سات اکتوبرکو ’ناحل عوز‘ اڈے پر جو کچھ ہوا وہ اسرائیلی فوج کے اُس مؤقف کے قریب ترین ہے جو ہم حاصل کر سکے ہیں۔اُس دن اس فوجی اڈے پر جو ہوا اور جس رفتار سے ہوا، اُس کی کہانی ترتیب دینے کے لیے ہم نے وہاں زندہ بچ جانے والوں سے بھی بات کی، ہلاک ہونے والوں کے پیغامات دیکھے اور حملے کی ابتدائی اطلاع دینے والی ریکارڈنگ بھی سُنی۔ موصول ہونے والی اس تمام تر تفصیل سے ایک تصویر اُبھر کر سامنے آتی ہے۔بی بی سی کو معلوم ہوا کہ:
- سات اکتوبر کے حملے سے قبل یہاں تعینات بہت سے فوجیوں نے سرحد کے پار (یعنی غزہ کی سائیڈ پر) بہت سی مشکوک سرگرمیوں کو نوٹس کیا تھا، ان سرگرمیوں کو نوٹس کرنے والوں میں غزہ، اسرائیل سرحد پر تعینات وہ خواتین فوجی اہلکار بھی تھیں جن کی ذمہ داری سرحد پر لگے کیمروں کی مانیٹرنگ کرنا تھا
- سرحد پر تعینات فوجیوں نے نوٹس کیا تھا کہ سات اکتوبر کو ہونے والے بڑے حملے سے چند روز قبل یہ مشکوک سرگرمیاں حماس کی جانب سے اچانک ختم کر دی گئی تھیں
- اس فوجی اڈے پر تعینات بہت سے اسرائیلی فوجی اہلکار غیر مسلح تھے اور یہاں رائج سرکاری پروٹوکول کے مطابق اگر یہاں کسی قسم کا حملہ ہوتا ہے تو انھیں آگے بڑھ کر جواب دینے کے لیے بجائے پسپائی اختیار کرنا تھی
- یہاں نصب نگرانی کے کچھ آلات یا تو اُس روز کام نہیں کر رہے تھے اور بقیہ حماس کے حملہ آوروں کی جانب سے آسانی سے تباہ کیے جا سکتے تھے
ہم نے جو تفصیلات حاصل کی ہیں اُن سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں جیسا کہ سرحد کے انتہائی نزدیک واقع ایک فوجی اڈے پر اتنی کم تعداد میں مسلح اہلکار کیوں تعینات تھے؟ سرحد کے نزدیک مشکوک سرگرمیاں نوٹس کیے جانے کے باوجود بروقت بچاؤ کے اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟ حملے کے بعد اس اڈے پر فوجی کمک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ اور کیا اڈے کے انفراسٹرکچر نے وہاں تعینات لوگوں کو غیرمحفوظ بنا دیا تھا؟بی بی سی نے موصول ہونے والی تمام تر تفصیلات اسرائیلی فوج کے سامنے رکھیں، جس نے جواب میں فوج نے کہا کہ ’ناحل عوز‘ فوجی اڈے سمیت سات اکتوبر کو پیش آنے والے تمام واقعات، اور اس سے پہلے کے حالات کی جامع تحقیقات جاری ہیں۔چلیے اب پڑھتے ہیں کہ حملے کے روز اِس فوجی اڈے پر کیا ہو رہا تھا۔سات اکتوبر کے روز شیرون (فرضی نام) نے مقامی وقت کے مطابق چار بجے ’ناحل عوز‘ پر اپنی شفٹ کا آغاز کیا۔ یہ فوجی اڈہ غزہ کی سرحدی باڑ سے تقریباً ایک کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔شیرون خواتین کے اُس فوجی یونٹ کا حصہ تھیں، جسے عبرانی زبان میں ’تتزپیٹانیوٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور اُن کے فرائض میں باڑ کے ساتھ لگے کیمروں کے ذریعے براہ راست حاصل ہونے والی فوٹیج کا معائنہ کرنا تھا۔خواتین اہلکاروں پر مشتمل یہ اسرائیلی فوجی یونٹ ناحل عوز کے وار روم یا ’ہمال‘ میں شفٹوں میں کام کرتا تھا اور ان کے بنیادی فرائض میں دن کے 24 گھنٹے کیمروں کے ذریعے باڑ کے اُس پار غزہ کی صورتحال کا جائزہ لینا اور اسے رپورٹ کرنا تھا۔درحقیقت وار روم یا ’ہمال‘ کھڑکیوں کے بغیر ایک مضبوط اور بڑا کمرہ ہے جس کی خصوصی دیواریں دھماکوں کو برداشت کر سکتی تھیں جبکہ اس کمرے میں نصب دروازے بھی انتہائی مضبوط تھے اور اس کمرے میں داخل ہونے کے سخت حفاظتی پروٹول تھے۔