نابینا ویڈیو گیمر جو صرف آواز کے سہارے حریف کو ہرا دیتے ہیں

گیم

،تصویر کا ذریعہCARLOS VASQUEZ

،تصویر کا کیپشن

کارلوس واسکیز

پیشہ ورانہ گیمنگ کی دنیا میں ریٹل ہیڈ کے نام سے ایک غیر معمولی و باصلاحیت پلیئر گیمنگ کرتے ہیں مگر ان کا اصل نام کارلوس واسکیز ہے۔

جب وہ امریکہ میں ہونے والے مختلف گیمنگ ٹورنامنٹس میں شرکت کرتے ہیں تو ان کے مخالف پلیئرز کو فوری طور پر پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ’مکمل طور پر نابینا‘ ہیں۔

ان کے مخالف پلیئرز کو جب یہ علم ہوتا ہے کہ کارلوس نابینا ہیں تو وہ یہ سوچتے ہیں شاید وہ فائٹنگ گیم مورٹل کومبیٹ میں انھیں آسانی سے ہرا دیں گے لیکن اکثر خود ہی ہار جاتے ہیں۔

کارلوس گیمز کھیلتے ہوئے اپنی جارحانہ اور دفاعی چالوں کے لیے اسے دیکھنے کی بجائے سننے پر انحصار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں کرداروں کی مخصوص آوازوں کو سُن اور سمجھ جاتا ہوں کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔‘

امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن سے تعلق رکھنے والے کارلوس نے 1992 میں چھ سال کی عمر میں ویڈیو گیمز کھیلنا شروع کیا۔ لیکن جب وہ 11 برس کے تھے تو انھیں گلوکوما کی ایک قسم کی تشخیص ہوئی، آنکھوں کی ایک حالت جس نے آہستہ آہستہ اس کی بینائی چھین لی۔

اب کارلوس 37 سال کے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’میرے ساتھ یہ سب راتوں رات نہیں ہوا۔ ابتدا میں، میں چیزوں کی پرچھائی دیکھنے کے قابل تھا یعنی نظر میں انتہا کا دھندلا پن تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بینائی اس حد تک خراب ہوتی گئی کہ جب میں تقریباً 24 سال کا تھا تو میں مکمل طور پر نابینا ہو چُکا تھا۔‘

اس وقت انھیں یہ محسوس ہوا کہ ان کے لیے زیادہ تر اہم گیمز کھیلنا تقریباً ناممکن تھا۔ کیونکہ وہ خصوصیات جو بینائی سے محروم لوگوں کو گیمز کھیلنے میں مدد کرتی ہیں، جنھیں گیمنگ ایکسیسبیلٹی کہا جاتا ہے اس وقت نہیں تھیں۔ اس طرح کی خصوصیات میں اسکرین ریڈرز شامل ہیں، جہاں معذور افراد کے لیے زبانی ہدایات دی جاتی ہیں کہ گیم میں کیا ہو رہا ہے۔

جب کارلوس 20 کے پیٹے میں تھے تو وہ کچھ فائٹنگ گیمز کھیلنے کے قابل تھے جیسے کہ مورٹل کومبیٹ۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہNETHERREALM STUDIOS

وہ کہتے ہیں ’اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مورٹل کومبیٹ میں معذور افراد کے لیے گیم کھیلنے کے فیچر تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے جیسے کھلاڑی مختلف آوازوں کو سمجھنے کے قابل تھے۔ اس نے ہمیں زیادہ سے زیادہ گیم کھیلنے کے قابل بنایا۔

مثال کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ ’سکرین کے دائیں طرف والے کردار کی آواز بائیں طرف والے کردار کے مقابلے میں قدرے اونچی ہوتی ہے۔ اس سے انھیں یہ معلوم کرنے میں مدد ملی کہ وہ کون سا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘

سنہ 2023 میں زیادہ تر گیمز میں معذور افراد کے لیے کھیلنے کی خصوصیات موجود ہیں، جن میں فورزا موٹراسپورٹ، دیابلو فور، دی لاسٹ آف اس، ہارتھ سٹون، سٹریٹ فائٹر سکس، اور مورٹل کومبیٹ کا نیا ایڈیشن شامل ہے۔

فورزا موٹرسپورٹ میں بلائنڈ ڈرائیونگ اسسٹس کے نام سے ایک فیچر ہے جس کے ذریعے نابینا افراد کو زبانی طور پر ٹریک پر آنے والے موڑوں اور ان کی تیز رفتاری کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ مختلف شور یا آڈیو اشارے چیزوں کی نشاندہی کرتے ہیں جیسے گاڑی کی رفتار، غلط راستے کا انتخاب کرنے کی صورت میں آگاہ کرنا یا گیئر تبدیل کرنا ہو۔

مورٹل کومبیٹ کے لیے اب اضافی آڈیو فیڈ بیک کا ایک پورا نظام دستیاب ہے، جیسے گیمز میں موجود کرداروں کے درمیان فاصلے کو بتانا، یا اگر کوئی حریف کھیلنے سے انکار کر دے۔

فورزا موٹرسپورٹ میں معذور افراد کے لیے گیم کھیلنے کے لیے تازہ ترین ڈویلپمنٹ بھی شامل ہے جسے سپیٹیئل آڈیو نامی ٹیکنالوجی کہا جاتا ہے۔ اس فیچر کے ذریعے گیم کے دوران ایسی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جس سے وہ جان سکتے ہیں کہ گیم میں کیا ہو رہا ہے۔

