھوڑ دیں گے بلکہ قطار میں ان کے بعد آنے والے برٹی بھی، جو کمزور تھے اور جنھیں پھیپھڑوں کا سرطان تھا، وہ بھی زیادہ دیر زندہ نہیں رہیں گے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بوڑھے بادشاہ کو بظاہر خدشہ تھا کہ ہکلانے والے ڈیوک آف یارک شاہی ذمہ داری کا دباؤ برداشت نہیں کر پائیں گے، اس لیے چھوٹی للیبیٹ کو شاید بچپن میں ہی تخت پر بیٹھنا پڑ جائے۔
اس طرح کے حالات میں، منطقی طور پر ریجنٹ یا بادشاہ کی غیر موجودگی میں سلطنت کی دیکھ بھال کرنے والے ممکنہ طور پر، جارج پنجم کے تیسرے بیٹے ہنری، ڈیوک آف گلوسٹر (1900-1974) ہی ہوں گے۔
الزبتھ کو، جو کہ ابھی تک نابالغ تھیں، اپنے چچا ہنری کی سرپرستی میں ممکنہ طور پر تخت پر بٹھانے میں ہی شاید ایک بیمار بادشاہ کی بے چینی نظر آئے۔
لیکن پچھلی خزاں میں بالمورل میں وقت گزارنے والے ونسٹن چرچل نے، جو اس وقت وزیرِ خزانہ تھے (اور بعد میں ملکہ کے پہلے وزیراعظم بنے) اس خیال کی تائید کی کہ یہ بچی مستقبل کی ملکہ بن سکتی ہے۔ انھوں نے اپنی بیوی کلیمینٹائن کو لکھا کہ نوجوان شہزادی ‘ایک کردار ہیں۔ ان میں اختیار اور سنجیدگی نظر آتی ہے جو ایک بچی میں حیران کن لگتی ہے۔’
دھیرے دھیرےصحتیاب ہونے والے اپنے دادا کے ساتھ ریت کے قلعے بنانے کے ساتھ، اس بچی نے واضح طور پر بادشاہ سے کچھ شاہی وقار کو بھی اپنایا۔
سنہ 1936 میں جارج پنجم کے اقتدار کے خاتمے سے پہلے، ان کی پوتی کے لیے عوامی تحائف غیر معمولی طور پر بڑھ چکے تھے، اور عوامی تقریبات میں بچی کی موجودگی کی اتنی زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی تھیں کہ نوجوان الزبتھ آف یارک کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے ایک ‘لیڈی ان ویٹنگ’ یا ان کے لیے ایک مصاحبہ کو رکھنا پڑا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شاہی لائبریریئن اوون مورس ہیڈ نے 1920 کی دہائی کے آخر میں ونڈسر محل میں نوجوان شہزادی الزبتھ (پیدائش 21 اپریل 1926) کو گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کو دیکھنے کے لیے اپنے پرام میں باہر جاتے ہوئے دیکھا، جب ایک کمانڈنگ افسر بڑے خوبصورت انداز میں ان کے پاس جا کر سلیوٹ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ‘محترمہ، مارچ شروع کرنے کی اجازت ہے؟‘
مورس ہیڈ کے مطابق ہیٹ پہنے ہوئے اپنی پرام میں بیٹھی شہزادی اپنے سر کو جھکاتی اور پھر ہاتھ کے اشارے سے اجازت دیتی ہے۔ اپنے دادا کے ‘گرینڈ پا انگلینڈ’ کے قومی کردار کے وزن کو دیکھ چکی، چھوٹی سی عمر کی اس بچی میں واضح طور پر اپنی بھی کچھ سوچ پیدا ہو رہی تھی۔
تین سالہ بچی کے ذہن پر یہ جان کر کیا اثر ہوتا ہو گا کہ بینڈ کو شروع کرنے کے لیے اور پوری پلاٹون کو مارچ کرنے کے لیے کہنے کے لیے آپ کو صرف ہاتھ ہلانا اور اپنے سر کو جنبش دینی ہے!
