نازی دور کی ٹائٹینک فلم: پروپیگنڈہ، زیادتی اور المیے کی کہانی

  • مصنف, فرنانڈو ڈؤرٹے
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

نازی ٹائٹینک پروپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نازی جرمنی نے پروپیگنڈہ کرنے کے لیے ایک بہت ہی مہنگی فلم کی تیاری کے لیے ایک بڑی رقم مختص کی تھی۔

ٹائٹینک کا ڈوبنا ایک مشہور فلمی تھیم ہے ۔ 1997 میں ریلیز ہونے والی لیونارڈو ڈی کیپریو اور کیٹ ونسلیٹ کی ایک سے زیادہ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والی فلم کو کون بھول سکتا ہے؟ لیکن 80 سال پہلے سمندر میں ہونے والے سانحے نے ایک مہنگی نازی پروپیگنڈہ فلم کو بھی متاثر کیا جسے نسبتاً کم لوگوں نے دیکھا تھا اور جس میں ایک ایسا جہاز دکھایا گیا تھا جو کہ خود ٹائیٹینِک کی طرح بدقسمت تھا…

1942 کے اوائل میں ایس ایس ’کیپ آرکونا‘ نے بہتر دن دیکھے تھے۔

’جنوبی بحر اوقیانوس کی ملکہ‘  (Queen of the South Atlantic) کے نام سے موسوم ایک زمانے میں شاندار اور پرتعیش سمندری جہاز اپنی چمکیلی فٹنگز روبذوال ہوجانے کے بعد بحیرہ بالٹک پر واقع جرمن بحریہ کے اڈے پر زنگ آلود حالت میں کھڑا تھا۔

لیکن اُسی سال کیپ آرکونا کو گمنامی سے نکالا گیا اور عملی طور پر شہرت کے عروج پر پہنچانے کی کوشش کی گئی: ٹائٹینک سے اس کے ڈیزائن کی مماثلت کی بدولت، اسے سمندر میں ہونے والے بدنام زمانہ سانحے کے بارے میں جرمن نازی فلم پروڈکشن میں مرکزی کردار دیا گیا۔

بہت رقم خرچ کی گئی

اس وقت بھی ٹائٹینک کا ڈوبنا شاید ہی کوئی نیا موضوع تھا ۔ اس سانحے کے بارے میں پہلی فلمیں 1912 کے اوائل میں اسکرین پر آئی تھیں۔ 1912 وہ سال تھا جب یہ جہاز اپنے پہلے سفر کے دوران شمالی بحر اوقیانوس کے منجمد پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔

لیکن ہٹلر کے بدنام زمانہ پروپیگنڈہ وزیر جوزف گوئبلز نے جہاز ڈوبنے کے اس واقعہ پر ایک بہت ہی مختلف انداز کے ساتھ سکرپٹ تشکیل دیا: اس نے اس حادثے کو برطانوی۔امریکی لالچ کی وجہ سے ہونے والا واقعہ بنا کر دکھایا۔

نازی ٹائٹینک پروپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پروفیسر رابرٹ واٹسن، ایک امریکی تاریخ دان اور کیپ آرکونا کے بارے میں کتاب دی نازی ٹائٹینک کے مصنف، بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’گوئبلز اور نازیوں نے تب تک سینکڑوں پروپیگنڈا فلمیں تیار کی تھیں، لیکن اس بار وہ کچھ مختلف چاہتے تھے۔ 1942 میں جرمنی جنگ میں کافی ناکامیوں سے نمٹ رہا تھا اور گوئبلز کا خیال تھا کہ پروپیگنڈے کے محاذ پر بڑی کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے۔‘

ممتاز نازی اہلکار گوئبلز کو خاص طور پر کاسا بلانکا کی کامیابی نے حیران کردیا تھا۔ اسی سال ریلیز ہونے والے ہالی ووڈ کے انتہائی کامیاب رومانوی ڈرامے نے ایک طاقتور مخالف فاشسٹ بیانیہ کو مقبول بنایا اور اس نے جرمن پروپیگنڈا کا آغاز کیا۔ ٹائٹینک سانحے کو اپنے ’نازی نظریہ کے فائدے‘ کے مقصد کے ساتھ گوئبلز نے اتحادیوں کو ان کے اپنے حربوں کا ذائقہ چکھانے کا منصوبہ سوچا۔

