نامور امریکی بروکرز کو آٹھ ملین ڈالر کا جھانسہ دینے والے پاکستانی نژاد عمر خان کون ہیں؟،تصویر کا ذریعہSENSEI INTERNATIONAL

  • مصنف, ریاض سہیل
  • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
  • ایک گھنٹہ قبل

امریکہ میں پاکستانی نژاد بزنس مین اور سابق سفیر کے بیٹے عمر خان نے دنیا کی سب سے بڑی سٹاک ایکسچینج وال سٹریٹ کے نامور بروکرز کو دھوکہ دینے کا اعتراف کیا ہے۔عمر خان پر الزام ہے کہ انھوں نے طعام کی تقریبات میں سرمایہ کاری کے نام پر لوگوں سے آٹھ ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ہتھیائی تھی۔

وہ محفلیں جو کبھی نہیں ہوئیں

یہ کہانی مئی 2015 کو امریکہ کے شہر نیویارک سے شروع ہوتی ہے جب وال سٹریٹ کی ایک بزنس کمپنی میں بطور ریسرچر کام کرنے والے کرسیمیر پیوینک نے عمر خان کی پرتعیش دعوت میں شرکت کی۔ان خصوصی طور پر منعقد کردہ تقریبات کا خاصہ دنیا کی نایاب اور قدیم وائن یعنی شراب کا اہتمام ہوتا تھا کیوںکہ عمر خان نے 2013 میں نیو یارک میں انٹرنینشل بزنس اینڈ وائن سوسائٹی کے نام سے وائن ڈائن کا آغاز کیا تھا۔

انھوں نے اپنا مقصد کاروباری فورمز کو شراب نوشی کے شوق سے جوڑنا، اعلیٰ مقررین کو سننا، اعلیٰ طعام اور نایاب شراب سے لطف اندوز ہونا قرار دیا تھا۔54 سالہ کرسیمیر پیوینک کی پیدائش کروشیا کی ہے جہاں وہ ریاضیات کے استاد تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد امریکہ منتقل ہونے اور بعد ازاں کمپیوٹر پروگرام کے ایلگوردھم کی مہارت کے باعث وہ ایک معاشی سروس کمپنی میں ملازمت اختیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔بی بی سی اردو کے پاس موجود عمر خان کے خلاف درج مقدمہ کی کاپی کے مطابق کرسیمیر پیوینک نے بتایا کہ پہلے ڈنر کے بعد عمر خان ان کے دوست بن گئے اور ان کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہو گئے لیکن بدقسمتی سے وہ نہیں سمجھ پائے کہ وہ ایک خوبصورت جھانسے میں آگئے ہیں اور ایک خطرناک جال میں پھنس چُکے ہیں۔ابتدائی طور پر عمر خان کرسیمیر پیوینک سے 1500 ڈالرز سے 8500 ڈالر فی تقریب شرکت کی فیس وصول کرتے تھے لیکن کبھی کبھار کسی تقریب کی فیس 25000 ڈالر تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ اس عرصے میں عمر خان کرسیمیر پیوینک کو قائل کرنے لگے کہ وہ ان کے ساتھ امرا کے لیے وائن اینڈ ڈائن محفلوں میں سرمایہ کاری کریں۔اگلے ہی ماہ یعنی جون 2015 میں عمر خان نے کرسیمیر پیوینک سے رابطہ کیا اور ایک محفل کے لیے 60 ہزار ڈالر سرمایہ کاری کی درخواست کی اور بتایا کہ اس تقریب پر ایک لاکھ 27 ہزار امریکی ڈالرز کی لاگت آئے گی جو لندن میں منعقد کی جانی تھی۔مقدمے میں سامنے آنے والی معلومات کے مطابق پہلے یہ تقریب جون 2015 میں ہونی تھی لیکن بعد میں فروری 2017 میں اس کے انعقاد کے بارے میں بتایا گیا اور کرسیمیر پیوینک کو کہا گیا کہ منافع میں آدھا آدھا حصہ ہو گا۔،تصویر کا ذریعہCrain’s New York Business/David Neffعمر خان نے پیوینک کو کہا کہ یہ تقریب پہلے سے بھی بڑی ہو گی لہذا مزید 75 ہزار ڈالر منتقل کیے گئے۔ لیکن حقیقت میں تو یہ تقریب کبھی ہوئی ہی نہیں۔ایک ماہ کے بعد عمر خان نے پیوینک سے رابطہ کیا اور ایک دوسرے ڈنر یعنی ایک اور تقریب میں 75 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ اس تقریب کی لاگت ایک لاکھ 23 ہزار ڈالر بتائی گئی جو 24 فروری 2015 کو منعقد ہونا تھی۔تاہم عمر خان نے بتایا کہ ان کو صرف ساڑھے 67 ہزار ڈالر کا منافع ہوا۔ پیوینک کو رقم کی واپسی تو نہیں ہوئی لیکن بقول ان کے انھیں بتایا گیا کہ ایک اور تقریب میں سرمایہ لگایا گیا ہے۔ پیوینک کی یادداشت کے مطابق صرف یہ ہی ایک تقریب منعقد ہوئی۔کرسیمیر پیوینک کے علاوہ سانفورڈ سی برنسٹین کے سی ای او اور چیئرمین رابرٹ وان بروگ، کیٹو انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اربرٹ گیلفنڈ، پیٹر سلاگووٹز، سپرس کیپیٹل کے سی ای او اور مورگن سٹینلے کے نائب صدر لورین شیفگر نے بھی عمر خان پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا ہے۔ان تمام متاثرین کا دعویٰ ہے کہ ان سے مجموعی طور پر آٹھ ملین امریکی ڈالر کا فراڈ کیا گیا۔ ان سب میں سے سب زیادہ مالی نقصان کرسیمیر پیوینک کو ہوا جنھوں نے پانچ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