1930 کے موسم گرما میں، اپنی چوتھی سالگرہ کے فوراً بعد، شہزادی الزبتھ کا ایک مومی مجسمہ مادام تساؤ میں رکھا گیا جس میں وہ ایک پونی پہ بیٹھی ہوئی تھیں۔ دو سال بعد شہزادی نیو فاؤنڈ لینڈ میں چھ سینٹ کے ایک ڈاک ٹکٹ پر نظر آئیں، اور قطب جنوبی کے قریب ‘پرنسز الزبتھ لینڈ’ پر یونین جیک لہرایا گیا تھا۔
بیلفاسٹ نیوز لیٹر کی 1932 میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جب بھی وہ پارک میں گاڑی چلانے کے لیے نکلتیں تو لوگ چھ سالہ بچی کو پہچان لیتے۔ ‘ہر طرف سے ٹوپیاں اور رومال اٹھائے جاتے۔’
اپریل 1933 میں اپنی ساتویں سالگرہ کے موقع پر شہزادی نے اپنی سٹیشنری پر ہی چائے پارٹی کے دعوت نامے بھیجے، نیلے رنگ کے کاغذ پر شاہی تاج کے نیچے بڑا سا ‘ای’ کندہ تھا۔
‘وہ بے حد زیادہ مقبول ہیں اور ۔۔۔ اس وقت انھیں برطانیہ کی مستقبل کی ملکہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔’ یہ حیران کن خبر مئی 1934 میں ایک معتبر امریکی رپورٹ سے ملی کہ مستقبل کے ایڈورڈ ہشتم ‘اس کام کے بارے میں زیادہ پرجوش نہیں دکھائی دے رہے جس کے لیے وہ پیدا ہوئے ہیں۔ پرنس کے قریبی ساتھیوں نے بتایا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے بادشاہ بننے کے بالکل منتظر نہیں ہیں۔’
اس کے نتیجے کے میں چھوٹی شہزادی کی اب ‘ایک ایسے شخص کے طور پر سخت تربیت کی جا رہی تھی جسے انگلستان کے تاج کا براہ راست جانشین سمجھا جاتا ہے۔’
شمالی امریکہ کے ان انکشافات کا، جنھیں برطانیہ کے باادب پریس نے مکمل طور پر نظر انداز کیا تھا، ممکنہ ذریعہ شہزادی کی اس وقت ہی بھرتی کی گئی نوجوان گورننس ماریون کرافورڈ تھیں، جنھیں ‘بہت خوبصورت’، ‘بہت دلکش’ اور ‘بہت سکاچ’ کہا گیا تھا۔
ان کی زیرِ نگرانی بچوں نے ان کا نام ‘کرافی’ رکھا، اور یہ گورنس ‘دی لٹل پرنسز’ کی پرورش کے بارے میں سب سے زیادہ انکشافات فروخت کرنے کے حوالے سے مشہور ہوئیں، جیسے مثال کے طور پر انھوں نے بتایا کہ کس طرح انھوں نے کوئین میری کے ساتھ مل کر ان کی والدہ کی اس خواہش کو تہہ و بالا کرنے کی سازش کی کہ ان کی بیٹیاں سکول کے اندر کم وقت گزاریں۔
گورننس اور دادی نے بہنوں کی تعلیم میں مزید سختی لانے کے لیے مل کر کام کیا۔ مادر ملکہ نے محسوس کیا کہ شہزادی الزبتھ کو صرف ‘بچوں کی بہترین قسم کی کتابیں’ پڑھنی چاہئیں، اور اکثر وہ خود انھیں وہ کتابیں منتخب کر کے دیتیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ مستقبل کی ملکہ کے لیے ‘سبق آموز تفریحات’ کا بھی انتظام کرواتیں، جیسا کہ ٹاور آف لندن کا دورہ۔
ان کی ایک دوست کاؤنٹیس آف ایئرلی انھیں یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘کوئین میری سے زیادہ بادشاہت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنا کسی اور کے لیے ممکن نہیں ہے۔’
تاہم گرینڈ پا انگلینڈ نے اپنی پسندیدہ پوتی کو مستقبل کی ملکہ بنانے کے لیے آسان ہدف مقرر کیے تھے۔ وہ گورنس کو زور سے کہتے ‘فار گڈنس سیک (خدا کے لیے) مارگریٹ اور للیبٹ کو مہذب طریقے سے لکھنا سکھائیں، آپ سے میں بس یہی چاہتا ہوں! میرے بچوں میں سے کوئی بھی ٹھیک سے نہیں لکھ سکتا۔ وہ سب بالکل ایک طرح ہی کرتے ہیں۔ مجھے ایسا ہاتھ پسند ہے جس میں کوئی ‘کیریکٹر’ ہو۔’
