نائجیریا میں دس سال قبل اغوا ہونے والی 276 طالبات: ’واپس آنے کا افسوس ہے، بوکو حرام کے کیمپ میں زیادہ آزادی تھی‘
- مصنف, یمیسی ادیگوک
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- مقام نائجیریا
- 37 منٹ قبل
نائجیریا کی لیزو (فرضی نام) ان27 لڑکیوں میں سے ایک ہیں جنھیں ٹھیک ایک دہائی پہلے چیبوک میں ان کے سکول سے اغوا کیا گیا تھا۔ہمیں لیزو سے ملاقات خفیہ طور پر کرنا پڑی کیونکہ ان کے مطابق نائجیریا کے مقامی حکام کوشش کر رہے ہیں کہ وہ صحافیوں سے بات چیت نہ کر سکیں۔لیزو اور ان کے ساتھ اغوا ہونے والی 276 لڑکیوں کے اغوا نے دنیا کو چونکا دیا تھا اور پھرعالمی سطح پر BringBackOurGirls# کی عالمی مہم چلائی گئی جس میں امریکہ کی سابق خاتون اوّل میشل اوباما بھی شامل تھیں۔تب سے اب تک تقریباً 180 سے زیادہ لڑکیاں رہا یا فرار ہونے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور لیزو بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔
لیزو نائجیریا میں سرگرم شدت پسند اسلامی گروہ بوکو حرام کی قید کے دوران سامبیسا کے جنگل میں ان کے ایک خفیہ ٹھکانے میں رہتی تھیں اور اسی دوران انھوں نے دو بچوں کو بھی جنم دیا۔فرار ہونے کے بعد لیزو کو بھی دوسرے فرار ہونے والوں کی طرح حکومت کے بحالی پروگرام سے گزارا گیا جس کے بعد ان کے قیام کا بندوبست دوسرے مفرور افراد کے ساتھ ایک گروہ کی شکل میں کیا گیا۔وہ اپنی سیٹ پر اضطراب کے عالم میں بیٹھی کہتی ہیں ’مجھے اپنے واپس آنے کا افسوس ہے۔‘یہاں یہ یاد رہے کہ بورنو کی ریاستی حکومت نے قید سے فرار ہونے والوں کی آزادیِ اظہار پر پابندی لگانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہBBC /SIMPA SAMPSON
’مجھے بوکو حرام کے کیمپ میں یہاں سے زیادہ آزادی حاصل تھی‘
لیزو اپنے ساتھ روا سلوک سے نالاں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ اب ان کے ساتھ ہونے والا سلوک اس سے بھی بدتر ہے جس سے وہ پہلے (قید کے دوران) گزریں تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’کبھی کبھی میں رو پڑتی ہوں جب مجھے سب یاد آتا ہے اور پھر میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ میں نے سامبیسا کو نائیجیریا واپس آنے کے لیے کیوں چھوڑا؟‘’کیا میں اس لیے واپس آئی تھی کہ روزانہ اس طرح کی ذلت اور توہین آمیز سلوک کا سامنا کروں ۔ جب میں سامبیسا میں تھی تو میں نے کبھی اس طرح کی دل آزاری اور تکلیف سے گزرنے کا تجربہ نہیں کیا۔‘لیزو کا کہنا ہے کہ وہ ریاستی نگہداشت میں بمشکل زندہ رہ پا رہی ہیں۔ خوراک اور صابن جیسی بنیادی چیزیں تک بھی کافی نہیں۔ان کے مطابق ان کی ہر نقل و حرکت پر سکیورٹی گارڈز کی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ نہ صرف ان پر سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں بلکہ انھیں گروپ ہوم میں عملے کی جانب سے بدسلوکی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہ ہم پر ہر وقت چیختے چلاتے رہتے ہیں اور میں بہت ناخوش ہوں۔ مجھے بوکو حرام کے کیمپ میں یہاں سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔‘
’یہاں اب بھی سب ویسا ہی ہے‘
دوسری جانب بورنو کی ریاستی حکومت نے تسلیم ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔بی بی سی کو دیے گئے اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ ان کی زیر نگرانی نوجوان خواتین کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاتی سوائے اس وقت جب ان کی ذاتی حفاظت کے مسائل درپیش ہوں۔ حکام نے دعویٰ کیا کہ وہ قید سے رہائی پانے والے افراد اور ان کے بچوں کے لیے غذائیت سے بھرپور خوراک بھی فراہم کی جا رہی ہے۔اگرچہ بوکو حرام کی قید سے فرار ہونے والوں یا رہائی پانے والوں کے تجربات قدرے مختلف ہیں اور اس وقت وہ سب بحالی کے مختلف مراحل میں ہیں تاہم ایک چیز جو ان تمام لوگوں میں ہمیں قدرے مشترک نظر آئی وہ یہ ہے کہ ان سے ان تمام برسوں کے دوران کیے گئے وعدوں کو توڑا گیا تھا۔