’ناتجربہ کار‘ ملاح: وہ شخص جو سمندر کی تہہ میں غرقاب جہاز سے 60 گھنٹے بعد زندہ نکال لیا گیا
ہیریسن اوکینے نے تین دن اسی حالت میں گزارے
ہیریسن اوکینے کو وہ لمحہ آج تک یاد ہے جب ان کی کشتی ڈوبنا شروع ہوئی تھی۔
اس وقت وہ 29 سال کے تھے اور ’جاسکون 4‘ نامی ٹگ بوٹ پر بطور باورچی کام کر رہے تھے جب اچانک ایک فنی خرابی کی وجہ سے یہ کشتی نائجیریا کے ساحل سے 32 کلومیٹر دور سمندر میں غرقاب ہونا شروع ہوئی۔
بی بی سی کے ریڈیو پروگرام ’آؤٹ لُک‘ کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں ہیریسن نے بتایا کہ ’میں اس وقت باتھ روم گیا تھا۔ میں نے دروازہ بند ہی کیا تھا کہ کشتی بائیں جانب الٹ گئی۔‘
یہ سب اتنی تیزی سے ہوا تھا کہ عملے کے 13 افراد میں سے کسی ایک کو بھی کشتی سے نکلنے کا وقت نہیں ملا۔
ہیریسن کا کہنا ہے کہ ’روشنی بجھ گئی اور مجھے سب کی چلانے کی آوازیں آئیں۔ میں نے باتھ روم کا دروازہ کھولا اور باہر نکلا لیکن مجھے کوئی نہیں ملا۔ پانی کی قوت نے مجھے ایک کیبن میں دھکیل دیا اور میں وہاں پھنس کر رہ گیا۔‘
پریشانی کے ان لمحات میں وہ تصور بھی نہیں کر سکے کہ وہ کتنے خوش قسمت تھے۔ کشتی میں بھرنے والے پانی نے ان کو ایک ’ایئر ببل‘ میں دھکیل دیا تھا جہاں آکسیجن کی اتنی مقدار موجود تھی جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور ہیریسن سمندر کی تہہ میں تقریبا تین دن تک زندہ رہنے میں کامیاب ہوئے۔
ان کی کشتی کا باقی عملہ 26 مئی 2013 کو پیش آنے والے اس واقعے میں ڈوب گیا تھا۔
کشتی میں بھرنے والے پانی نے ہیریسن اوکینے کو ایک ’ایئر ببل‘ میں دھکیل دیا تھا جہاں آکسیجن کی وافر مقدار موجود تھی
ناتجربہ کار ملاح
اس کشتی پر سوار باقی عملے کے برعکس ہیریسن زیادہ تجربہ کار ملاح نہیں تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 2010 میں ایک بحری جہاز پر نوکری ملنے سے پہلے انھوں نے کبھی زندگی میں کسی کشتی پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔
ہیریسن اس سے پہلے ایک ہوٹل میں شیف ہوا کرتے تھے لیکن جب ان کی آبائی ریاست میں آف شور تیل کا کاروبار چمکا تو انھیں احساس ہوا کہ سمندر کی تہہ سے تیل نکالنے والے بحری جہاز میں کام کرنا زیادہ فائدہ مند ہو گا۔
وہ بتاتے ہیں کہ بحری جہاز میں پہلی بار جانے کے بعد تین دن تک انھیں الٹیاں آتی رہیں۔ ’لیکن تین دن بعد میں ٹھیک ہو گیا اور اس کے بعد میں کبھی بیمار نہیں ہوا۔‘
نئی نوکری پر آ کر انھیں یہ احساس بھی ہوا کہ بحری جہاز میں ان کو صرف 12 لوگوں کے لیے ہی کھانا تیار کرنا تھا جبکہ ہوٹل میں وہ سینکڑوں لوگوں کے لیے کھانا بناتے تھے۔
اس نوکری کے اور فوائد بھی تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جتنا لمبا سفر ہوتا، اتنا زیادہ پیسہ ملتا جو خرچ بھی نہیں ہوتا تھا۔ جہاز لنگر انداز ہوتا تو سارا پیسہ میرے پاس ہی ہوتا تھا۔‘
ہیریسن اوکینے نائجیریا کی ڈیلٹا سٹیٹ کے رہائشی تھے
سمندر میں زندگی گزارنے کا تجربہ بھی ان کو بھانے لگا تھا۔ ’مجھے وہ ماحول پسند تھا، وہاں سکون ہوتا تھا، خاموشی ہوتی تھی، کوئی شور نہیں ہوتا تھا۔‘