،تصویر کا ذریعہGetty Images
غیر ملکی اخباروں کی رپورٹوں میں کہا گیا کہ نوجوان شہزادی کے ‘کوئین ریجنٹ’ بننے کے امکانات ایک صدی پہلے آٹھ سالہ ملکہ وکٹوریہ کے ‘کوئین ریجنٹ’ بننے سے بہتر تھے، جو کہ چوتھے بیٹے کی بیٹی تھیں جن کے دو چچا بھی ان سے آگے تھے۔
الزبتھ نے ایک مرتبہ کرافی کو بتایا کہ ‘اگر میں کبھی ملکہ بنی تو میں ایک قانون بناؤں گی کہ اتوار کو گھوڑ سواری نہ ہو۔ گھوڑوں کو بھی آرام کرنا چاہیے۔’ کوئین میری کو خطرہ بھی محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک کانسرٹ پر یہ دیکھ کر کہ ان کی پوتی کس طرح بے صبری سے ہل جل رہی ہے، ملکہ نے پوچھا کہ کیا وہ گھر جانا پسند نہیں کریں گی۔
نوجوان الزبتھ نے جواب دیا ‘اوہ نہیں، گرینی، ہم اختتام سے پہلے نہیں جا سکتے۔ ان تمام لوگوں کے متعلق سوچیں جو ہمیں باہر دیکھنے کے لیے انتظار کر رہے ہوں گے۔’ اس پر گرینی نے فوراً ایک ملازمہ کو ہدایت کی کہ بچی کو پچھلے راستے سے باہر نکالو اور اسے ٹیکسی میں گھر لے جاؤ۔
کوئین میری نہیں چاہتی تھی کہ ان کی بڑی پوتی کو تعریف یا چاپلوسی کی لت پڑے۔ ملکہ اور ان کے شوہر جانتے تھے کہ کس طرح شائستگی، عاجزی اور خدمت کا احساس وہ قیمت ہے جو شاہی خاندان کو جمہوری دور میں اپنی عظمت کے لیے ادا کرنا تھی۔ ان کی توجہ خدمت یا سروس پر تھی، اور دونوں نے یہ اہم سبق اپنی پوتیوں تک پہنچایا تھا کہ وہ نظام کے مقابلے میں کم اہم تھیں۔ انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ للیبیٹ کو لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنا آتا ہو۔
تمام اشاروں سے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل کی الزبتھ دوئم کو سات سال کی عمر تک پہنچنے تک اس بات کا حقیقت پسندانہ اندازہ ہو چکا تھا کہ انھیں آگے کیا کرنا ہے، اپنے تایا کی تخت سے دستبرداری سے کم از کم تین سال پہلے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شہزادہ ولیم نے بھی سات سال کی عمر میں ہی اپنے بیٹے جارج کو اسی طرح کی چیلنجنگ حقیقت سے آشکار کیا تھا، اس سے پہلے کہ لندن کے سکول کے کھیل کے میدان میں اس بچے کے سامنے یہ سچائی آئے۔
اپنے والد چارلس کی طرح ولیم نے بھی اپنی شاہی تقدیر کے فرائض کے بوجھ کے متعلق ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ہے۔
وہ چاہتے تھے کہ جارج نسبتاً معمول کی زندگی کے چند سالوں سے تو لطف اندوز ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ نارمل کے لیے وہ جبلت ہی ہو جو جانشینی سے پہلے کے سالوں نے الزبتھ کو دی ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کپتان کے کردار تک پہنچ گئی ہوں، لیکن وہ کبھی نہیں بھولیں کہ انھوں نے آغاز ٹیم میں بطور ایک کھلاڑی کے کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 1952 میں تخت پر بیٹھنے کے بعد، شاہی خاندان کے تناظر میں دیکھیں تو الزبتھ دوئم کے دور کو آپ ادوار میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک نسبتاً سادہ، یہاں تک کہ تقریباً تین دہائیوں تک غیر پرکشش، اور اس کے بعد 1980 کی دہائی میں چارلس کی ڈیانا کے ساتھ پریشان کن شادی کا دور جو صدی کے آخر میں میڈیا کے لیے ایک تحفہ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب بچپن میں اپنے دادا دادی سے سیکھے ہوئے اسباق ان کے کام آئے تھے۔
