نائجیریا میں دس سال قبل اغوا ہونے والی 276 طالبات: ’واپس آنے کا افسوس ہے، بوکو حرام کے کیمپ میں زیادہ آزادی تھی‘،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
،تصویر کا کیپشنآمنہ علی 2016 میں بوکوحرام کی طویل قید سے فرار ہونے والی چیبوک قصبے کی پہلی لڑکی تھیں

  • مصنف, یمیسی ادیگوک
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • مقام نائجیریا
  • 37 منٹ قبل

نائجیریا کی لیزو (فرضی نام) ان27 لڑکیوں میں سے ایک ہیں جنھیں ٹھیک ایک دہائی پہلے چیبوک میں ان کے سکول سے اغوا کیا گیا تھا۔ہمیں لیزو سے ملاقات خفیہ طور پر کرنا پڑی کیونکہ ان کے مطابق نائجیریا کے مقامی حکام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ صحافیوں سے بات چیت نہ کر سکیں۔لیزو اور ان کے ساتھ اغوا ہونے والی 276 لڑکیوں کے اغوا نے دنیا کو چونکا دیا تھا اور پھرعالمی سطح پر BringBackOurGirls# کی عالمی مہم چلائی گئی جس میں امریکہ کی سابق خاتون اوّل میشل اوباما بھی شامل تھیں۔تب سے اب تک تقریباً 180 سے زیادہ لڑکیاں رہا یا فرار ہونے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور لیزو بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔

لیزو نائجیریا میں سرگرم شدت پسند اسلامی گروہ بوکو حرام کی قید کے دوران سامبیسا کے جنگل میں ان کے ایک خفیہ ٹھکانے میں رہتی تھیں اور اسی دوران انھوں نے دو بچوں کو بھی جنم دیا۔فرار ہونے کے بعد لیزو کو بھی دوسرے فرار ہونے والوں کی طرح حکومت کے بحالی پروگرام سے گزارا گیا جس کے بعد ان کے قیام کا بندوبست دوسرے مفرور افراد کے ساتھ ایک گروہ کی شکل میں کیا گیا۔وہ اپنی سیٹ پر اضطراب کے عالم میں بیٹھی کہتی ہیں ’مجھے اپنے واپس آنے کا افسوس ہے۔‘یہاں یہ یاد رہے کہ بورنو کی ریاستی حکومت نے قید سے فرار ہونے والوں کی آزادیِ اظہار پر پابندی لگانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہBBC /SIMPA SAMPSON

،تصویر کا کیپشنلیزو سرکاری رہائش گاہ میں اپنے ساتھ روا سلوک سے انتہائی ناخوش ہیں

’مجھے بوکو حرام کے کیمپ میں یہاں سے زیادہ آزادی حاصل تھی‘

لیزو اپنے ساتھ روا سلوک سے نالاں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اب ان کے ساتھ ہونے والا سلوک اس سے بھی بدتر ہے جس سے وہ پہلے (قید کے دوران) گزریں تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی میں رو پڑتی ہوں جب مجھے سب یاد آتا ہے اور پھر میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ میں نے سامبیسا کو نائیجیریا واپس آنے کے لیے کیوں چھوڑا؟‘’کیا میں اس لیے واپس آئی تھی کہ روزانہ اس طرح کی ذلت اور توہین آمیز سلوک کا سامنا کروں ۔ جب میں سامبیسا میں تھی تو میں نے کبھی اس طرح کی دل آزاری اور تکلیف سے گزرنے کا تجربہ نہیں کیا۔‘لیزو کا کہنا ہے کہ وہ ریاستی نگہداشت میں بمشکل زندہ رہ پا رہی ہیں۔ خوراک اور صابن جیسی بنیادی چیزیں تک بھی کافی نہیں۔ان کے مطابق ان کی ہر نقل و حرکت پر سکیورٹی گارڈز کی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ نہ صرف ان پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں بلکہ انھیں گروپ ہوم میں عملے کی جانب سے بدسلوکی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہ ہم پر ہر وقت چیختے چلاتے رہتے ہیں اور میں بہت ناخوش ہوں۔ مجھے بوکو حرام کے کیمپ میں یہاں سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔‘

’یہاں اب بھی سب ویسا ہی ہے‘

دوسری جانب بورنو کی ریاستی حکومت نے تسلیم ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔بی بی سی کو دیے گئے اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ان کی زیر نگرانی نوجوان خواتین کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی سوائے اس وقت جب ان کی ذاتی حفاظت کے مسائل درپیش ہوں۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ قید سے رہائی پانے والے افراد اور ان کے بچوں کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک بھی فراہم کی جا رہی ہے۔اگرچہ بوکو حرام کی قید سے فرار ہونے والوں یا رہائی پانے والوں کے تجربات قدرے مختلف ہیں اور اس وقت وہ سب بحالی کے مختلف مراحل میں ہیں تاہم ایک چیز جو ان تمام لوگوں میں ہمیں قدرے مشترک نظر آئی وہ یہ ہے کہ ان سے ان تمام برسوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو توڑا گیا تھا۔2016 میں آمنہ علی اغوا کے فوری بعد فرار ہونے والی چیبوک اسیروں میں سے پہلی لڑکی تھیں اور وہ بھی بحالی مرکز میں اپنے علاج سے مطمئن نہیں۔جس سکول کیمپس کے سامنے وہ اس وقت کھڑی تھیں اس وسیع و عریض سکول کیمپس کو جب آخری بار انھوں نے دیکھا تھا اس وقت اس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ یہ 14 اپریل 2014 کی رات تھی۔نئی تزئین و آرائش سے مزین عمارتوں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے نرمی سے کہا ’یہاں اب بھی سب ایسا ہی ہے۔‘آمنہ نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے وہاں کی تمام تبدیلیوں کو نوٹ کیا۔کمپاؤنڈ کے کونے میں ایک بلند و بالا، خشک ہو جانے والے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’ہم اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON

،تصویر کا کیپشنآمنہ مستقبل میں صحافی بن کر اغوا کے متاثرین کے لیے آواز بننے اور ایک لیڈر بننے کی امید رکھتی ہیں
وہاں موجود گھاس بہت بڑھ گئی ہے، راہداریوں پر نئی ٹائلیں ہیں۔ زنگ آلود مرکزی دروازہ ہٹا دیا گیا ہے اور ہاسٹل اب موجود نہیں۔سنہ 2021 میں جب اس گراؤنڈز کو دوبارہ بنایا گیا تو اسے ایک ڈے سکول کے طور پر کھول دیا گیا۔اگرچہ سکول میں تزین و آرائش کی تبدیلیاں اہم ہیں تاہم اس کے دروازے کے باہر چیبوک میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔یہاں عدم تحفظ اب بھی عروج پر ہے۔ شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے بندوق بردار اس علاقے پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں اور گذشتہ سال کے آخر میں کیا جانے والا ان کا تازہ ترین حملہ ہے۔خستہ حال سڑکوں پر جگہ جگہ چوکیاں بنی ہوئی ہیں اور قصبے میں فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔ ایک مقامی فرد کا کہنا ہے کہ یہاں موبائل کے رابطے خراب ہیں ، سڑک کے کنارے ایک ایک ٹیلی کام ٹاور پڑا ہوا ہے جسے شاید عسکریت پسندوں نے گرا دیا ہے۔آمنہ نے دو سال سامبیسا میں یرغمالی کے طور پر گزارے۔دیگر بہت سے قیدیوں کی طرح آمنہ کو بھی ایک عسکریت پسند سے شادی کرنے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔جنگل میں زندگی کا ایک معمول تھا۔ کھانا پکانا، صفائی کرنا، قرآن کی تعلیم ، لیکن آمنہ نے کبھی فرار ہو نے کی امید نہیں چھوڑی۔وہ کہتی ہیں، ’میں نے صرف سوچا کہ اگر میں 10 سال یرغمالی میں گزار دوں تو ایک دن میں بھاگ جاؤں گی۔‘اور ایک دن آمنہ نے یہی کیا۔ جنگل کے درمیان گھنی جھاڑیوں کو پار کرنے میں ہفتوں لگ گئے اس دوران ان کا دو ماہ کا بچہ ان کی پیٹھ سے بندھا ہوا تھا جبکہ خوراک بھی ناکافی تھی لیکن پھر بھی انھوں نے اسے ممکن بنایا۔لیکن 90 سے زائد لڑکیاں اب بھی لاپتہ ہیں انھی میں آمنہ کی سہیلی ہیلن نگلاڈا بھی شامل ہیں۔آمنہ اور ہیلن ہم جماعت تھیں۔ وہ دونوں چرچ بینڈ میں سنگر تھے جس کی ہیلن لِیڈ(قیادت) کرتی تھیں۔اغوا ہو جانے کے بعد ہیلن اور آمنہ دونوں سمبیسا کے جنگل میں ایک دوسرے کے قریب آگئے،اور جتنا وقت وہ ایک ساتھ گزار سکتے تھے انھوں نے گزارنا شروع کیا۔ آمنہ کی ہیلن کے ساتھ آخری بات چیت چیبوک کے بارے میں ہوئی تھی اور ان کی خواہش تھی کہ وہ وہاں پھر لوٹ سکیں۔،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
،تصویر کا کیپشنہیلن کے اغوا کے بعد سے ان کے گھر والے ایک مسلسل اذیت سے گزر رہے ہیں
ہیلن کے اغوا کے بعد سے ان کے گھر والے ایک مسلسل اذیت سے گزر رہے ہیں اور صدمے کی کیفیت ان کے والدین، ساراتو اور ابراہیم کے چہروں پر نقش ہے جو ہیلن کے سکول سے کچھ ہی فاصلے پر اپنے چھوٹے سے گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ساراتو اپنی بیٹی ہیلن اور ان کی بہن کی دو تصویروں کو مضبوطی سے پکڑ کے بیٹھی ہیں۔ لڑکیوں نے ایک سے لباس پہنے ہیں۔ ان کے سر پر سکارف ہے اور چہرے کے تاثرات سنجیدہ ہیں۔آمنہ کہتی ہیں ’میری خواہش ہے کہ میں اپنے دوست کو دوبارہ پا سکوں تاکہ ہم ساتھ ساتھ اپنی خوشیاں بانٹ سکیں۔‘ہیلن کی والدہ ساراتو اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔’جب بھی آپ گھر آتی ہیں اور میں آپ کو دیکھتی ہوں تو میرا دماغ اپنی بیٹی کی سوچ میں گم ہو جاتا ہے۔‘یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جبکہ اور آمنہ نے تسلی دینے کے لیے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔،تصویر کا ذریعہAFP
،تصویر کا کیپشن2016 میں بوکو حرام سے فرار ہونے کے بعد آمنہ اپنے بچے کے ساتھ اس وقت کے صدر محمدو بخاری سے ملیں
اس دوران ہیلن کے والد ابراہیم نے آہستگی سے کہا ’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ہمارا (ریاست کا) گورنر کچھ کرے اور ہمارے بچوں کو بچائے۔ انھیں دوسرے بچوں کو بچانے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے۔‘2016 میں جب آمنہ قید سے فرار ہوئیں تو اس کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا۔فوج کی طرف سے بریف کیے جانے کے بعد انھوں نے اس وقت کے صدر محمدو بوہاری سمیت دیگر سرکاری حکام سے ملاقات کی، جنھوں نے یقین دلایا کہ ان کی زندگی میں بہتری آئے گی۔آمنہ نے حکومتی وعدوں سے متعلق بتایا ’صدربوہاری نے یقین دلایا تھا کہ وہ ہمارا خیال رکھیں گے اور وہ نہ صرف ہمیں بلکہ ہمارے بچوں کو بھی سکول بھیجیں گے کیونکہ یہ ہماری غلطی نہیں تھی اور نہ ہماری خواہش اور ہمارے بچے بھی ان حالات سے واقف نہیں ہیں، وہ معصوم اور بے قصور ہیں۔ اس لیے وہ ان کا خیال رکھیں گے۔ ‘