2016 میں آمنہ علی اغوا کے فوری بعد فرار ہونے والی چیبوک اسیروں میں سے پہلی لڑکی تھیں اور وہ بھی بحالی مرکز میں اپنے علاج سے مطمئن نہیں۔جس سکول کیمپس کے سامنے وہ اس وقت کھڑی تھیں اس وسیع و عریض سکول کیمپس کو جب آخری بار انھوں نے دیکھا تھا اس وقت اس میں آگ لگی ہوئی تھی۔ یہ 14 اپریل 2014 کی رات تھی۔نئی تزئین و آرائش سے مزین عمارتوں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے نرمی سے کہا ’یہاں اب بھی سب ایسا ہی ہے۔‘آمنہ نے چاروں طرف دیکھتے ہوئے وہاں کی تمام تبدیلیوں کو نوٹ کیا۔کمپاؤنڈ کے کونے میں ایک بلند و بالا، خشک ہو جانے والے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا ’ہم اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
شدید مالی تنگی اور مشکل حالات
ان وعدوں کے برعکس آج ان کی زندگی قدرے مختلف اور مشکل ہے۔ آمنہ اب یولا میں رہتی ہیں جو چیبوک سے تقریباً پانچ گھنٹے کی دوری پر واقع ہے۔ یہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتی ہیں جبکہ باہر بنا باتھ روم ان کے اور پڑوسی کے مشترکہ استعمال میں ہے۔ جبکہ لکڑیاں جلا کروہ کھانا پکاتی ہیں۔ان کوبہت مالی تنگی کا سامنا ہے۔روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے انھیں ماہانہ 20 ہزار نیرا (نائجیریا کی کرنسی) ملتے ہیں لیکن حکومت کے وعدوں کے باوجود بیٹی کی تعلیم کے لیے انھیں کچھ نہ دیا گیا اور کھیتی باڑی کر کے حاصل ہونے والی معمولی سی رقم سے وہ اپنی بیٹی کی فیس خود ادا کرتی ہیں۔’میرے لیے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنا مشکل ہے۔ میں کیا کر سکتی ہوں ؟ مجھے یہ کرنا ہی ہے کیونکہ میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
’یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آپ خالی پیٹ سکول نہیں جا سکتے‘
نائیجیریا میں خواتین کے امور کی وزیر اوجو کینیڈی کے مطابق حکومت گذشتہ چھ سالوں سے چیبوک کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کو ساڑھے تین لاکھ ڈالر سالانہ ادا کر رہی ہے اور اس نظام جائزہ لیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ وہ اب کسی کو اس قسم کی رقم کی ادائیگی نہیں کریں گی۔ ’چاہے وہ اسے بجٹ میں ڈال دیں، میں یہ رقم جاری نہیں کروں گی۔‘’لڑکیوں کی حالت کو سب سے پہلے سمجھا جانا چاہیے۔ سکول سب سے اہم ہے، لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ آپ خالی پیٹ سکول نہیں جا سکتے۔‘رقیہ گلی ایک اور چیبوک لڑکی ہیں جو 2017 میں بوکو حرام کی قید سے فرارہوئی تھیں۔ وہ امریکن یونیورسٹی آف نائیجیریا میں مختصر وقت کے لیے طالب علم رہیں۔ صحت کی خرابی کی وجہ سے انھیں یونیورسٹی چھوڑنا پڑی۔رقیہ کہتی ہیں کہ انھیں حکومت کی کوئی مالی مدد نہیں ملتی اور آمنہ کی طرح حکومت کی طرف سے وعدوں کے باوجود وہ کھیتی باڑی سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے بیٹے کی تعلیم کا خرچ برداشت کرتی ہیں۔’حکومت نے ہمارے ساتھ ناانصافی کی ہے۔ انھیں معلوم تھا کہ ہمیں اغوا کر کے سمبیسا جنگل میں لے جایا گیا اور ہم وہاں سے بچوں کے ساتھ واپس آئے۔ اگر وہ ہماری مدد نہیں کر سکتے تو پھر ہماری مدد کون کرے گا؟‘رقیہ مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ خوف کے عالم میں زندگی بسر کر رہی ہیں جس کی وجہ ان کے قصبے پر اب بھی بوکو حرام کے حملے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حال ہی میں عسکریت پسندوں نے ان کے بیٹے کے سکول کو جلا دیا تھا۔وہ کہتی ہیں ’جب بھی میں کوئی آواز سنتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ یہ بندوق کی گولی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
’میں ان کو دیکھ کر رو پڑا‘
،تصویر کا ذریعہBBC/SIMPA SAMSON
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.