نوجوانی میں شراب نوشی زیادہ عمر میں شراب نوشی سے زیادہ خطرناک،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, ڈیوڈ رابنسن
  • عہدہ, بی بی سی فیوچر
  • 57 منٹ قبل

یونیورسٹی جانے سے ایک دن پہلے میں 18 سال کا ہو گیا یعنی پبز اور بارز میں جانے اور شراب خریدنے کی عمر کو میں نے عبور کر لیا تھا۔جب میں نے اپنے نئے گھر کے قریب ایک ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انھوں نے پوچھا کہ میں ہر ہفتے کتنے یونٹ الکوحل پیتا ہوں۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں الکوحل کی مقدار کی پیمائش کرنے کا ایک عام طریقہ ہے، جس میں 1.5 یونٹ تقریباً ایک چھوٹے گلاس شراب کے برابر ہوتی ہے۔ میں نے جلدی سے سب جوڑ کر کہا کہ ’تقریبا سات‘ ان چند خفیہ طور پر ووڈکا اور نارنگی کا مجموعہ ہوتا تھا جس سے میں اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ راتوں کو لطف اندوز ہوتا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ کم ہے، لیکن میں کبھی بھی اصول توڑنے والا نہیں تھا۔ڈاکٹر نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ’اس میں اب اضافہ ہونے والا ہے، کیونکہ تم یہاں ہو۔ وہ غلط نہیں تھی۔ چند ہفتوں کے اندر میں سٹوڈنٹ بار میں شاٹس لگانے سے پہلے خوشی سے شراب کی ایک بوتل غٹ کر جانے لگا تھا۔ میں جانتا تھا کہ زیادہ شراب نوشی عمر کے کسی حصے میں نقصان پہنچا سکتی ہے لیکن میں نے اس بات پر غور نہیں کیا تھا کہ میری جوانی 30، 40 یا 50 کی عمر والوں کے مقابلے میں اضافی خطرات کا باعث بنے گی۔ یہ درست ہے کہ تمام بالغوں کے لیے خطرات یکساں تھے؟‘اگر میں نے یہ بات سن رکھی ہوتی کہ الکوحل نوجوان بالغوں کے دماغ کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے تو شاید میں تھوڑا زیادہ محتاط ہوتا۔ 18 سال کی عمر میں میرا دماغ اب بھی تبدیل ہو رہا تھا اور پختگی تک پہنچنے میں ابھی کم از کم سات سال باقی تھے۔

اس سے ہمارے دماغ پر الکوحل کے ردعمل کا طریقہ بدل جاتا ہے اور اس نازک دور میں شراب پینا ہماری ذہنی نشوونما کے لیے طویل المدتی نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔نوجوانوں پر الکوحل کے اثرات کے بارے میں محققین سے بات کرتے ہوئے میں نے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی دوسری باتیں سنیں جن سے میں حیران رہ گیا۔ دنیا بھر کی تحقیق نے عمر اور الکوحل کے بارے میں رائج عام مفروضوں کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ جیسے کہ براعظمی یورپیوں میں برطانیہ یا امریکہ کے مقابلے میں پینے کی صحت مند ثقافت ہے، اور یہ کہ نوجوانوں کو گھر میں کھانے کے ساتھ پینے کی اجازت دینا انھیں شراب کے استعمال کے بارے میں ذمہ دار بناتا ہے۔ اس نئی سائنسی دریافت کے بعد موجودہ شراب نوشی کے قوانین میں تبدیل کی جائے یا نہیں یہ ایک پیچیدہ سیاسی مسئلہ ہے لیکن حقائق کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی آنے والی نسلوں کو کم از کم ان طریقوں کے بارے میں زیادہ باخبر انتخاب کی اجازت دے سکتی ہے جو وہ پارٹیوں کے لیے منتخب کرتے ہیں یا پھر والدین کی یہ فیصلہ کرنے میں مدد کر سکتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں شراب کو کیسے ہینڈل کریں۔،تصویر کا ذریعہHirschfeld/BBC/Getty Images

