لبمیلڈی: نادر اعصابی بیماری کا ممکنہ مگر مہنگا علاج جو بہت سے والدین کے لیے امید کی کرن بنا
- جم ریڈ
- ہیلتھ رپورٹر
جُو اپنی بہن کانی کے ساتھ
کانی نے ابھی پاؤں پاؤں چلنا شروع ہی کیا تھا کہ اُن میں کچھ عجیب سی علامات ظاہر ہونا شروع ہوئیں، وہ چلتے چلتے اچانک اپنا توازن کھو بیٹھتیں اور بعض اوقات اُن کا دھیان بہت آسانی سے اِدھر اُدھر بھٹک جاتا۔
ان کی والدہ نیکولہ ایلسن کا کہنا ہے کہ ’کچھ ہی عرصے بعد کانی میں ایم ایل ڈی (بیماری) کی تشخیص ہوئی۔۔۔ یہ سب بہت غیرمتوقع تھا کیونکہ میرے خاندان اور نہ ہی میرے شوہر کے خاندان میں کسی کو یہ بیماری تھی۔‘
ایم ایل ڈی (میٹاکرومیٹک لیکوڈائستھراپی) اس طبی حالت کو کہتے ہیں جس میں بچے کا نظام اعصاب اور دوسرے اعضا شدید طور پر متاثر ہونے لگتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے نیکولہ کو یہ بھی بتایا کہ اس بات کا 25 تک فیصد تک امکان ہے کہ ان کے موجودہ شوہر سے ہونے والے اُن کے دوسرے بچے بھی اس بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے اس خدشے کو سُن کر نیکولہ نے اپنے بیٹے (کانی کے چھوٹے بھائی جُو) کے بھی مطلوبہ ٹیسٹ کروائے جن کے ذریعے پتہ چلا کہ اُس میں بھی ’ڈیفیکٹیو جین‘ (ناقص جین) موجود ہے۔
نیکولہ کہتی ہیں کہ ’آپ اس قسم کی ناقابل یقین صورتحال میں رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بہت عرصہ تک ڈاکٹرز اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ وہ اس ضمن میں کچھ نہیں کر سکتے۔‘
واضح رہے کہ صرف انگلینڈ میں ہر سال تقریباً پانچ بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اس نادر بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بیماری کیا ہے؟
ایم ایل ڈی نسل در نسل منتقل ہونے والی انتہائی نادر بیماری ہے جو کہ ایک اہم اینزائم (خامرہ) کی کمی کے سبب ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ دماغ اور جسم کے دیگر حصوں کے اعصاب یا پٹھے ٹھیک سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ 30 ماہ سے کم عمر کے چھوٹے بچوں میں ہو سکتی ہے جس سے ان کی بینائی، گویائی اور سماعت کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ نقل و حرکت یعنی چلنے پھرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور دورے بھی پڑ سکتے ہیں۔ ایسی بیماری سے دوچار بچوں کی اوسط زندگی کی توقع صرف پانچ اور آٹھ سال کے درمیان ہے۔
امید کی کرن
نکولا کے دونوں بچوں کو ایک نئے تجرباتی علاج اور ابتدائی کلینیکل ٹرائل کے لیے اٹلی بھیجا گیا۔ اس وقت تک کانی کی حالت بگڑ چکی تھی اور وہ اتنی ٹھیک نہیں تھی کہ انھیں تجرباتی دوا دی جا سکتی۔
اس بیماری کے علاج کو اب لبمیلڈی کہا جاتا ہے، جس میں خرابی کی وجہ بننے والے ناقص جین کو تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
پانچ دسمبر 2014 کو جُو کا آپریشن ہوا جس میں ان بون میرو (ہڈی کے گودے) سے سٹیم سیلز نکالنے کے لیے آپریشن کیا گيا تھا۔ ان گودوں کا علاج کیا گیا اور کلینکل ٹرائل کے حصے کے طور پر ان کے جسم میں دوبارہ انجکشن کے ذریعے داخل کیا گیا۔
سات سال بعد اب ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ وہ (جُو) ایک عام 11 سال کا لڑکا ہے جو اب اپنی بڑی بہن کی دیکھ بھال میں مدد کرتا ہے۔
نیکولہ کہتی ہین کہ ’اگر آپ سڑک پر اسے چلتے پھرتے دیکھیں تو آپ کو معلوم نہیں ہو گا کہ جُو کی کبھی ایسی بھی حالت تھی۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ‘وہ تیراکی کرتا ہے، وہ مین سٹریم سکول میں ہے، اور وہ میری پسند کے بہت زیادہ کمپیوٹر گیمز کھیلتا ہے۔‘