شدید مالی تنگی اور مشکل حالات

ان وعدوں کے برعکس آج ان کی زندگی قدرے مختلف اور مشکل ہے۔ آمنہ اب یولا میں رہتی ہیں جو چیبوک سے تقریباً پانچ گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں جبکہ باہر بنا باتھ روم ان کے اور پڑوسی کے مشترکہ استعمال میں ہے۔ جبکہ لکڑیاں جلا کروہ کھانا پکاتی ہیں۔ان کوبہت مالی تنگی کا سامنا ہے۔روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انھیں ماہانہ 20 ہزار نیرا (نائجیریا کی کرنسی) ملتے ہیں لیکن حکومت کے وعدوں کے باوجود بیٹی کی تعلیم کے لیے انھیں کچھ نہ دیا گیا اور کھیتی باڑی کر کے حاصل ہونے والی معمولی سی رقم سے وہ اپنی بیٹی کی فیس خود ادا کرتی ہیں۔’میرے لیے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہے۔ میں کیا کر سکتی ہوں ؟ مجھے یہ کرنا ہی ہے کیونکہ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON

،تصویر کا کیپشنآمنہ بوکو حرام کے کیمپ میں پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کی پرورش کے لیے درکار پیسوں کے لیے محنت کر رہی ہیں
ان دنوں آمنہ امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مصروف ہیں۔ اپنی بیٹی کی پرورش کر رہی ہیں۔ امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا ایک نجی اور مہنگی یونیورسٹی ہے اور یہ وہ واحد آپشن ہے جو امینہ اور ان جیسی دیگر چیبوک لڑکیوں کو اپنی تعلیم دوبارہ شروع کرنے کے لیے دیا گیا تھا تاہم ان میں سے بہت سوں کو تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات ہیں اس لیے بعض نے تعلیم کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔’ہم نے امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا کا انتخاب اپنے لیے خود نہیں کیا تھا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس ادارے کے معیار پر پورا اترنا ہمارے لیے مشکل ہے۔ ہم لڑکیاں غریب پس منظر سے آئی ہیں ، سابق وزیر نے ہمیں اس سکول میں آنے پر مجبور کیا۔‘لڑکیوں نے کہا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ادارے کو خود منتخب کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا کی فیس کی مد میں خرچ کی جانے والی خطیر رقم میں سے حکومت کچھ رقم براہ راست ان کی مدد کے لیے خرچ کر سکتی تھی۔آمنہ نے 2017 میں اس درس گاہ میں داخلہ لیا لیکن ان کی گریجویشن میں ابھی وقت ہے۔ قید سے رہائی پانے والی لڑکیوں میں سے صرف ایک نے ابھی تک گریجویشن مکمل کی ہے۔

’یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آپ خالی پیٹ سکول نہیں جا سکتے‘