،تصویر کا کیپشنشراب نوشی پر عمر کی قید کیوں؟

چھوٹے جسم، بڑے دماغ

یہ تو واضح ہے کہ الکوحل ایک زہریلی چیز ہے۔ اس کے خطرات میں مہلک حادثات، جگر کی بیماری، اور کئی قسم کے کینسر تک شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کم مقدار میں پیٹا بھی سرطان کا باعث بن سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا ہے کہ ’جب شراب نوشی کی بات آتی ہے تو ایسی کوئی محفوظ مقدار نہیں ہے جو صحت کو متاثر نہ کرتی ہو۔‘کوئی بھی سرگرمیاں مکمل طور پر خطرے سے پاک نہیں ہیں لیکن خطرات کو ان مزوں کے مقابلے میں ماپا جاتا ہے جو الکحل لا سکتی ہیں۔ اس لیے ہماری صحت کی پالیسیاں اعتدال پسند شراب نوشی کے ساتھ نقصان کو حد میں رکھتے ہوئے بنائی گئی ہیں۔امریکہ میں اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے کہ مردوں کے لیے دن میں دو جام سے زیادہ شراب نہ پی جائیں، اور خواتین کے لیے دن میں ایک جام سے زیادہ شراب نہیں پینی چاہیے۔ بہت سے دوسرے ممالک بھی اسی طرح کی بات کرتے ہیں۔اگرچہ بیئر اور وائن کو عام طور پر محفوظ مشروبات کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن اس کے متعلق امریکہ میں جاری طبی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ شراب کی قسم اہم عنصر نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے پی جانے والی الکوحل کی مقدار اہم ہے کیونکہ ’ایک 12-اونس والی بیئر میں تقریباً اتنی ہی مقدار میں الکوحل ہوتی ہے جتنی پانچ اونس والی شراب میں یا 1.5 آونس کے الکوحل میں۔‘ الکوحل خریدنے کی عمر کے متعلق قانون سازی نقصان کی حد کی اسی قسم کی منطق کی پیروی کرتی ہے: قوانین بچوں کی حفاظت کرتے ہیں، جبکہ نوجوان بالغوں کو اپنی مرضی کا انتخاب کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ زیادہ تر یورپی ممالک میں شراب پینے کی کم از کم عمر 18 سال ہے جبکہ امریکہ میں یہ 21 سال ہے۔تاہم ایسی متعدد وجوہات ہیں دیکھی گئی ہیں جو کم عمر لوگوں میں شراب پینے کی قانونی کم از کم عمر گزر جانے کے بعد بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ ان میں سے ایک جسم کا سائز اور حجم ہے کیونکہ نوعمر 21 سال کی عمر تک اپنے بالغ قد تک نہیں پہنچ پاتے اور عمودی طور پر بڑھنا بند ہونے کے بعد بھی ان میں 30 یا 40 کی دہائی والوں کے مقابلے میں حجم کی کمی ہوتی ہے۔ماسٹرچٹ یونیورسٹی کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق اور ’بیونڈ لیجسلیشن‘ کے مصنف رووڈ رودبین کہتے ہیں: ’اس وجہ سے ایک گلاس الکوحل پینے کے نتیجے میں نوجوانوں کے خون میں الکوحل کی مقدار بالغوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔‘نوعمروں کے دبلے پتلے جسم میں بھی سر سے جسم کا تناسب زیادہ ہوتا ہے۔ میں یقینی طور پر جانتا ہوں کہ میں تھوڑا سا ’بوبل ہیڈ‘ یعنی بڑے سر کے کھلونے کی طرح نظر آتا تھا اور جسم اور سر کا یہ تناسب بھی نشہ آوری کو متاثر کر سکتا ہے۔ جب آپ الکوحل پیتے ہیں تو یہ آپ کے خون میں داخل ہوتا ہے اور آپ کے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ پانچ منٹ کے اندر یہ آپ کے دماغ تک پہنچ جاتا ہے خون کے دماغ کی رکاوٹ کو آسانی سے عبور کرتا ہے جو عام طور پر آپ کے دماغ کو نقصان دہ مادوں سے بچاتا ہے۔ روڈبین کا کہنا ہے کہ ’شراب کا ایک نسبتاً بڑا حصہ نوجوانوں کے دماغوں میں رہ جاتا ہے، اور نوجوانوں میں الکوحل کے زہر کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے۔‘ ،تصویر کا ذریعہJavier Hirschfeld/BBC/Getty Images