بہر حال ایسے بچوں کے لیے طویل مدتی علاج کا ابھی تک علم نہیں ہے، اور جُو کو آنے والے برسوں میں بھی نگرانی کرنے کی ضرورت ہو گی، لیکن ڈاکٹروں اور اہلخانہ دونوں پُرامید ہیں کہ اس کا مستقل علاج ہو سکتا ہے۔
بہر حال اب برطانیہ کے طبی ادارے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) نے اس بیماری کے لیے دوا بنانے کا ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی اب تک کی مہنگی ترین دوا ہو گی۔
جین تھراپی لبمیلڈی ایک انتہائی نایاب حالت ایم ایل ڈی کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جس میں بچے کے اعصابی نظام اور اعضاء کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
اس کے ایک دفعہ کے علاج کی قیمت 28 لاکھ پاؤنڈ ہے لیکن ہیلتھ سروس کی این ایچ ایس کے ساتھ خفیہ رعایت پر بات چیت کے بعد اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔
این ایچ ایس کی چیف ایگزیکٹیو امانڈا پرچرڈ نے کہا: ’یہ انقلابی دوا ان نوزائيدہ اور چھوٹے بچوں کے لیے زندگی بچانے والی ہے جو اس تباہ کن موروثی عارضے کا شکار ہیں اور یہ ان کے خاندانوں کو ناقابل بیان دکھ اور غم سے بچائے گی۔‘
11 سالہ جُو کا علاج ہو رہا ہے لیکن انھیں مستقبل میں بھی طبی نگرانی میں رکھا جائے گا
’یتیم دوا‘
لبمیلڈی کو نام نہاد ‘یتیم دوا’ بھی کہا جاتا ہے۔ اس دوا کو ایک ایسے محرک کے طور پر ایسی طبی حالت کے علاج کے لیے تیار کیا گیا ہے جو کہ بہت ہی نایاب ہے اس لیے کسی قسم کی سرکاری امداد کے بغیر اس کا تیار کرنا منافع بخش نہیں ہو سکتا۔
گذشتہ سال انگلینڈ میں دوا کی قیمتوں کے نگران ادارے نے اس کا جائزہ لیا اور اسے مسترد کر دیا۔ رہنمائی والے مسودہ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ہیلتھ کیئر ایکسیلینس (نائس) نے کہا کہ یہ بہت مہنگی ہے اور طویل مدت میں اس کے مؤثر ہونے کا ثابت ہونا باقی ہے۔
اس کی 28 لاکھ پاؤنڈ کی قیمت پر واچ ڈاگ نے کہا کہ یہ اب تک کا سب سے مہنگا واحد علاج ہے جس کا اس ادارے نے اب تک جائزہ لیا ہے۔
لیکن بات چیت کے بعد اس خصوصوی دوا کو تیار کرنے والی کمپنی آرچرڈ تھیراپیوٹکس نے این ایچ ایس کی جانب سے درحقیقت ادا کی جانے والی قیمت میں پوشیدہ طور دی جانے والی رعایت میں اضافہ کیا ہے۔ اب یہ ان بچوں کے لیے تجویز کی گئی ہے جن میں ابھی کوئی علامت نہیں ہیں یا جو ابھی آزادانہ طور پر چل پھر سکتے ہیں۔
یہ مانچسٹر کے سینٹ میری ہسپتال کے سینٹر فار جینومک میڈیسن کی خصوصی خدمات کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ یہ ان پانچ یورپی مقامات میں سے ایک ہے جو اس بیماری کے علاج کا انتظام کرے گی۔
مانچسٹر یونیورسٹی میں این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے کنسلٹنٹ پروفیسر سائمن جونز نے اس اعلان کو ایک ‘بڑی ڈیل’ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘اس قسم کے علاج مہنگے ہوں گے، ان کی فراہمی مشکل ہوگی اور صرف چند مراکز ہی ایسا کر سکیں گے۔
’شاید کچھ مختلف عوارض ہیں جن کا علاج اس طریقے سے کیا جا سکتا ہے، لیکن لبمیلڈی ایسا پہلا طریقہ جس نے اس کے لیے زمین ہموار کی ہے۔‘
اس دوا کو صرف ابتدائی مراحل میں اور صرف انگلینڈ میں نائس کے استعمال کے ذریعے استعمال سفارش کی گئی ہے۔ سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کے مریضوں کو مانچسٹر میں علاج کے لیے اپنے اپنے قومی صحت کے نظام کی جانب سے فنڈنگ کی ضرورت ہو گی۔
Comments are closed.