وقت کے ساتھ ان کو علم ہو گیا تھا کہ کیسے تمام برتنوں کو رسیوں سے باندھ کر رکھنا ہے تاکہ سمندری لہروں کی وجہ سے وہ گر نہ جائیں۔
ایک بار جب انھوں نے خواب میں دیکھا کہ جہاز ڈوب رہا ہے تو جاگنے کے بعد ان کو ہنسی آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے سوچا یہ حقیقت نہیں تھی، اس خواب کے دوران میں مرا نہیں۔‘
’جاسکون 4‘
مئی 2013 میں ہیریسن نے ’جاسکون 4‘ پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کشتی پر تعینات عملے کے ساتھ وہ پہلے بھی کام کر چکے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم سب دوست تھے اور بہت قریب تھے۔ ہم ایک دوسرے سے دکھ سکھ بانٹتے تھے۔‘
25 مئی کو ان کی کشتی، جو ایک ٹگ بوٹ تھی، کافی مصروف رہی۔ انھیں سمندری طوفان کے دوران شیورون کے پلیٹ فارم پر ایک آئل ٹینکر کو بچانا پڑا تھا۔
اس صبح بھی ہیریسن کسی اور دن کی طرح کچن میں جا کر اپنا کام کر رہے تھے جب باتھ روم جانے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
’سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔ میں پریشان ہو گیا۔ مجھے لوگوں کے چیخنے چلانے کی آواز آئی۔ صبح کا وقت تھا تو کچھ لوگ سو رہے تھے۔‘
سطح سمندر سے 30میٹر نیچے جب کشتی سمندر کی تہہ سے جا کر ٹکرائی تو اندر صرف ہیریسن ہی زندہ بچے تھے۔ وہ کمر تک پانی میں ڈوبے ہوئے تھے اور ایک تنگ سی جگہ پر قید تھے۔
ان کا خیال تھا کہ کوئی نہ کوئی ان کو بچانے آئے گا لیکن دو دن یوں ہی گزر گئے اور کوئی نہیں آیا۔
ہیریسن کو ایک فلیش لائٹ ملی تو انھوں نے ساتھ والے کیبن میں جانے کی کوشش کی تاکہ باہر نکلنے کا راستہ تلاش کر سکیں۔ لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور ان کی فلیش لائٹ بند ہو گئی۔ اب وہاں مکمل اندھیرا تھا۔
ہیریسن بتاتے ہیں کہ انھوں نے صرف ایک چھوٹی سی نکر پہن رکھی تھی اور انھیں یاد ہے کہ مچھلیاں جہاز ڈوبنے کے دوران لگنے والے ان کے جسمانی زخموں کو چاٹتی تھیں۔
’میں نے اپنی بیوی اور اپنی ماں کو بہت یاد کیا۔ یہ وقت میں نے دعائیں مانگتے ہوئے گزارا۔‘
ان کے پاس خوراک نہیں تھی اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس جگہ پر موجود آکیسجن بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی تھی۔
اوپر عملے کے خاندانوں کو بتا دیا گیا تھا کہ کشتی پر سوار تمام افراد مر چکے ہیں۔ جاسکون 4 کی مالک کمپنی، ’ویسٹ افریقن وینچرز‘ نے لاشیں نکالنے کے لیے ماہرین کی مدد لی۔
اس کام کے لیے ڈچ ڈائیونگ کمپنی ’ڈی سی این گلوبل‘ سے رابطہ کیا گیا جس نے تین غوطہ خور بھیجے۔ سطح پر موجود ان کا ایک سپروائزر کیمرے کی مدد سے ان غوطہ خوروں کو دیکھ رہا تھا۔
یہ غوطہ خور ایک پریشرائزڈ چیمبر میں سمندر کی تہہ تک پہنچے تو ہیریسن نے کشتی کے دروازے کھلنے کی آواز سُنی۔ انھوں نے اپنے کیبن کی دیواروں کو زور زور سے کھٹکھٹانا شروع کیا تاکہ کوئی ان کو سن سکے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں مایوس ہو چلا تھا۔ آکسیجن تقریبا ختم ہو چکی تھی اور سانس لینا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔‘
ان کو اچانک ایک روشنی نظر آئی۔ ’میں پانی کے نیچے گیا تاکہ اس روشنی کا پتہ چلا سکوں اور پھر مجھے علم ہوا کہ وہ ایک غوطہ خور تھا۔‘
یہ شخص نیکولس وان ہیرڈن تھا جنھوں نے بعد میں ’آؤٹ لک‘ کو بتایا کہ جب کسی نے ان کو پکڑا تو وہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کا ’سب سے خوفناک لمحہ تھا لیکن جلد ہی یہ خوف کسی کو زندہ دیکھ کر خوشی میں بدل گیا۔‘
ہیریسن کہتے ہیں کہ ’میں بس اسے چھونا چاہتا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ ڈر جائے گا۔‘ ہیریسن کے مطابق وہ خود بھی ڈرے ہوئے تھے اور اپنے زندہ بچ جانے پر اتنے حیران تھے کہ ان کو ’یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ انسان ہی ہیں یا کچھ اور۔‘
نیکولس کے مطابق ہیریسن کو زندہ پانا ریسکیو آپریشن کی شروعات تھی۔ ہیریسن کو ڈائیونگ کا سامان دیا گیا اور ان کو سمجھایا گیا کہ اسے کیسے استعمال کرنا ہے۔
پھر آہستہ آہستہ ان کو کشتی سے نکال کر سطح کی جانب لے جایا گیا۔
ہیریسن بتاتے ہیں کہ ’ہر طرف کیچڑ سا تھا اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔‘ جب آخرکار وہ پریشرائزڈ چیمبر میں داخل ہو گئے اور ان کو علم ہوا کہ صرف وہی زندہ بچے ہیں تو وہ رونے لگے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں بچ گیا تھا لیکن میں نہیں چاہوں گا کہ کوئی بھی اس تجربے سے گزرے۔‘
سمندر کی تہہ میں تین دن گزارنے کے بعد ان کو ایک ڈی کمپریشن چیمبر میں تین اور دن گزارنا پڑے تاکہ ان کے جسم میں نائیٹروجن کی مقدار بحال ہو سکے جو زیر سمندر دباؤ کی وجہ سے جسم میں اکھٹا ہو کر دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے۔
ان کے خاندان کو جب علم ہوا تو ان کی بیوی بیہوش ہو گئیں جنھیں ہسپتال کے جانا پڑا۔
ہیریسن اوکینے
تین دن بعد ان کو ہیلی کاپٹر پر ہسپتال کے جایا گیا جہاں ان کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ ان کے گھر پر اب صرف ان کا خاندان ہی نہیں بلکہ وہ سب لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے جنھوں نے اس ’معجزے‘ کے بارے میں سنا تھا۔
ان کی ناقابل یقین کہانی بعد میں دنیا بھر میں پھیلی جب ان کو بچانے والے غوطہ خوروں نے اس آپریشن کی ویڈیو شائع کی۔
ہیریسن نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پانی کے قریب بھی نہیں جائیں گے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد ایک حادثہ پیش آیا جس کے دوران ان کی گاڑی ایک پل سے گر کر ایک جھیل میں جا گری۔ اس بار بھی وہ زندہ باہر نکلنے میں کامیاب رہے اور انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو بھی بچا لیا۔
اس واقعے کے بعد انھوں نے اپنے وعدے پر نظر ثانی کی اور ایک فیصلہ کیا۔ وہ ماہر غوطہ خور بن گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پہلے واقعے کے بعد میں نے کہا تھا کہ میں واپس سمندر میں نہیں جاؤں گا لیکن میں اب جانتا ہوں کہ مجھے یہیں ہونا چاہیے۔ یہی میرا نصیب ہے اور خدا یہی چاہتا ہے۔‘
Comments are closed.