دماغ کی تشکیل

کھوپڑی کے اندر ہونے والی تبدیلیاں بھی اتنی ہی اہم ہیں۔ ماضی میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ٹین ایج یعنی 19 سال کی عمر تک ہم میں اعصابی نشوونما رک جاتی ہے لیکن متعدد حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نوعمر دماغ کم از کم 25 سال کی عمر تک ایک پیچیدہ ری وائرنگ سے گزرتا رہتا ہے۔سب سے اہم تبدیلیوں میں ’گرے مادے` میں کمی شامل ہے کیونکہ دماغ سائنیپسز کو کم کرتا ہے جو کہ ایک خلیے کو دوسرے خلیے کے ساتھ بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس دوران سفید مادہ جوکہ لمبی دوری کے کنکشن اور محور کے طور پر جانا جاتا ہے ایک موصلی چربی والی میان کے ساتھ احاطہ کرتا ہے وہ پھیلنے لگتا ہے۔میڈیکل یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولائنا کی نیورو سائیکولوجسٹ لنڈسے سکیوگلیا کا کہنا ہے کہ یہ ’دماغ کی سپر ہائی ویز کی طرح ہیں‘ یعنی یہ ایک زیادہ موثر نیورل نیٹ ورک ہے جو معلومات کو زیادہ تیزی سے پروسیس کر سکتا ہے۔خوشی اور انعام سے منسلک لمبک نظام سب سے پہلے پختہ ہوتا ہے۔ سکیوگلیا کہتی ہیں کہ دماغ کے ’یہ حصے نوجوانی کے دوران مکمل طور پر بالغوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ پریفرنٹل کورٹیکس جو پیشانی کے پیچھے ہوتا ہے اسے پختہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔ یہ خطہ اعلیٰ ترتیب والی سوچ کے لیے ذمہ دار ہے، جن میں جذباتی ضابطہ، فیصلہ سازی، اور خود پر کنٹرول کرنا وغیرہ شامل ہے۔ان دو خطوں کی ترقی کا نسبتاً عدم توازن اس بات کی وضاحت کر سکتا ہے کہ کیوں نوعمر یا نوجوان بالغوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ مول لیتے ہیں۔ سکیوگلیا کہتی ہیں: ’بہت سے لوگ نوجوانوں کے دماغ کو بغیر بریک کے مکمل طور پر تیار شدہ گیس پیڈل کے طور پر بیان کرتے ہیں۔‘ اور ہمارے نیوران کو الکوحل میں نہلانا جو کہ ہچکچاہٹ کو دور کرنے کے لیے جانا جاتا ہے – صرف سنسنی کو بڑھا سکتا ہے۔ خاص طور پر پرجوش نوجوانوں کے لیے الکحل برے رویے اور جرم کا ایک شیطانی چکر پیدا کر سکتا ہے۔ سکیوگلیا کا کہنا ہے کہ ’زیادہ جذباتی بچے زیادہ پینے کا رجحان رکھتے ہیں، اور پھر پینے سے زیادہ جذباتی پن پیدا ہوتا ہے۔‘ کافی زیادہ مقدار میں نوعمری میں شراب پینا دماغ کی طویل مدتی نشوونما کو متاثر کر سکتا ہے۔ طویل مدتی اثرات والے مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جلد یا کم عمر میں پینے کا تعلق گرے مادے میں تیزی سے کمی کا باعث ہے جبکہ اس سے سفید مادے کی نشوونما رک جاتی ہے۔ سکیوگلیا کہتی ہیں کہ ‘وہ سپر ہائی ویز ان بچوں میں اتنے پختہ نہیں ہوتے جو پینا شروع کر دیتے ہیں۔’