پروفیسر واٹسن کا مزید کہنا ہے کہ ’وہ کاسا بلانکا کو یہ جواب دینے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس میں ٹائٹینک کی اپنی نقل کا استعمال کرنا بھی شامل تھا ۔ یعنی کیپ آرکونا کا استعمال۔ یہ دونوں بحری جہاز بنیادی طور پر ایک جیسے تھے، اس حقیقت کے علاوہ کہ کیپ آرکونا میں دھوئیں کے اخراج کی تین چمنیاں لگی ہوئی تھیں، یعنی ٹائٹینک کی چمنیوں سے ایک کم۔ لیکن اس نے شوٹنگ کے لیے ایک اضافی جعلی چمنی بنوائی۔‘

جنگ کے دوران اس مشکل کے وقت میں گوئبلز نے اس فلم کی پروڈکشن کے لیے بھاری فنڈز مختص کیے تھے۔ اپنی کتاب میں پروفیسر واٹسن کا دعویٰ ہے کہ ٹائٹینک کا چالیس لاکھ ریخ مارک کا بجٹ تھا ۔ جو آج کل تقریباً اٹھارہ کروڑ ڈالر کے برابر ہے، جو اسے اب تک کی سب سے مہنگی فلموں میں سے ایک بناتا ہے۔ ایکسٹرا کے طور پر کام کرنے کے لیے سینکڑوں فوجیوں کو فرنٹ لائن سے واپس بلایا گیا تھا اور اس فلم میں جرمنی کے کچھ مشہور فلمی ستارے بھی تھے، جیسے سائبیلا شمِٹ۔

نازی ٹائٹینک پراپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

فلم کے ہدایت کار ہربرٹ سیلپن فلم کی شوٹنگ کے دوران گوئبلز کے ساتھ اختلافات پیدا ہونے کے بعد پراسرار حالات میں ہلاک ہوئے تھے۔

تاہم یہ فلم پروڈکشن انتشار کا شکار تھی۔ فوجیوں نے خواتین اداکاروں کو ہراساں کیا اور بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیل گیا کہ روشن فلم کے سیٹ اتحادیوں کی بمباری کا نشانہ بھی بنے ہوں گے۔

اس سے بھی زیادہ سنگین معاملات تھے: ہربرٹ سیلپین، جسے یہ پراجیکٹ سونپا گیا تھا، نازی حکام کی حمایت سے محروم ہوگیا اور شوٹنگ کے شیڈول میں ان کی مداخلت پر تنقید کرنے کے بعد اسے خود گوئبلز نے گرفتار کر لیا اور اس سے پوچھ گچھ بھی کی۔

بعد میں وہ جیل کی کوٹھری میں پھند سے لٹکا ہوا پایا گیا۔

کہانی کے پلاٹ میں تبدیلی

لیکن یہ فلم کسی نہ کسی طرح بالآخر پایہِ تکمیل تک پہنچ ہی گئی، جس میں اس کی کہانی کے پلاٹ کا اصل مقصد سخت پروپیگنڈہ تھا: حادثے کو ٹائٹینک کے برطانوی مالکان کی طرف سے کارپوریٹ لالچ کی کہانی کے طور پر پیش کیا گیا، اور کوششوں کے باوجود عملے کا ایک واحد جرمن رکن جہاز کو برف سے متاثرہ شمالی بحر اوقیانوس کے پانی کو عبور کرتے ہوئے اس کی رفتار کو سست کر دیتا ہے۔

آخر میں جرمن زبان میں اس فلم کے اختتامیہ اعلان یا پیغام میں کہا گیا ہے کہ 1,500 سے زیادہ مسافروں کی موت ’برطانیہ کی منافع کی نہ ختم ہونے والی جستجو کی ایک ابدی مذمت‘ ہے۔

جرمن مؤرخ الیکس وان لونن بتاتے ہیں کہ ’نازی پروپیگنڈہ فلموں میں بہت زیادہ لطیف پیغام ہے۔‘

نازی ٹائٹینک پراپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1943 میں نازی فلم کی تشہیر کے لیے تیار کیا جانے والا پوسٹر

’یہ ٹائٹینک فلم کی قسم جیسی پروڈکشنز نازیوں کے اس فریب کو ظاہر کرتی ہیں کہ پروپیگنڈہ کیا کچھ کر سکتا ہے۔ انھوں نے واقعی کچھ اس طرح محسوس کیا کہ ‘اگر ہم لوگوں کو صرف اکٹھا کرلیں تو ہم یہ جنگ جیت سکتے ہیں’۔ یہ زیادہ دلچسپ ہے۔‘