اس شعبے کے ایک ماہر پروفیسر برائن سمتھ بتاتے ہیں کہ ’جب آپ (حقیقی زندگی میں) کوئی آواز سنتے ہیں، جیسے آپ کے آس پاس کے کسی خاص مقام سے بات کرنے والا شخص، تو آواز کی لہر آپ کے کانوں تک قدرے مختلف اوقات میں، قدرے مختلف حجم میں پہنچتی ہے۔‘

’پھر آواز آپ کے سر سے گزر کر دوسرے کان تک پہنچے گی، اور اس طرح یہ سگنل بھی تھوڑا سا تبدیل ہو جائے گا۔ آپ کا دماغ مختلف اوقات میں ان سگنلز کو حاصل کرنے اور یہ سمجھنے میں بہت اچھا ہے: ’اوہ، اس کا مطلب ہے کہ آواز اس جگہ سے آ رہی ہے، اور یہ ایک ہی آواز ہے۔‘

سات سال قبل معذور افراد کی جانب سے زیادہ سے زیادہ کمپیوٹر گیمز کھیلنے کی مہم چلانے والے ایبل گیمرز چیریٹی نے گیم ڈویلپر راک سٹار سے پوچھا تھا کہ اس کے گرینڈ تھیفٹ آٹو وی ٹائٹل کو معذور افراد کے لیے بنانے میں کتنی لاگت آئے گی۔

بتایا جاتا ہے کہ کمپنی نے جواب دیا ہے کہ اس پر 128 ملین ڈالر (100 ملین پاؤنڈ) لاگت آئے گی، جسے وہ بہت مہنگا سمجھتی ہے۔

اس کے نتیجے میں لیام ارون نامی ایک آزاد سافٹ ویئر ڈویلپر نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور ایک سافٹ ویئر ایڈ آن تیار کرنے کا فیصلہ کیا، جسے ماڈ بھی کہا جاتا ہے، تاکہ گرینڈ تھیفٹ آٹو کو کمزور بینائی والے افراد کے لیے زیادہ قابل کھیل بنایا جاسکے۔

لیام، جو پیدائشی نابینا ہیں نے اپنے ماڈ کو بنانے کے لیے ساتھیوں کی ایک ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں، جسے گرینڈ تھیفٹ ایکسیسیبلٹی کہا جاتا ہے۔

وہ جن خصوصیات کو شامل کرنے کے قابل ہوئے ان میں کھلاڑیوں کو قریبی اشیا، گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے صوتی اشارے شامل ہیں۔ صارفین کو ان کے مقام، سمت اور انھوں نے کون سا ہتھیار منتخب کیا ہے اس کے بارے میں آڈیو فیڈ بیک بھی ملتا ہے۔

یہ سب راک سٹار کی جانب سے تخمینہ لاگت کے مقابلے میں معمولی لاگت میں تیار کیا گیا۔

لیام کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ سو فیصد نہیں ہے لیکن پھر بھی اس کے ذریعے ’کھیلنے میں مزہ آتا ہے۔ اور اسے صارفین نے پسند کیا ہے۔

علامتی تصویر

،تصویر کا ذریعہBRIAN SMITH

پروفیسر سمتھ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے آزاد ڈویلپرز نے آگاہی پیدا کرنے اور بڑے گیمنگ سٹوڈیوز کو متحرک کرنے میں ایک بڑا کردار ادا کیا ہے تاکہ انھیں احساس ہو کہ نابینا کھلاڑیوں کے لیے بھی گیمز کو کھیلنے کے قابل بنانا ’اتنا مشکل نہیں جتنا لگتا ہے۔‘

تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ گیمنگ انڈسٹری میں اب بھی بہت سے نابینا افراد کی نمائندگی نہیں ہے۔ ’اور اس لیے انڈسٹری کے لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا، یا مجھے لگتا ہے کہ ان کے پاس معلومات ہیں کہ نابینا افراد اور گیم تک رسائی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ تاہم، حالات مسلسل بہتر ہو رہے ہیں۔

کارلوس واسکیز آج نہ صرف مورٹل کومبیٹ پر مخالفین کو شکست دے رہے ہیں۔ بلکہ اب وہ گیم کے ڈویلپر نیدر ریئلم سٹوڈیوز کے لیے ایک کنسلٹنٹ کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ گیمنگ کمپنیاں ان جیسے مزید لوگوں کو ملازمت دیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ڈویلپرز لوگوں تک پہنچنے اور ان سے مشورہ کرنے کے بجائے بنیادی طور پر اندازہ لگاتے تھے کہ معذور افراد کیا تلاش کر رہے ہیں۔

’کمپنیوں کو ان لوگوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے جو ہر روز اس طرح زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی رائے حاصل کریں، چاہے وہ سٹوڈیو میں ہو یا ٹیسٹنگ کے مرحلے میں لیکن مجھے لگتا ہے کہ صنعت کو مجموعی طور پر جو بہتر کرنے کی ضرورت ہے وہ زیادہ شفاف ہونا ہے، اس بارے میں کہ آیا ان کی گیمز میں معذور افراد کے لیے کھیلنے کے فیچرز ہوں گے یا نہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