ذہنی جانچ میں ان کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔ ایک نوجوان دماغ میں مسائل کے حل کے لیے ذمہ دار حصے شراب نوشی سے ہونے والی کمی کو چھپانے کے لیے تھوڑا زیادہ محنت کر سکتے ہیں۔ تاہم وہ اسے ہمیشہ برقرار نہیں رکھ سکتے۔سکیوگلیا کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات ’کئی سالوں کے شراب پینے کے بعد میں نظر آتے ہیں جب ہم دماغ میں کم ایکٹیویشن اور ان ٹیسٹوں میں خراب کارکردگی دیکھتے ہیں۔‘ نوجوانی کی ابتدا میں ہی شراب نوشی دماغی صحت پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے، اور بعد کی زندگی میں شراب نوشی کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں میں درست نظر آتا ہے جن کی خاندانی تاریخ شراب نوشی کی رہی ہے کیونکہ وہ جتنا جلدی شراب پینا شروع کرتے ہیں ان میں شراب نوشی سے پیدا ہونے والی پریشانی کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ دماغی نشوونما کے اس نازک دور میں شراب نوشی کے اعلیٰ درجے کے خطرے سے وابستہ جین سب سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔سکیوگلیا کا کہنا ہے کہ ’اور جتنی دیر تک شراب نوشی سے بچا جائے گا اس کے جینز کے کام شروع کرنے کا امکان اتنا ہی کم ہوگا۔‘،تصویر کا ذریعہJavier Hirschfeld/BBC/Getty Images

یورپی ماڈل؟

کم عمری میں شراب پینے کے متعلق نتائج کس طرح نوعمروں کی شراب نوشی کے انتخاب اور ان کے والدین کے فیصلوں کے بارے میں کہ انھیں گھر میں کیسے اور کب پینے کی اجازت دی جائے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟سکیوگلیا کہتی ہیں: ’ہمارا پیغام اس وقت تک تاخیر کرنے کا ہے جب تک آپ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کا دماغ اب بھی ترقی کر رہا ہے، اور اپنے دماغ کو ترقی کرنے دیں اور صحت مند رہنے دیں اس سے پہلے کہ آپ الکوحل اور دیگر مادوں کے استعمال جیسی چیزوں میں مشغول ہو جائیں۔‘اس مشورے کو قانون میں شامل کیا جانا چاہیے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن سکیوگلیا کا کہنا ہے کہ شراب کے استعمال پر اپنی گفتگو میں لوگ اکثر ان سے ’شراب پینے کے یورپی ماڈل‘ کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ فرانس جیسے کچھ ممالک میں نابالغوں کو خاندانی کھانے کے ساتھ شراب یا بیئر کا گلاس پینے کی اجازت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ یورپ سے باہر بھی بہت سے والدین کا خیال ہے کہ ایک کنٹرول شدہ مقدار میں الکوحل کا آہستہ تعارف نوجوانوں کو محفوظ طریقے سے پینا اور بعد میں بہت زیادہ شراب نوشی کو کم کرنا سکھاتا ہے، جب کہ مکمل پابندی اسے ایک پرکشش ’شجر ممنوعہ‘ کی طرف لے جاتی ہے۔یہ ایک افسانہ ہے۔ سکیوگلیا کہتی ہیں کہ ’تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ والدین الکحل کے استعمال کے بارے میں جتنی زیادہ اجازت دیتے ہیں اس سے اس بات کا اتنا ہی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ بچوں کو بعد کی زندگی میں الکحل کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔‘ایک جامع جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ شجر ممنوعہ کے عقیدے کے برعکس ’نوعمروں میں الکوحل کے استعمال سے متعلق سخت قوانین نافذ کرنے والے والدین کے بچوں میں زیادہ شراب نوشی اور الکوحل سے متعلق کم خطرناک رویے ملے ہیں۔‘زیادہ تر شواہد بتاتے ہیں کہ پینے کے سخت قوانین خریداری کے لیے کم از کم عمر کے ساتھ زیادہ ذمہ دارانہ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آسٹریا کی جوہانس کیپلر یونیورسٹی لنز میں الیگزینڈر احامر کی ایک تحقیق پر غور کریں تو آپ پائیں گے کہ وہاں 16 سال سے زیادہ عمر کا کوئی بھی شخص قانونی طور پر بیئر یا شراب خرید سکتا ہے۔ اگر سخت قوانین صرف شراب کی خواہش کو بڑھاتے ہیں تو آپ امید کریں گے کہ آسٹریا میں شراب پینے کا کلچر امریکہ کے مقابلے میں زیادہ صحت بخش ہوگا جہاں شراب پینے کی کم از کم قانونی عمر 21 سال ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔دونوں ممالک میں کسی کے کم از کم عمر گزر جانے کے بعد شراب نوشی میں اضافے کا مطالعہ کیا گیا تو احامر کے مطابق یہ دیکھا گيا کہ ’آسٹریا میں 16 کی عمر میں شراب کے لیے جو جوش تھا وہ امریکہ میں 21 کی عمر میں پہلی بار شراب پینے کے جوش سے 25 فیصد زیادہ تھا۔‘ دوسرے لفظوں میں انتظار کرنا زیادہ ذمہ دارانہ رویے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیونکہ امریکیوں کو قانونی طور پر شراب خریدنے کی اجازت دیر سے دی گئی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمقدار اہم ہے

