کراچی کے نسلہ ٹاور کے رہائشیوں کا کڑا امتحان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
پہلے آشیانہ چھنا اور اب منہدم فلیٹ سے نکلا لاکھوں روپے مالیت کا تعمیراتی سازوسامان انکی مرضی کے بغیر بیچ دیا گیا۔
عوام کا کوئی والی و ارث نہیں، شہر کراچی میں اس مثال کی عبرت ناک تصویر نسلہ ٹاور رہائشی بنے ہیں۔
آشیانے بکھرنے کے بعد فلیٹ کے معاوضے کی کوئی خبر نہیں، البتہ فلیٹ کا سریہ، کھڑکی دروازے و دیگر کروڑوں روپے کا تعمیراتی سامان ان کی مرضی کے بغیر دن دہاڑے بیچ دیا گیا۔
سینیئر سول انجینئرز اور بلڈرز کے مطابق اس سائز کی عمارت میں تقریباً 700 ٹن سریے کے استعمال کا تخمینہ ہے، منہدم عمارت سے 9 کروڑ روپے سے زائد کا سریہ نکالا گیا ہے۔
فی کلو تقریباً 130 روپے میں فروخت کا پیسہ مالک کو نہ دیے جانے سے ایک فلیٹ مالک تقریباً 20 لاکھ روپے سے محروم ہوگیا۔
مزید یہ کہ فلیٹ کا صرف سریہ ہی نہیں بکا، کھڑکی دروازے، پائپس، بجلی کے تار، لفٹس، سینیٹری حتیٰ کہ ملبہ بھی بیچ دیا گیا۔
یوں اپنا گھر لٹنے کے بعد کرایے یا رشتے داروں کے ہاں رہنے والے رہائشی اب تک ملبے کی رقم سے بھی محروم رہے۔
ڈیمولیشن ٹھیکدار کا دعویٰ ہے بلڈر کی جانب سے سریہ خطرناک حد تک کم استعمال ہوا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز کے سینئر ممبر راحیل رنچ کے مطابق بلڈرز کی جانب سے کم سریہ استعمال کا دعویٰ غلط ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کورٹ حکم انہدام اور معاوضے دونوں کا تھا لیکن صرف ایک کام ہوا ہے، معاوضہ حکومت دے گی کیونکہ بلڈر معاوضے کی پوزیشن میں نہیں جبکہ ایسوسی ایشن آف بلڈرز کا معاوضے میں حصہ ڈالنے کا ارادہ نہیں۔
بعض افراد سمجھتے ہیں ٹاور گرانے کا حکم صوبائی حکومت کو تھا اس لیے عمارت گرانے پر ٹھیکیدار کا کل خرچ و منافع حکومت کو دیا جانا چاہیے تھا، لیکن ٹھیکیدار سے ٹھیکے کی سرکاری فیس 3 کروڑ روپے لی گئی۔
فلیٹ مالکان بڑے چاہ سے سجائے آشیانوں پر پڑتے تابڑ توڑ ہتھوڑوں کی گونج سنتے رہے، پھر ان کے گھروں سے لوہا و دیگر سامان نوچ لیا گیا اور پھر فی فلیٹ تقریباً 25 لاکھ روپے کا لوہا، سامان اور ملبہ انکی مرضی کے بغیر بیچ دیا گیا۔
Comments are closed.