نریندر مودی کا دورہ روس اور مغرب کی تشویش: ’سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ دنیا کے سب سے خونی مجرم کو گلے لگا رہا ہے‘
- مصنف, انبراسن ایتھیراجن
- عہدہ, بی بی سی نیوز، دلی
- 14 منٹ قبل
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے تیسری بار وزارت عظمی کا عہدہ اٹھانے کے بعد پہلے بیرونی دورے کے لیے روس کے انتخاب اور صدر پوتن سے ملاقات کو ان کے مغربی اتحادی بہت گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں۔نریندر مودی سوموار کو اس وقت روس پہنچے جب چند ہی گھنٹوں قبل یوکرین میں روسی بمباری کی وجہ سے کم از کم 41 افراد کی ہلاکت ہوئی۔ روسی بمباری کے اہداف میں کیئو میں واقع ایک بچوں کا ہسپتال بھی شامل تھا جس کے بعد عالمی سطح پر حملے کی مذمت کی گئی۔تاہم ماسکو سے سامنے آنے والی تصاویر میں کھلکھلاتے ہوئے نریندر مودی روسی صدر کو گلے لگاتے ہوئے نظر آئے۔ انڈیا میں ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہو چکی ہے جس میں مسکراتے ہوئے پوتن نریندر مودی کو ’میرا بہترین دوست‘ کہہ کر پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں دیکھ کر ’بہت خوشی ہوئی۔‘2019 کے بعد نریندر مودی کا یہ پہلا روس کا دورہ ہے جو دو دن پر محیط ہو گا لیکن یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب واشنگٹن یعنی امریکہ میں منعقد ہونے والے نیٹو کے اجلاس میں روس کا حملہ زیر بحث آنے والا ایک اہم معاملہ ہو گا۔
انڈیا، جو ایک بڑی عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے، روس کے ساتھ ساتھ امریکہ سمیت مغربی اتحادیوں سے قریبی تعلقات قائم کیے ہوئے ہے اور دلی میں حکام ایسے سوالات کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے جن میں نریندر مودی کے دورے کے وقت پر بات کی جا رہی ہے۔ان حکام کا کہنا ہے کہ روس میں ہونے والا سالانہ اجلاس طویل سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا حصہ ہے جس کا نیٹو اجلاس سے کوئی تعلق نہیں۔،تصویر کا ذریعہX/@narendramodiتاہم امریکہ کی جانب سے تشویش کے اظہار نے اس کہانی میں کھٹائی کا عنصر شامل کر دیا ہے۔ امریکہ محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے نریندر مودی سے کہا ہے کہ وہ اپنے دورے کے دوران یوکرین کی سرحدی سالمیت اور خود مختاری کا معاملہ بھی اٹھائیں۔میتھیو ملر نے یہ بھی کہا کہ امریکہ نے انڈیا کے روس سے تعلقات پر سفارتی طور پر خدشات کا اظہار کیا ہے۔سوموار کے دن ایک پریس بریفنگ میں میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’ہم انڈیا پر زور دیں گے، جیسا ہم روس سے بات کرنے والے کسی اور ملک سے کہتے ہیں، کہ وہ یہ واضح کرے کہ یوکرین تنازع کا کوئی بھی حل اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہونا چاہیے، جس میں یوکرین کی سالمیت اور خود مختاری کا خیال رکھا جائے۔‘دوسری جانب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے اپنے خیالات کا اظہار کھل کر کیا۔ انھوں نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’یہ بہت مایوس کن ہے اور امن کی کوششوں کے لیے ایک دھچکہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ دنیا کے سب سے خونیں مجرم کو ایسے دن پر گلے لگا رہا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہAFPنیٹو اجلاس، جو منگل کو شروع ہوا، اس مغربی دفاعی اتحاد کے قیام کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہو رہا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کے خلاف بنایا گیا تھا۔نیٹو ممالک نے یوکرین پر روسی حملے کی مخالفت کی ہے جبکہ انڈیا اور نریندر مودی پوتن کی تنقید سے گریز کرتے رہے ہیں۔ ان کی جانب سے صرف مزاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازع حل کرنے کی بات ہی کی گئی ہے۔ایک جانب جب مغربی ممالک پابندیوں کی مدد سے روس کو تنہا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پوتن چین، انڈیا، ترکی سمیت دیگر ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ایسے میں یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ آیا نریندر مودی کی روس میں موجودگی صدر پوتن کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی اور انڈیا کیا پیغام دے رہا ہے؟ونے کوترا انڈیا کی وزارت خارجہ میں پرمننٹ سیکرٹری ہیں۔ انھوں نے دورے سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دوطرفہ دورہ صرف شیڈولنگ کا معاملہ ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔‘واضح رہے کہ سرد جنگ کے زمانے سے ہی انڈیا اور روس کے درمیان قریبی دفاعی اور سٹریٹیجک تعلقات رہے ہیں اور ماسکو انڈیا کو اسلحہ فراہم کرنے والے اہم ممالک میں شامل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی افواج رکھنے والے ممالک میں شامل انڈیا اپنے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین سے سرحدی تنازعات رکھتا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کا روس کو اہمیت دینا کوئی حیران کن بات نہیں ہے اور یہ تعلق دفاعی لین دین سے بہت بڑھ کر ہے۔،تصویر کا ذریعہAFPپنکج سرن سابق انڈین سفارت کار ہیں جو ماسکو میں بطور سفیر بھی کام کر چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو انڈیا کی سفارتی پالیسی میں روس ایک مستقل چیز رہی ہے۔‘’اس تعلق کا مرکزی ستون دفاعی شراکت داری، توانائی اور سائنس ٹیکنالوجی ہیں۔‘ روس نے انڈیا میں جوہری پلانٹ بنانے کے لیے بھی تکنیکی مدد فراہم کی ہے۔یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی انڈیا کم قیمت پر روس سے اربوں ڈالر مالیت کا تیل خرید رہا ہے جب مغربی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔تیل کی بڑھتی ہوئی خرید و فروخت کی وجہ سے انڈیا اور روس کے درمیان باہمی تجارت گزشتہ چند سال میں 65 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ انڈیا کی جانب سے روس کو بھیجی جانے والی برآمدات کا تخمینہ چار ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔انڈین حکام کا کہنا ہے کہ نریندر مودی حالیہ دورے کے دوران اس معاملے پر بھی بات کریں گے اور انڈیا میں روسی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کریں گے جبکہ دفاعی پروڈکشن انڈیا منتقل کرنے پر بھی بات ہو گی۔20 سال سے مغرب، خصوصی طور پر امریکہ، نے انڈیا سے تعلقات کو بہتر کیا ہے جسے چین کے خلاف مغربی حکمت عملی کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔انڈیا نے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے اتحاد میں شمولیت بھی اختیار کی ہے جو ایشیا پیسیفک میں چین کے بڑھتے اثرورسوخ کو روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم مغربی دنیا کی وجہ سے پوتن نے چین سے تعلقات کو مضبوط کیا ہے اور یہ پیش رفت انڈیا میں بھی غور سے دیکھی جا رہی ہے جو چین کے ساتھ سرحدی تنازعے رکھتا ہے۔2020 میں لداخ کے خطے میں ایک جھڑپ میں 20 انڈین اور کم از کم چار چینی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔انڈیا میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ کے مضبوط ہوتے تعلقات میں کہیں اسے نقصان نہ ہو۔پنکج سرن کہتے ہیں کہ ’دلی میں اس بات پر غور کیا جا رہا ہے کہ کس طرح روس کے ساتھ دوستی کو قائم رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جن کی وجہ سے روس مذید چین کی بانہوں میں چلا جائے جس کی بنیادی وجہ امریکہ اور مغربی پالیسیاں ہیں۔‘انڈیا نے اب امریکہ سمیت فرانس اور اسرائیل سے بھی اسلحہ خریدا ہے تاہم اب بھی اس کا انحصار روس پر بہت زیادہ ہے۔سابق سفیر اور ووکنندا انٹرنیشنل فاونڈیشن کے فیلو انیل کہتے ہیں کہ ’ایسی خبریں موجود ہیں کہ ایس 400 میزائل ڈیفینس سسٹم کا باقی ماندہ حصہ اور چند پرزوں کی فراہمی میں تاخیر ہوئی۔ تو شاید اس دورے میں اس پر بھی بات چیت ہو گی۔‘ایسا نہیں ہے کہ انڈیا اور روس کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ ایسی متعدد خبریں سامنے آئی ہیں جن کے مطابق انڈین شہریوں کو نوکری کے جھوٹے وعدوں کی مدد سے یوکرین کے خلاف جنگ میں شامل کیا گیا۔ اب تک اس جنگ میں روس کی جانب سے لڑتے ہوئے چار انڈین شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانڈین حکام کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران نریندر مودی صدر پوتن سے کہیں گے کہ انڈین شہریوں کو، جو اب تک جنگ میں لڑائی کا حصہ ہیں اور جن کی تعدادا درجنوں میں بتائی جاتی ہیں، فارغ کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک واپس جا سکیں۔انڈیا اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے چین کے خلاف امریکہ اور روس دونوں ہی کی ضرورت ہے۔ اسی لیے انڈیا سمجھتا ہے کہ اسے دونوں کے ساتھ احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔انیل کا کہنا ہے کہ ’انڈیا کی پالیسی سٹریٹیجک خود مختاری اور ایک سے زیادہ اتحاد کی ہے۔ ہم روس اور امریکہ دونوں سے سٹریٹیجک تعلقات رکھتے ہیں اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.