وان لونن اس بات کا حوالہ دے رہے ہیں کہ کس طرح گوئبلز نے، جنھوں نے اس فلم کی پروڈکشن کا حکم دیا تھا، انھوں نے خود ہی حتمی فلم دیکھنے کے بعد جرمن سینما گھروں میں اسے دکھانے پر پابندی لگا دی تھی۔

اس نازی اہلکار نے محسوس کیا کہ سانحے کے مناظر اتنے حقیقت پسندانہ تھے کہ وہ ایسے وقت میں خوف و ہراس پھیلا دیں گے جب جرمن شہری فضائی حملوں کے خوف میں رہتے تھے۔

نازی ٹائٹینک پراپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ٹائٹینک کے نازی ورژن میں ایک فرضی جرمن افسر دکھایا گیا ہے، جس کا کردار ہنس نیلسن نے ادا کیا ہے۔

وون لونن کہتے ہیں کہ ’یہ بھی ایک مسئلہ بن گیا تھا کہ فلم میں ٹائٹینک پر سوار افسانوی جرمن افسر اپنے اعلیٰ افسران کی نافرمانی کرتا ہے کیونکہ وہ اخلاقی طور پر غلط ہیں، یہ وہ پیغام نہیں تھا جو نازی حقیقی زندگی کے جرمن افسران کو بھیجنا چاہتے تھے۔‘

اپنی کتاب میں پروفیسر واٹسن نوٹ کرتے ہیں کہ یہ فلم ابتدائی طور پر صرف جرمنی کے زیر قبضہ علاقوں میں ریلیز ہوئی تھی اور اسے 1949 تک جرمنی کے اندر نہیں دکھایا گیا تھا۔

پروفیسر واٹسن کہتے ہیں کہ ’اس کے سیاسی پیغام کے باوجود، فلم تکنیکی نقطہ نظر سے متاثر کن ہے۔‘

حقیقی زندگی کا المیہ

حقیقت یہ ہے کہ نازی فلم کے فلاپ ہونے کا مطلب کیپ آرکونا کو پھر سے گمنامی میں چلے جانے چاہیے تھا۔ لیکن یہ جہاز تاریخ میں اس سے بھی زیادہ بدنام زمانہ مقام حاصل کر لے گا: مشرقی محاذ پر روسی اتحادیوں کی پیش قدمی سے 25,000 سے زیادہ جرمن فوجیوں اور عام شہریوں کے انخلاء میں استعمال ہونے کے بعد، 1945 تک یہ جہاز بحیرہِ بالٹک میں ان قیدیوں کے لیے ایک جیل بن چکا تھا جنھیں نازی جرائم کے ثبوت کو چھپانے کی کوشش میں کئی حراستی کیمپوں سے دوسری جگہوں پر منتقل کیا جا رہا تھا۔

نازی ٹائٹینک پراپیگنڈہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

3 مئی 1945 کو کیپ آرکونا اور دو دیگر بحری جہاز جن میں نازی حراستی کیمپ کے قیدیوں کو رکھا گیا تھا، غلطی سے اتحادیوں کے ہوائی حملے کا شکار ہوئے تھے جس کے وجہ سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔

پروفیسر واٹسن کا کہنا ہے کہ تنازع کے دونوں فریقوں کی دستاویزات سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ 3 مئی کو کیپ آرکونا میں کم از کم 5,000 افراد سوار تھے جب یہ جہاز اس خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوئے کہ وہ اور علاقے میں دیگر بحری جہاز جرمن افسران کی میزبانی کر سکتے ہیں جو گرفتاری سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس وقت برطانوی رائل ایئر فورس کے بمبار طیاروں کے حملوں کی زد میں آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس حملے میں ’300 سے بھی کم (افراد) زندہ بچے ہوں گے۔ یہ جنگ میں ریکارڈ کیے گئے دوستانہ فائر کے بدترین واقعات میں سے ایک تھا۔‘

اسی مقصد کے لیے کام کرنے والے دو دیگر بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا، جس سے ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 7000 تک پہنچ گئی۔

(ذیل ٹویٹ میں کیپ آرکونا کی ایک تصویر ہوائی حملے کی زد میں آنے کے بعد آگ میں جل رہی ہے)

یہ اور بھی افسوسناک تھا کہ کیپ آرکونا اور دیگر جہازوں پر جرمنی کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے اور یورپ میں جنگ کے خاتمے سے صرف چار دن پہلے حملہ کیا گیا۔ آخر میں نازی ٹائٹینک کے ڈوبنے سے مرنے والوں کی تعداد اس کے ’سسٹر‘ جہاز کے ڈوبنے سے دو گنا زیادہ تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