شراب اور کاروباری باتیں

عمر خان کا فلسفہ تھا کہ انھیں ایسا کوئی فورم نہیں مل سکا جس میں شراب کا معقول بندوبست ہو نہ ہی ایسی کوئی ایلیٹ وائن سوسائٹی موجود تھی کہ جو اپنے ممبران کو کاروبار پر بات کرنے پر ترغیب دے۔ان کا یہ تصور سن کر ان کے انٹرویوز فورب میگزین اور بلوم برگ میں بھی شائع ہوئے۔2015 کے ایک انٹرویو میں عمر خان نے فوربز میگزین کو بتایا کہ لفظ سمپوزیم کا اصل معنی شراب پینے کی پارٹی تھی جہاں آپ زبردست گفتگو کریں۔عمر خان کے خلاف دائر مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خان نے متاثرین سے اپنی پارٹیوں میں ملاقاتیں کی تھیں جہاں نامور شیف خصوصی طعام پیش کرتے تھے اور شہر کے نامی گرامی امرا و سرمایہ کاروں کو عمر خان اپنی دعوتوں میں مدعو کرکے ان سے رابطے اور تعلقات کا تاثر دیکر سرمایہ کاروں پر اثر انداز ہوتے تھے۔عمر خان کی جانب سے محفلوں میں ونٹج وائن پیش کیے جانے کا دعوی کیا جاتا تھا جو ہر جگہ دستیاب نہیں ہوتی تھی۔ تاہم بعد میں اس دعوے پر بھی سوالات اٹھے اور ان کی ادائیگی پر مقدمات بھی بنے۔فرانس کے شہر بیون میں ایک ہوٹل کے مالک ژان کلود برنارڈ نے مقدمہ دائر کیا کہ وہ ایسے ہی ایک خصوصی عشائیے کا منافع ادا کرنے میں ناکام رہے جہاں ایک شام میں شراب کی 36 ونٹج بوتلیں دی گئیں جن میں مانڈیو ویگو 1973 کی ڈومین ڈی لا رومنی کونٹی مونٹراشیپ جیسی نایاب وائن پیش کی گئیں۔سان فرانسسکو کی وفاقی عدالت میں ناپا ویلی وائینری کے مالک ڈیوڈ سینگل نے مقدمہ کیا۔ یہ 23 ونٹیج بوتلوں میں سرمایہ کاری کا مقدمہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمر خان ان بوتلوں کی حقیقت و صداقت کا معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ تاہم بعد میں انھوں نے ایک لاکھ 25 ہزار امریکی ڈالرز کے ہرجانے کے ساتھ تصفیہ کر لیا تھا۔

عمر خان کون ہیں؟

،تصویر کا ذریعہEntrepreneurs’ Organizationعمر خان کی کمپنی سینسی انٹرنیشنل کی ویب سائٹ پر ان کے تعارف میں لکھا ہوا ہے کہ وہ مصر میں پیدا ہوئے اور ایک سابق پاکستانی سفارت کار کے بیٹے ہیں۔عمر خان نے برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔عمر خان کے والد نجم ثاقب خان پاکستان کی فارن سروس یعنی وزارت خارجہ میں رہے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل فارن سروس انسٹیٹیوٹ کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ ثاقب خان کویت، سعودی عرب اور امریکہ میں بھی پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔ثاقب خان نے بعد میں امریکہ میں سکونت اختیار کرلی تھی اور جنوری 2012 میں ان کی وفات ہوگئی تھی۔ثاقب خان بھی امریکہ کے کئی کلبز کے ممبر اور مختلف فورمز پر سپیکر رہے۔ وہ جے پی مورگن انٹرنیشنل کونسل کے رکن بھی رہے۔ آئی بی اے کراچی میں ان کی جانب سے عطیہ کی گئی 3000 کتابیں آج بھی موجود ہیں۔عمر خان نیویارک کے متمول علاقے مین ہٹن کی ایک بلند وبالا عمارت میں رہتے تھے اور کمپنی ویب سائٹ کے مطابق وہ نیورو لسانی پروگرامنگ کے علمبرداروں میں سے ایک ہیں جو زبان کا استعمال کرتے ہوئے دوسروں پر اثر انداز ہونے کی تربیت دیتے تھے۔ انھوں نے دو کتابیں بھی تحریر کی ہیں۔

اب کیا ہو گا؟

امریکہ میں مقدمہ ہونے کے بعد عمر خان سری لنکا چلے گئے تھے اور فروری 2020 میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جس کے بعد مقدمہ سست روی کا شکار ہو گیا۔استغاثہ کے مطابق امریکہ کا محکمہ انصاف عمر خان کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا تھا، جب سری لنکا نے انھیں اس سال کے اوائل میں ویزے میں قیام کی مدت سے زیادہ عرصے تک قیام کرنے پر ملک بدر کر دیا جس کے بعد امریکہ واپسی پر جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے انھیں حراست میں لے لیا گیا۔عمر خان کے وکیل اینڈریو ڈی لاک نے بی بی سی کی جانب سے بھیجی گئی ایک ای میل کے جواب میں تصدیق کی ہے کہ عمر خان نے چوری کے جرم کا اعتراف کیا جس میں دو سال قید اور ایک سال بعد از جیل پروبیشن کی سزا ہے۔اس مقدمے میں سزا سنانے کی تاریخ فی الحال 10 جون 2024 مقرر کی گئی ہے۔ان کے بقول ’عمر خان اس پورے واقعے کو پیچھے چھوڑنے کے لیے بہت بے تاب ہیں اور اپنے خاندان کی محبت اور حمایت کے شکر گزار ہیں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}