اسرائیلی فوج نے سات اکتوبر کو یہاں ہلاک ہونے والے اسرائیلی فوجی اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا ہے کہ اُس روز یہاں تعینات بہت سے فوجی اہلکار غیر مسلح تھے۔اسرائیلی فوج کے آپریشنز ڈویژن کے سابق سربراہ جنرل اسرائیل زیو نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کی ملازمت کے دوران سرحدی علاقوں میں کبھی بھی غیر مسلح فوجی تعینات نہیں ہوتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ ’سپاہی ہتھیارکے بغیر۔۔۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔‘اُس دن ناحل عوز پر جو مسلح اہلکار تعینات تھے اُن میں سے چند کا تعلق اسرائیلی فوج کے گولانی بریگیڈ کی انفنٹری یونٹ سے تھا۔اس سے قبل بی بی سی نے خبر دی تھی کہ خواتین پر مشتمل فوجی یونٹ ’تتزپٹانیوٹ‘ کی اہلکاروں نے باڑ کے دوسری جانب سات اکتوبر 2023 سے قبل مشکوک سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا تھا لیکن اب بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ’تتزپٹانیوٹ‘ یونٹ کے علاوہ اِس اڈے پر تعینات مختلف یونٹوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں نے اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔،تصویر کا ذریعہHamas Footage
6:20 پر راکٹ حملہ
مگر پھر اچانک صبح 6:20 بجے حماس نے راکٹ داغنا شروع کر دیے، تاہم شیرون کا کہنا ہے کہ یہ بھی کسی بڑے خطرے کی بات نہیں تھی۔ وہ پہلے بھی ایسے راکٹ حملوں کا سامنا کر چکی تھیں اور اس نوعیت کے راکٹ حملوں کے پیش نظر ناحل عوز کی ہمیشہ سے اچھی حفاظت کی جاتی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں ہونے والے راکٹ حملے عموماً پانچ منٹ جاری رہتے جس کے بعد وقفہ آ جاتا مگر ’اس بار کوئی وقفہ نہیں تھا۔‘
06:30 پر حماس کے جنگجوؤں کا باڑ پر حملہ
اسرائیلی خاتون فوجی اہلکار شیرون کا کہنا ہے کہ تقریباً 06:30 بجے وہ حماس فورسز کو قریب آتے ہوئے دیکھ سکتی تھیں۔شیرون کی یونٹ، جس کا کام کیمروں کے ذریعے نگرانی کرنا تھا، نے زمینی افواج کو خبردار کرنے کے لیے ریڈیو پیغام نشر کیا جس میں پیغام تھا کہ ’تمام سٹیشن، چار لوگ باڑ کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں، کاپی۔‘اس کے بعد یونٹ کی ایک ایک نوجوان خاتون فوجی اہلکار نے آواز میں ہلکی سی کپکپاہٹ کے ساتھ اعلان کیا کہ ’میں دو مسلح افراد کی شناخت کر پا رہی ہوں، جو باڑ کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں، کاپی۔‘
بی بی سی کے ساتھ شیئر کیے گئے اسرائیلی فوج کے ’فیملی بریفنگ نوٹ‘ کے مطابق 06:40 بجے ناحل عوز پر موجود آبزرویٹری کو راکٹ سے نشانہ بنایا گیا، اس حملے میں آبزرویٹری کو نقصان پہنچا۔ اسرائیلی فوج نے ناحل عوز اڈے پر موجود اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا کہ اڈے کے مرکز یعنی ہمال (وار روم) میں نصب سنائپرز کو دیکھنے اور نشانہ بنانے کے نظام کو فعال کیا گیا اور ایک افسر نے سرحد پار کرنے کی کوشش کرنے والے مسلح افراد پر ریموٹ کے ذریعے گولی چلانے کی کوشش بھی کی تھی۔یہ وہ موقع پر انفنٹری افسران بھی ہمال میں موجود خواتین اہلکاروں کے یونٹ ’تتزپٹانیوت‘ تک پہنچ گئے۔ شیرون یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ایک انفنٹری کمانڈر پاجامے میں وہاں آ گئیں۔اور پھر جیسے جیسے مسلح افراد نگرانی کے کیمروں پر فائرنگ کرتے رہے، ہمال میں نصب مانیٹرنگ سکرینوں پر اندھیرا چھانے لگا۔جنرل زیو کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے حملوں سے قبل حماس جو ہفتوں سرحد پر نگرانی کرنے والے کیمروں کے سامنے موجود تھے وہ ایک حکمت عملی تھی۔الرؤے نامی اہلکار اسرائیلی فوج کی ’بیلون آبزویٹری‘ (نگرانی کرنے والے غبارے) میں موجود پانچ افراد میں سے ایک تھے۔ اُن کے والد رفیع بن شتریت نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کا بیٹا راکٹ فائر ہونے اور بعدازاں بجنے والی سائرن کی آواز سُن کر جاگا۔اسرائیلی فوج نے بعد میں الرؤے کے اہلخانہ کو ابتدائی تحقیقات کی تفصیلات فراہم کیں کہ اُس دن کیا ہوا تھا۔ناحل عوز کے مقام پر موجود یہ غبارے غزہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور وہ 24 گھنٹے متحرک رہتے ہیں لیکن 7 اکتوبر کو سرحد پر موجود تین غباروں میں سے صرف ایک کام کر رہا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
حماس کے مسلح افراد ہمال کے دروازے پر پہنچ گئے
07:00 بجے کے کچھ ہی دیر بعد وہ لمحہ آیا جب ہر کوئی خوفزدہ تھا اور فوجی اڈے پر وہ ہو رہا تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ حماس کے مسلح افراد ہمال کے دروازے پر موجود تھے۔کیمروں کے ذریعے نگرانی کرنے والی خواتین اہلکاروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی پوزیشنیں چھوڑ دیں اور وار روم کے اندر موجود ایک دفتر کا رُخ کریں۔جنرل زیو کا کہنا ہے کہ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد نے خود ان اڈوں کے دفاع پر زیادہ زور نہیں دیا بلکہ بیرونی گشت پر توجہ مرکوز کی۔وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پوری گڑبڑ کا حصہ تھا کیونکہ ایک بار جب دشمن نے انھیں حیران کر دیا اور اڈے میں داخل ہو گئے تو وہ تیار نہیں تھے۔ ہر چیز برباد ہو گئی۔‘
07:20 پر ہمال پر حملہ
تقریباً 07:20 بجے اڈے میں موجود ہمال پر حملہ کیا گیا۔اس موقع پر وہاں موجود ایک اہلکار کی جانب سے بھیجے گئے واٹس ایپ میسج کو بی بی سی نے دیکھا۔ اس میسج کے مطابق وہاں پر کچھ آف ڈیوٹی نگرانی کرنے والی اہلکار بھی موجود تھیں، جن کا تحظ چار خواتین فوجی اہلکار کر رہی تھیں۔اسرائیلی فوجیوں نے متاثرہ خاندانوں کو بتایا کہ یہ ’خواتین جنگجو‘، پناہ گاہ میں موجودہ واحد مسلح اہلکار تھیں اور انھوں نے اپنی فائرنگ سے حماس کے جنگجوؤں کو اس وقت تک دور رکھا جب تک کہ ایک دستی بم دھماکے میں اُن کی ایک کمانڈر ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئیں۔اس موقع پر تقریباً 10 فوجی اڈے میں واقع پناہ گاہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور خود کو رہائشی بیرکوں میں بند کر لیا۔ شیلٹر میں موجود باقی تمام افراد یا تو حماس کے ہاتھوں مارے گئے یا پکڑے گئے۔شیمعون اور اس کے کمانڈر واپس اڈے کی طرف چلے گئے لیکن انھیں ابھی واضح نہیں ہو رہا تھا کہ حملہ کتنا بڑا ہے۔ بعد ازاں اسرائیلی فوج نے ناحل عوز میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں میں سے ایک کے اہلخانہ کو بتایا کہ اڈے پر حملے کا آغاز ڈرون حملوں اور چار اطراف سے 70 جنگجوؤں کی کارروائی سے ہوا تھا۔