ملکہ کو اس مستحکم عاجزی کی ضرورت تھی جو ممکنہ دستبرداری جیسے طوفانوں مقابلہ کر سکتی۔ چارلس، ڈیانا، کمیلا، ونڈسر کی آگ، فرگی کے ساتھ اینڈریو، فرگی کے بغیر اینڈریو۔ اور کہانی کے آخر میں پوتے ہیری کی 2020 میں غیر متوقع روانگی۔ یہ ایک کے بعد ایک بحران تھا اور اس سب کے باوجود بادشاہت ان کے محفوظ ہاتھوں میں قائم رہی۔
ان کے خشک مزاح کے احساس نے ان کی مدد کی ہے۔ 1992 میں ملکہ نے ونڈسر فائر کی تباہی اور اپنے تین بچوں کی شادیوں کے مسئلے سے نمٹا۔ انھوں نے ایک مرتبہ مسکراتے ہوئے لیٹن زبان میں مذاق کیا اور کہا کہ 1992 ان کا ‘اینس ہوریبلیس’ یا بدقسمت سال تھا۔
ایک پرائیوی کونسل کی میٹنگ کے دوران جب لیبر کی وزیر کلیئر شارٹ کے موبائل فون کی گھنٹی بجی اور انھوں نے چھینپ کر اسے بند کر دیا، تو ملکہ نے ان سے استفسار کیا کہ ‘امید ہے کہ یہ کوئی اہم (شخص) نہیں ہو گا؟’
چھوٹی عمر سے ہی تیز نگاہ اور تیز سوچ رکھنے والی الزبتھ دوئم نے شاہی خاندان کی اونچ نیچ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی جس میں ایک اہم کردار ادا کرنا ان کا مقدر تھا۔
انھوں نے 1991 میں کرسمس براڈکاسٹ میں پیغام دیا کہ ‘ہمیں اپنے آپ کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔ ہم میں سے کسی کی بھی دانائی پر اجارہ داری نہیں ہے۔’
ایک شاہی قصے کے مطابق سنہ 1933 میں للیبیٹ نے بڑے اعتماد کے ساتھ اپنی بہن مارگریٹ کو بتایا، جو 1930 میں پیدا ہوئی تھیں، کہ ‘میں تین سال کی ہوں اور تم چار سال کی۔’
مارگریٹ نے، جو ابھی بچی تھیں لیکن حساب کرنا جانتی تھیں، جواب دیا: ‘نہیں، آپ نہیں ہیں۔ میں تین سال کی ہوں، آپ سات سال کی ہیں!’
مارگریٹ کو بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ پتہ چلا کہ ان کی بڑی بہن عمر کے متعلق بات نہیں کر رہی تھی۔ وہ اپنے دادا کے بعد جانشینی کی ترتیب کے حوالے سے دونوں لڑکیوں کی پوزیشنوں کا ذکر کر رہی تھیں۔ انکل ڈیوڈ، ایک؛ پاپا، دو، اور لیلیبیٹ تین۔ سات سالہ بچی بالکل اسی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھیں جس طرح سے باقی دنیا نے سوچنا شروع کر دیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دستبرداری کے بعد اور جانشینی کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے دو درجے اوپر آ کر نمبر ون بننے کے بعد 10 سالہ شہزادی کے متعلق ان کی گرینڈ مدر لیڈی سٹرتھ مور کہتی ہیں کہ پھر تو وہ ‘بڑے جوش کے ساتھ بھائی کے لیے دعائیں’ کیا کرتی تھیں۔
لیکن ان کو بچانے کے لیے کوئی چھوٹا بھائی نہیں آیا۔ اس چھوٹی لڑکی کو جس نے اپنے گھوڑوں اور کتوں کے درمیان پرورش پائی تھی، بالآخر ‘گرینڈ ما انگلینڈ’، اور ‘گرینڈ ما’ آف ویلز، شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ بننے کے چیلنج کے لیے خود کو تیار کرنا پڑا۔
رابرٹ لیسی ایک برطانوی مورخ اور سوانح نگار ہیں، جنھوں نے برطانیہ کی جدید بادشاہت کا خاص مطالعہ کیا ہے۔ ان کی سوانح عمری ‘میجسٹی: الزبتھ II اور ہاؤس آف ونڈسر’ 1977 میں شائع ہوئی تھی۔ سنہ 2015 سے وہ نیٹ فلیکس کی ٹی وی سیریز ‘دی کراؤن’ کے ہسٹوریکل کنسلٹنٹ ہیں۔
Comments are closed.