نائیجیریا میں خواتین کے امور کی وزیر اوجو کینیڈی کے مطابق حکومت گذشتہ چھ سالوں سے چیبوک کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کو ساڑھے تین لاکھ ڈالر سالانہ ادا کر رہی ہے اور اس نظام جائزہ لیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ وہ اب کسی کو اس قسم کی رقم کی ادائیگی نہیں کریں گی۔ ’چاہے وہ اسے بجٹ میں ڈال دیں، میں یہ رقم جاری نہیں کروں گی۔‘’لڑکیوں کی حالت کو سب سے پہلے سمجھا جانا چاہیے۔ سکول سب سے اہم ہے، لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آپ خالی پیٹ سکول نہیں جا سکتے۔‘رقیہ گلی ایک اور چیبوک لڑکی ہیں جو 2017 میں بوکو حرام کی قید سے فرارہوئی تھیں۔ وہ امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا میں مختصر وقت کے لیے طالب علم رہیں۔ صحت کی خرابی کی وجہ سے انھیں یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔رقیہ کہتی ہیں کہ انھیں حکومت کی کوئی مالی مدد نہیں ملتی اور آمنہ کی طرح حکومت کی طرف سے وعدوں کے باوجود وہ کھیتی باڑی سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے بیٹے کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتی ہیں۔’حکومت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ ہمیں اغوا کر کے سمبیسا جنگل میں لے جایا گیا اور ہم وہاں سے بچوں کے ساتھ واپس آئے۔ اگر وہ ہماری مدد نہیں کر سکتے تو پھر ہماری مدد کون کرے گا؟‘رقیہ مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ خوف کے عالم میں زندگی بسر کر رہی ہیں جس کی وجہ ان کے قصبے پر اب بھی بوکو حرام کے حملے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں عسکریت پسندوں نے ان کے بیٹے کے سکول کو جلا دیا تھا۔وہ کہتی ہیں ’جب بھی میں کوئی آواز سنتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ یہ بندوق کی گولی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON

،تصویر کا کیپشن2021 میں ایک ڈے سکول کے طور پرسکول کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے
رقیہ اپنی زندگی میں اب آگے بڑھنا اور اپنے بیٹے کے لیے بہترین تعلیم کا حصول چاہتی ہیں لیکن امداد میں کمی ان کے ارادوں کی تکمیل میں آڑے ہے۔ان کا خیال ہے کہ بوکو حرام کی قید میں موجود چیبوک لڑکیاں یہ جان لیں کہ وہ اور فرار ہونے والی دیگر لڑکیاں کیمپ سے باہر کیسی زندگی گزار رہی ہیں تو یقینا وہ بوکوحرام کے ساتھ رہنا پسند کریں گی۔’جب لڑکیاں واپس آئیں گی تو وہ ہمارے ساتھ ایسی صورتحال میں پھنس جائیں گی۔‘’میں کہوں گی کہ بچے کے ساتھ سمبیسا کے جنگل میں رہنا بہتر ہے کیونکہ بچے کا باپ انھیں ایسی مصیبت سے گزارنے کے بجائے ان کو مدد فراہم کرے گا۔‘چیبوک لڑکیوں کے اغوا میں ملوث محمد علی بوکو حرام کے ایک سابق جنگجو تھے اور اب وہ میدوگوری میں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے ہیں جن میں ان کے آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔محمد علی 13 سال تک عسکریت پسند گروہ کا حصہ رہے یہاں تک کے کمانڈر کے عہدے تک پہنچ گئے اور انھوں نے مغوی چیبوک لڑکیوں میں سے ایک سے زبردستی ’شادی‘ کر لی۔’جس وقت میں نے ان سے شادی کی، مجھے کسی جرم کا احساس نہیں ہوا لیکن جب میں نے ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تو میں نے جانا کہ اس کام کے لیے انھیں مجبور کرنا کتنا خوفناک محسوس ہوا ہوگا۔‘دیگر ہزاروں جنگجوؤں کی طرح محمد علی کو بھی معافی دے دی گئی اور ریاستی حکومت کی بحالی کا پروگرام مکمل کیا۔ ان کے پاس ایک زرعی فارم ہے، لیکن وہ اغوا شدہ لڑکیوں کو بچانے میں مدد کے لیے فوج کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں۔