اس کے بعد غزہ کی پٹی سے سینکڑوں افراد اسرائیلی علاقے میں داخل ہو گئے۔اڈے پر واپس پہنچنے کے بعد شیمعون کو اندازہ ہونا شروع ہوا کہ یہ حملہ کتنا بڑا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم اڈے پر پہنچے تو ہر چیز جل کر خاکستر ہو چکی تھی۔‘شیرون کہتی ہیں کہ ہمال کے دفتر کے اندر تقریباً 20 فوجی ایسے تھے، جو اب بھی ایک دوسرے کو تسلی دے رہے تھے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے مزید مدد بلانے کے لیے بار بار کوشش کی۔’میرا اندازہ ہے کہ (کسی نے) کچھ ایسا کہا کہ ’کوئی بیک اپ نہیں، کوئی نہیں آ سکتا‘ اور مجھے یاد ہے کہ میرے افسر نے کہا تھا کہ ’ہمیں بیک اپ کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت ہے کہ کوئی ہمیں ریسکیو کرے۔‘
8:00 بجے اسرائیلی ڈرونز کی آمد
،تصویر کا ذریعہTelegramآٹھ بجنے سے چند لمحے پہلے ایک اسرائیلی ڈرون ’زک‘ وہاں پہنچا تاہم اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق وہ اسرائیل اور حماس کے فوجیوں کے درمیان فرق نہیں کر پا رہا تھا، جس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف پر حملہ کرنے میں سُست تھا۔اور پھر اُسی وقت حمال پر حملہ شروع ہوا، جس میں بہت زیادہ فائرنگ تھی۔ دروازوں پر موجود مسلح افراد لڑتے رہے تاکہ حماس کو اندر جانے سے روکا جا سکے۔ یہ دو بدو لڑائی تقریباً چار گھنٹے جاری رہی۔شیمعون کا کہنا ہے کہ اڈے پر لڑنے والے فوجیوں کی تعداد بہت کم تھی اور اضافی نفری کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔تقریباً 09:00 بجے گولانی یونٹ کے اہلکار اڈے میں ڈائننگ روم کی طرف بڑھے جہاں زیادہ تر بندوق بردار چھپے ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج نے بعد میں رشتہ داروں کو بتایا کہ اس دن ناحل عوز میں ہر 25 فوجیوں کے مقابلے میں 150 بندوق بردار (حملہ آور) موجود تھے۔جنرل زیو کہتے ہیں کہ ’اُس دن 70 سے زیادہ خلاف ورزیاں ہوئی تھیں۔۔۔ تین ہزار سے زیادہ دہشتگرد تھے۔۔۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس کوالٹی نہیں، لہذا انھیں اپنی زیادہ تعداد پر انحصار کرنا پڑا۔‘ایک ویڈیو، جسے اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق اُسی وقت فلمایا گیا تھا، میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ناحل عوز میں نگرانی کا کام کرنے والے جوان افسران کو حماس نے پکڑا ہوا تھا۔اس ویڈیو میں 19 برس کی ناما لیوی، جنھوں نے اس حملے سے ایک دن پہلے ہی اڈے پر کام کرنا شروع کیا تھا، کا خون سے بھرا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے، وہ حملہ آوروں سے التجا کرتی ہیں کہ ’اُن کے فلسطین میں دوست ہیں۔‘فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انھیں گھسیٹ کر ایک گاڑی میں لے جایا جاتا ہے۔ناما کی والدہ ڈاکٹر ایلیت لیوی کے لیے یہ سب دیکھنا تباہ کن تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’زخم، خون، وہ کیا کہہ رہی تھی، دہشتگرد اسے کیا کہہ رہے تھے، اُن لمحات کا خوف۔‘
9:45 پر اسرائیلی طیاروں کی آمد