تبدیلی کی ضرورت؟

اپنے مطالعے کے شرکا سے ان کے روّیے کے بارے میں سوال کرتے ہوئے احامر نے پایا کہ آسٹریا کے لوگوں کے شراب نوشی سے وابستہ خطرات کے بارے میں تصورات ڈرامائی طور پر بدل گئے جب وہ اپنی سولہویں سالگرہ سے گزرے۔ احامر کا کہنا ہے کہ ‘جب شراب قانونی ہو جاتی ہے تو نوعمروں کو لگتا ہے کہ اس میں پہلے کی نسبت کم خطرہ ہے۔ 16 سال کی عمر میں، تحفظ کا یہ غلط احساس خطرناک ہو سکتا ہے، جب کہ 21 سال کی عمر میں زیادہ بالغ دماغ اپنی شراب نوشی کو سنبھالنے کے لیے کچھ بہتر طریقے سے لیس ہوتا ہے۔‘اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ صحت مند یورپی شراب پینے کی ثقافت کا خیال زندگی بھر کے لیے درست نہیں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی خطے میں الکوحل سے منسوب تمام کینسروں میں سے نصف ہلکے اور اعتدال پسند الکوحل کے استعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں۔سائنسی شواہد کے پیش نظر کیا حکومتوں کو قانونی طور پر شراب نوشی کی کم از کم عمر 25 سال یا اس سے زیادہ مقرر کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس عمر کے بعد دماغ کی نشوونما عام طور پر رک جاتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے، کیونکہ صحت عامہ کے فوائد کو ذاتی آزادی کے بارے میں لوگوں کے تصورات کے مقابلے میں متوازن ہونے کی ضرورت ہے۔اونٹاریو کے ہیملٹن میں میک ماسٹر یونیورسٹی میں لت یا عادت کے رویے کا مطالعہ کرنے والے جیمز میک کیلوپ کہتے ہیں: ’میرے خیال میں 25 سال کی عمر میں شراب پینے کے لیے عوام کی بھوک بہت کم ہے۔ اگر ووٹنگ کے لیے اکثریت کی قانونی عمر، یا فوج میں خدمات انجام دینے کی قانونی عمر، 18 یا 19 ہے تو ایسے میں قانونی طور پر شراب پینے کی کم از کم عمر کو زیادہ رکھنے کو منافقت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘ احامر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’کہیں نہ کہیں ہمیں لوگوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔‘ میکیلوپ اس کے بجائے یہ تجویز کرتے ہیں کہ نوعمروں کو الکحل کے خطرات، اور ان طریقوں کے بارے میں بہتر تعلیم فراہم کی جائے کہ کہ یہ کس طرح سے پختہ ہونے والے دماغ کو متاثر کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب شراب نوشی کی بات آتی ہے یہ بہت پرامید مفروضہ ہوگا کہ آپ ہ فرض کر لیں کہ لوگ قدرتی طور پر ذمہ دارانہ عادات پیدا کریں گے۔‘ اب واپس اپنی جوانی پر نظر ڈالتے ہوئے مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ میرے الکوحل کے استعمال سے میرے مسلسل پختہ ہوتے ہوئے دماغ اور اس کی وائرنگ کیا اثرات پڑیں ہوں گے۔ مجھے امید نہیں ہے کہ میں شراب نوشی سے یکسر الگ ہوتا کیونکہ میں طویل مدتی صحت کے خطرات کو جاننے کے باوجود اب بھی کبھی کبھی پیتا ہوں، لیکن میں نے ایک اضافی پیگ خریدنے سے پہلے دو بار ضرور سوچا ہوگا۔’
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}