’میں ان کو دیکھ کر رو پڑا‘

،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON

،تصویر کا کیپشنچیبوک لڑکیوں کے اغوا میں ملوث محمد علی بوکو حرام کے ایک سابق جنگجو تھے اور اب وہ فوج کی مدد کرتے ہیں
پچھلے سال محمد علی ایک ایسے گروپ کا حصہ تھے جس نے کچھ ایسے ہی لوگوں کو ریسکیو کیا جن کے اغوا میں وہ خود ملوث رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’میں ان کو دیکھ کر رو پڑا۔‘حکومت کے معافی کے پروگرام پر بھی بعض لوگوں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ محمد علی جیسے سابق عسکریت پسندوں کو جیل کاٹنا چاہیے اور انھیں متعدد جرائم کے ارتکاب پر جوابدہ ہونا چاہیے۔’اس سلسلے میں میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں اپنے اعمال پر معافی مانگنا چاہیے۔ مجھے پچھتاوا ہے، میں اس آگ کو بجھانے کے طریقے تلاش کر رہا ہوں جو ہم نے شروع کی تھی۔ اس کوشش میں ہمارے ساتھ وہ تمام ساتھی ہیں جنھوں نے ہتھیار ڈالے تھے۔ ہم شورش کے تمام اثرات کو ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘لیکن یہ لڑائی ابھی بھی عروج پر ہے اور اغوا برائے تاوان نائیجیریا میں اور بھی زیادہ پھیل گیا ہے۔اس سٹوری کی رپورٹنگ کے دوران شمال مشرقی نائیجیریا میں اغوا کے تین الگ الگ واقعات ہوئے، ان میں سے ایک حملہ سکول پر ہوا اور یہ 2021 کے بعد اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ تھا۔محمد علی کا کہنا ہے کہ چیبوک کی لڑکیوں کے اغوا کی ’کامیابی‘ نے اس قسم کے حملوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔’ہم نے محسوس کیا کہ اس واقعے نے پوری قوم اور مجموعی طور پر افریقہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور گروپ لیڈر ابوبکر شیکاو کے لیے بوکو حرام کا بنیادی مشن ہماری سرگرمیوں کی طرف توجہ مبذول کروانا تھا۔‘’انھوں نے ان کارروائیوں میں سے کچھ سے رقم بھی حاصل ہوئی جس سے ٹرانسپورٹ اور کھانے کی ادائیگی میں مدد ملی اور اسی وجہ سے انھوں نے اغوا کا سلسلہ جاری رکھا۔‘نائیجیریا کی فوج اور اس کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک پھیلی ہوئی شورش سے نمٹنے کی اس کی صلاحیت کے حوالے سے کئی سوالات کے جواب ابھی باقی ہیں۔۔۔ خاص طور پر ایسے وقت جب ملک کے دیگر حصوں میں عدم تحفظ پھیل رہا ہے۔نائیجیریا کے دفاعی سربراہ جنرل کرسٹوفر گوابن موسیٰ نے فوج کو درپیش ’بہت زیادہ‘ چیلنجز کو تسلیم کیا ہے اور ملک میں عدم تحفظ کی موجودہ حالت کو ’بدترین‘ قرار دیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ پراعتماد ہیں کہ یہ صورتحال بدل رہی ہے۔جہاں تک قید میں موجود 91 چیبوک لڑکیوں کا معاملہ ہے اس بارے میں جنرل موسیٰ کا کہنا ہے کہ فوج نے انھیں بازیاب کروانے کی امید نہیں چھوڑی ہے۔موجودہ صورتحال کے باوجود آمنہ مستقبل کے حوالے سے پر امید بھی ہیں۔وہ مستقبل میں صحافی بن کر اغوا کے متاثرین کے لیے آواز بننے اور ایک لیڈر بننے کی امید رکھتی ہیں۔ انھیں امید ہے کہ ان کی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کرے گی اور اس کا مستقبل روشن اور محفوظ ہوگا۔اور انھیں اپنی ہم جماعت لڑکیوں کے ایک دن آزاد ہو جانےکا بھی بھرپور یقین ہے۔وہ کہتی ہیں، ’مجھے حکومت سے صرف ایک چیز کی ضرورت ہے کہ وہ ابھی تک قید میں رہنے والی بہنوں کو رہا کرے، یہی میری امید ہے۔ کیونکہ اگر تو وہ ابھی بھی زندہ ہیں تو وہ ایک نہ ایک دن ضرور واپس آئیں گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}