کراچی کے نسلہ ٹاور کیس میں سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) منظور کاکا کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
صوبائی اینٹی کرپشن کورٹ میں سابق ڈی جی ایس بی سی اے منظور قادر کاکا کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔
منظور قادر کاکا عدالت میں پیش ہوئے جن کی 5 لاکھ روپے کی ضمانت منظور کرلی گئی۔
وکیل افتخار احمد شاہ کا کہنا تھا کہ لینڈ الاٹمنٹ سے منظور قادر کاکا کا کوئی تعلق نہیں تھا۔
واضح رہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن نے نسلہ ٹاور کیس میں سابق ڈی جی ایس بی سی اے منظور قادر کاکا کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
مقدمے میں 21 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے سابق ڈی جی منظور قادر کاکا کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا، جبکہ مقدمے میں مالک نسلہ ٹاور مزمل امین اور چیئرمین سندھی مسلم سوسائٹی غالب منصور کو بھی نامزد کیا گیا، محکمہ ماسٹر پلان کے 4 اور ایس بی سی اے کے 10 افسران بھی مقدمے میں نامزد کیے گئے تھے۔
محکمہ ماسٹر پلان کے ای ڈی او حافظ جاوید، ولایت علی اور بشیر احمد کو بھی نامزد کیا گیا، ایس بی سی اے کے آشکار داور، علی مہدی، صفدر مگسی اور فرحان قیصر کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا۔
جمشید ٹاؤن کے مختیار کار خیر محمد ڈاہری سمیت ایس بی سی اے اور محکمہ ماسٹر پلان کے افسران بھی مقدمے میں نامزد کیے گئے تھے۔
اینٹی کرپشن کا کہنا تھا کہ ملزمان پر نسلہ ٹاور کو 262 اسکوائر یارڈ دینے کا الزام ہے۔
نسلہ ٹاور بلڈر کا لالچ مکینوں کو لے ڈوبا
نسلہ ٹاور بلڈر کا لالچ مکینوں کو لے ڈوبا، 340 گز کی زمین ہتھیانے کے چکر میں لینے کے دینے پڑ گئے تھے سروس روڈ کی ساری حدود اضافی جگہ قبضہ کرنا بلڈر کا جرم قرار پایا تھا۔
تفصیلات کے مطابق نسلہ ٹاور 15 منزل پر مشتمل تھا جس میں 150 فلیٹس تھے اور 150 فلیٹس میں سے 44 فلیٹس آباد تھے ہر فلیٹ کی قیمت ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ روپے بتائی جاتی تھی۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے نسلہ ٹاورکو نان آبجیکشن سرٹیفکٹ (این او سی) 2013 میں جاری کیا گیا حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق چیف کمشنر کراچی نے 1957 میں مذکورہ پلاٹ میں 264 گز کے اضافے کی منظوری دی۔ الاٹمنٹ لیٹر میں شاہراہ فیصل کی چوڑائی 280 فٹ درج تھی جبکہ شاہراہ فیصل کی موجودہ چوڑائی 240 فٹ ہے یعنی 40 گز مزید زمین بلڈر نے ہتھیا لی۔ اس طرح 1980 میں شاہراہ فیصل کے دونوں جانب 20 فٹ کا رقبہ پلاٹس میں شامل کردیا گیا نسلہ ٹاور کا 780 گز کا پلاٹ 1044 گز کا ہوگیا۔
نسلہ ٹاور کا معاملہ سپریم کورٹ میں 30 دسمبر 2020 کو اس وقت سامنے آیا جب اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے از خود نوٹس لیتے ہوئے استفسار کیا تھا کہ شاہراہ قائدین پر ایک بلند عمارت کھڑی ہے عدالت کو اس عمارت کی قانونی حیثیت سے آگاہ کیا جائے کہ اچانک پچاس سال پرانے علاقے میں ایک پلاٹ کیسے نکل آیا 8 اپریل کو دوران سماعت ڈپٹی کمشنر شرقی کی عدم پیشی پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا، دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا تھا کہ نسلہ ٹاور کے بلڈز کو طلب کرکے پوچھ لیا جائے۔
عدالتی استفسار پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے وکیل نے بتایا تھا کہ عمارت بالکل قانون کے مطابق ہے۔ چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا یہ ایس بی سی اے کے ترجمان کم اور بلڈز کے زیادہ ہیں، عدالت نے کمشنر کراچی کو ذاتی حیثیت میں انکوائری کرنے کی ہدایت دی جس پر اگلے روز ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نسلہ ٹاور کو لے آؤٹ پلان کی خلاف ورزی کا نوٹس جاری کردیا تھا۔ 14 جون کو لارجر بینچ کے روبرو کمشنر کراچی نے رپورٹ جمع کروائی تھی کہ نسلہ ٹاور میں کچھ حصہ فٹ پاتھ کا شامل کیا گیا ہے جس پر عدالت نے سخت اظہار برہمی کیا تھا۔
Comments are closed.