- مصنف, وکٹوریا گِل
- عہدہ, نامہ نگار برائے سائنس، بی بی سی نیوز
- ایک گھنٹہ قبل
گرین لینڈ کے ایک دوردراز علاقے میں زمین سرکنے کے ایک بڑے واقعے نے ایک ایسی سمندری لہر کو متحرک کیا جس نے نو دن تک ’زمین کو ہلا کر رکھ دیا‘۔گذشتہ ستمبر دنیا بھر میں زلزلہ پیما مراکز نے ایسے سگنل ریکارڈ کیے تھے جس نے سائنسدانوں کو یہ کھوج لگانے پر مجبور کیا کہ یہ زلزلے آخر کیوں اور کہاں سے آئے؟زمین سرکنے کے اس واقعے میں پہاڑ کا ایک پورا حصہ سمندر میں گرا جس نے 200 میٹر کی لہر پیدا کی۔ پھر وہ لہر ایک تنگ فیورڈ (پانی کا ایک لمبا، گہرا، تنگ علاقہ جو زمین کے اندر تک پہنچتا ہے) میں ’پھنس گئی‘ اور نو دن تک اپنی حرکت کی وجہ سے تھرتھراہٹ پیدا کرتی رہی۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح زمین کھسکنے یا تودے گرنے کے واقعات موسمیاتی تبدیلی کے نیتجے میں گرین لینڈ کے پہاڑوں کو سہارا دینے والے گلیشیئرز کے پگھلنے کے ساتھ زیادہ کثرت سے پیش آ رہے ہیں۔اس واقعے کی تحقیقات کے نتائج، جو سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں، سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم اور ڈنمارک کی بحریہ پر مشتمل ایک تحقیقاتی مشن نے اخذ کیے ہیں۔اس تحقیق میں شامل سائنسدان اور یونیورسٹی کالج لندن کے محقق ڈاکٹر سٹیفن ہکس کا کہنا ہے ’جب ہمارے ساتھیوں نے پچھلے سال پہلی بار اس سگنل کو دیکھا، تو یہ زلزلے جیسا کچھ نہیں لگتا تھا۔ ’ہم نے اسے ’نامعلوم زلزلہ نما چیز‘ کہا تھا جو نو دن تک ہر ڈیڑھ منٹ بعد ظاہر ہوتی تھی۔‘متجسس سائنسدانوں کے ایک گروپ نے آن لائن چیٹ پلیٹ فارم پر اس حیران کن سگنل پر بحث شروع کی۔ڈاکٹر ہکس کے مطابق یہی وہ وقت تھا جب ’ڈنمارک کے سائنسدانوں کو، جو گرین لینڈ میں بہت زیادہ کام کرتے ہیں، سونامی کی اطلاعات موصول ہوئیں جو کہ ایک دور دراز کے علاقے میں آیا۔ سو پھر ہم نے ساتھ کام شروع کر دیا۔‘محققین نے زلزلے کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے پتا لگایا کہ اس سگنل کا ماخذ مشرقی گرین لینڈ میں ڈکسن فیورڈ کا علاقہ ہے۔ اس کے بعد انہوں نے دوسرے سراغ اکٹھے کیے، جن میں سیٹلائٹ اور فیورڈ کی تصاویر شامل تھیں جو سگنل ظاہر ہونے سے عین قبل ڈنمارک کی بحریہ نے لی تھیں۔
- لینڈ سلائیڈنگ والے علاقوں میں کیا احتیاط ضروری ہے؟30 جولائی 2023
- وہ شہر جہاں بکری کا فضلہ ڈالروں میں فروخت ہو رہا ہے8 ستمبر 2024
سیٹلائٹ کی تصویر میں فیورڈ میں ایک تنگ علاقے میں دھول کا بادل دیکھا گیا۔ اس واقعے سے پہلے اور بعد کی تصاویر کا موازنہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ دھول ایک پہاڑ کے گرنے اور اپنے ساتھ گلیشیئر کے کچھ حصے کو پانی میں بہا لے جانے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔محققین نے بالآخر یہ پتا لگایا کہ 25 ملین کیوبک میٹرچٹان- جس کا حجم ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ جیسی 25 عمارتوں کے برابر تھا- پانی میں گری، جس سے 200 میٹر اونچی ’میگا سونامی‘ پیدا ہوئی۔اس واقعے کے بعد لی گئی تصویروں میں، گلیشیر پر پانی کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں جو اس دیوہیکل لہر کی اونچائی کی تصدیق کرتا ہے۔،تصویر کا ذریعہWieter Boone
’سونامی کی لہر پھنس کر رہ گئی‘
سونامی، عام طور پر زیر زمین یا زیرِ آب زلزلوں کی وجہ سے، کھلے سمندر میں چند گھنٹوں کے اندر پھیل جاتی ہے۔ لیکن یہ لہراس مقام پر پھنس کر رہ گئی۔ڈاکٹر ہکس کا کہنا ہے کہ ’یہ لینڈ سلائیڈ کھلے سمندر سے تقریباً 200 کلومیٹر ساحل کی طرف والے علاقے میں ہوئی اور چونکہ یہ فیورڈ سسٹم واقعی پیچیدہ ہیں، لہٰذا لہر اپنی توانائی کو ختم نہیں کر سکی۔‘ٹیم نے ایک ایسا ماڈل بنایا جس میں یہ دکھایا گیا کہ کیسے، سونامی کی لہر منتشر ہونے کی بجائے، نو دن تک آگے پیچھے حرکت کرتی رہی۔ڈاکٹر ہکس کا کہنا ہے ’ہم نے اتنے طویل عرصے تک پانی کی اتنی بڑی نقل و حرکت کبھی نہیں دیکھی۔‘سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ گرین لینڈ میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ہوئی جس سے پہاڑ کی بنیاد میں موجود گلیشیئر پگھل گئے۔ڈاکٹر ہکس نے کہا کہ ’وہ گلیشیئر اس پہاڑ کو سہارا دے رہا تھا، مگر یہ اتنا پتلا ہو گیا کہ وہ پہاڑ کو سنبھال ہی نہیں سکا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اب ان علاقوں کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہCopernicus Sentinel Data, 2023/ESA
سونامی کیا چیز ہے؟
سونامی کا لفظ جاپانی زبان کا لفظ ہے جو سمندر کی سطح کے نیچے آنے والے زلزلوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لہروں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اس قسم کی لہریں مختلف رفتار سے سفر کرتی ہیں لیکن ان کی رفتار شروع میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو بعد میں آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ یہ لہریں جب ساحل سے ٹکراتی ہیں تو ان لہروں کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.