اسرائیلی حکام نے اُس دن نشانہ بننے والے اہلکاروں کے اہلخانہ کو بتایا کہ ’یہ حملہ شروع ہونے کے تین گھٹنے سے بھی زیادہ کے بعد 9:45 پر فوجی ہیلی کاپٹر نے حماس کے بندوق برادروں پر فائرنگ شروع کی۔ اڈے پر 12 بار فائرنگ کی گئی۔‘شیمعون نے بتایا کہ ’ہر طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی۔‘آٹومیٹک بندوقوں کی فائرنگ کے شور کے درمیان وقتاً فوقتاً ایک سنگل فائر کی آواز بھی آتی، جو دراصل حماس کا سنائپر تھا جو فائر کر رہا تھا۔شیمعون کہتے ہیں کہ ’جب بھی وہ گولی چلاتا، میرے کسی نہ کسی ساتھی کو سر پر گولی لگتی تھی۔‘شیمعون کے مطابق اپنے ساتھیوں میں سے صرف وہ ہی تھے جو زندہ بچ گئے اگرچہ ایک گولی اُن کے بھی بہت قریب سے گزری۔’ایک گولی میرے سر کے پاس سے گزری۔ میں اپنے اردگرد موجود کنکریٹ پر لگنے والی گولیوں کی آواز کو سُن سکتا تھا اور اُن سے پیدا ہونے والی تپش کو محسوس کر سکتا تھا۔‘شیمعوں کے مطابق اُس وقت اُن کے ریڈیو نے بھی کام کرنا بند کر دیا۔جنرل زیو اس دن کو ایک ’بہترین طوفان‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ (یاد رہے کہ حماس نے ان حملوں کو طوفان الاقصیٰ کا نام دیا تھا۔)وہ کہتے ہیں کہ ’بہت گھنٹوں تک وہاں بیک اپ نہیں تھا کیونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہاں پر ہو کیا رہا ہے اور بیک اپ یا اضافی نفری کہاں بھیجنی ہے۔‘شیمعون ایک اور یونٹ کے فوجیوں سے ملنے سے پہلے کسی طریقے سے سنائپر حملہ کرنے والے کی ایک پوزیشن تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔،تصویر کا ذریعہChannel 12
11:00 بجے فائرنگ اور دستی حملے
واپس آتے ہیں ہمال ( وار روم) کی جانب جہاں دن کے تقریباً 11:00 بجے ایک اہم پیش رفت ہوئی تھی۔وہاں کی بجلی کی سپلائی منقطع کر دی گئی جس کے سبب آٹومیٹک یا خودکار دروازوں کے تالوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ لاک بجلی کے نظام سے چلتے تھے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے کئی متاثرہ خاندانوں کو فراہم کی گئی تفصیلات کے مطابق بجلی منقطع ہونے سے وار روم کُھل گیا جس کے نتیجے میں حماس کے جنگجوؤں نے فائرنگ شروع کر دی اور دستی بم پھینکے۔اسرائیلی فوج نے اہلخانہ کو بتایا کہ گولانی یونٹ کے سپاہی کے ساتھ دو بدو لڑائی میں چاقو کے وار سے اسرائیلی سپاہی ہلاک ہو گیا۔جنرل زیو نے اس موقع پر کہا کہ فوجی اپنی حفاظت کے لیے دروازے کے تالوں پر انحصار کر رہے تھے کیونکہ اڈے پر موجود وسیع تر فوجی نظام و انتظام پہلے ہی ناکارہ ہو چکا تھا۔جنرل زیو نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو اسرائیلی فوج کی جانب سے دی کی بریفنگ میں بتایا گیا کہ دہشت گردوں نے حمال میں آتش گیر مادہ پھینکا اور اسے آگ لگا دی۔شیرون یاد کرتے ہیں کہ ’دھواں انتہائی زیادہ تھا۔ سب کو کھانسی آنے لگی اور دم گھٹنے لگا۔ لوگ گرنے اور بیہوش ہونے لگے ہیں۔‘ایک اہلکار کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں فوج کی جانب سے آگاہ کیا گیا تھا کہ حماس نے حملے میں ایک ’زہریلا مادہ‘ استعمال کیا تھا، تاہم دیگر متاثرہ خاندان اس تفصیل سے واقف نہیں تھے یا بعض نے کہا کہ بعدازاں اسرائیلی فوج نے اپنا مؤقف تبدیل کر لیا تھا۔
12:30 بجے کھڑکی سے فرار اور یرغمال بنایا جانا
،تصویر کا ذریعہChannel 12
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.