’میں ہر وقت اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں‘: وہ قیدی جنھیں امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نائٹروجن گیس کے ذریعے سزائے موت دی جائے گی،تصویر کا ذریعہAlabama Department of Corrections
،تصویر کا کیپشنکینیتھ یوجین سمتھ کو 25 جنوری کو سزائے موت دی جانی ہے۔

  • مصنف, ٹوم بیٹ مین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • ایک گھنٹہ قبل

انتباہ: اس مضمون میں سزائے موت کے متعدد طریقے زیرِ گفتگو آئیں گے جو شاید کچھ قارئین کے لیے تکلیف دہ ہوں۔جب پہلی مرتبہ کینیتھ کو سزائے موت دی جانی تھی تو الاباما کی جیل کے جلادوں کے پاس انھیں موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے متعدد گھنٹے تھے۔انھوں نے سزائے موت کے اس مجرم کے چہرے کو نقاب سے ڈھک دیا اور انھیں جیل کے ’ڈیتھ چیمبر‘ میں لے گئے۔ جلادوں نے جان لیوا کیمیکلز کا محلول اُن کے جسم میں اُتارنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ یاد رہے کہ امریکہ میں موت کی سزا ٹیکے کے ذریعے جان لیوا کیمیکل مجرم کے جسم میں داخل کر کے دی جاتی ہے۔جلادوں کو انجیکشن لگانے کے لیے مجرم کی نس (نبض) ہی نہیں مل پائی اور کینیتھ کے وکیلوں کے مطابق اس ضمن میں جیل حکام کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باعث کینیتھ کے جسم پر متعدد زخم ہو گئے۔

پھر جلادوں نے کینیتھ کو سزائے موت دینے کی کوششیں ترک کر دیں کیونکہ گھڑی نے رات کے 12 بجا دیے تھے اور تاریخ بدل جانے کی وجہ سے ڈیتھ وارنٹ ایکسپائر ہو گئے تھے۔یہ واقعہ 22 نومبر 2022 کو ہوا تھا۔ اب الاباما کے جلاد انھیں ایک بار پھر سزائے موت دینے کی کوشش کریں گے۔اس بار امریکی ریاست نے کینیتھ کو سزائے موت دینے کے لیے لیے نئے طریقے کی منظوری دی ہے۔ ان کے منھ پر ایک ماسک باندھ دیا جائے گا جس میں سے نائٹرجن گیس نکلے گی جو کہ اُن کے جسم میں موجود تمام آکسیجن کو چوس لے گی اور یوں ان کی موت واقع ہو جائے گی۔اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ سزائے موت کے اس طریقہ کار کو کبھِی آزمایا نہیں گیا ہے اور یہ تشدد اور ظلم کے متراف ہے اور اس غیر انسانی عمل کو روکنا چاہیے۔امریکہ کی ایک فیڈرل عدالت میں کینیتھ کے وکلا کی اس ضمن میں اپیل پر ابھی فیصلہ آنا باقی ہے، تاہم عدالت نے سزائے موت کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔سمتھ ان دو افراد میں سے ہیں جنھیں 1989 میں ایک مبلغ کی اہلیہ الیزیبتھ سینیٹ کو قتل کرنے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔الیزیبتھ سینیٹ کو چاقو کے وار کر کے قتل کیا گیا تھا اور پیشہ ور قاتلوں نے انھیں قتل کرنے کے عوض ایک ہزار ڈالر معاوضہ لیا تھا۔کینیتھ جدید امریکی تاریخ میں پہلے شخص ہیں جنھیں دو مرتبہ سزائے موت دی جائے گی، یعنی پہلی مرتبہ وہ جب سزائے موت دینے کی کوشش ناکام ہوئی اور اب دوسری مرتبہ نائٹرجن گیس کی مدد سے۔،تصویر کا ذریعہUS Prisons

،تصویر کا کیپشنکینیتھ یوجین سمتھ کو 1996 میں سزائے موت سنائی گئی تھی،
سزائے موت کے منتظر کینیتھ نے بی بی سی کے سوالات کا جیل سے تحریری جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرا جسم ٹوٹ رہا ہے اور میرا وزن بھی کم ہو رہا ہے۔‘الاباما میں سزائے موت کے قیدیوں اور صحافیوں کے درمیان براہ راست ملاقاتوں پر پابندی ہے۔ بی بی سی نے ان سے گذشتہ ہفتے ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ کیا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر انٹرویو سے معذرت کر لی کے ان کی طبعیت ناساز ہے۔انھوں نے اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ ’مجھ پر ہر وقت متلی کی سی کیفیت طاری رہتی ہے، میں اضطراب میں مبتلا رہتا ہوں اور یہ ان احساسات کا چھوٹا سے حصہ ہے جو میں روزانہ محسوس کر رہا ہوں۔ یہ تشدد ہے۔‘انھوں نے اپیل کی کہ ’اس سزائے موت کو روکا جائے۔ اس سے پہلے کہ کہیں بہت دیر نہ ہو جائے۔‘امریکی ریاست کے حکام کا کہنا ہے کہ نائٹروجن گیس کے اثر سے مجرم فوراً بے ہوش ہو جائے گا لیکن ان کی جانب سے اپنے اس دعوے کی حمایت میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں دیا گیا۔میڈیکل ماہرین اور رضاکاروں نے خبردار کیا ہے کہ نائٹروجن کے استعمال کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں اور یہ امکان بھی موجود ہے کہ ماسک سے لیک ہونے والی گیس کمرے میں موجود دیگر لوگوں کو بھی ہلاک کر دے۔کینیتھ کے روحانی معاون ڈاکٹر جیف ہُڈ کا کہنا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ کینی موت سے خوف زدہ نہیں ہے اور یہ انھوں نے واضح کر دیا ہے۔‘ڈاکٹر ہُڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں کینیتھ سے صرف چند فُٹ کے فاصلے پر موجود ہوں گا اور مجھے میڈیکل ماہرین نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ میں اپنی جان خطرے میں ڈال رہا ہوں۔‘’اگر ماسک لیک ہوتا ہے یا ماسک کی نالی لیک ہوتی ہے تو اس سے نائٹروجن پورے کمرے میں پھیل جائے گی۔‘اقوامِ متحدہ کو اس سے متعلق ایک تحقیق ارسال کرنے والے ایک محقق نے سزائے موت کے لیے نائٹروجن کے استعمال کو ناقابل برداشت خطرہ قرار دیا ہے۔ایموری یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر جوئل زیوٹ نے الاباما کے حکام پر الزام لگایا کہ ان کا ایسے ظالمانہ طریقے استعمال کرنے کا پُرانا ریکارڈ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں کینیتھ سمتھ امریکہ میں سب سے زیادہ بُرا شخص ہو گا جب ہی الابامہ اُنھیں ہر صورت میں موت کے گھاٹ اُتارنا چاہتا ہے اور وہ اسے مارنے کے لیے دیگر لوگوں کو بھی مارنے کے لیے تیار ہیں۔‘’ذرا سوچیے کہ سزائے موت دیکھنے آنے والے تمام افراد کو قیدی کے برابر میں ہی فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جائے اور اُن سے دستاویزات پر دستخط بھی کروا لیے جائیں کیونکہ آپ کے فائرنگ سکواڈ میں موجود لوگوں کا نشانہ اچھا نہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ سزائے موت کے قیدی کے ساتھ وہاں موجود دیگر لوگوں کو بھی مار دیں۔‘’ہمیں نائٹروجن کے کیس کے حوالے سے یہ علم ہے کہ ایک ابتدائی تحقیق کے دوران اس گیس کو سونگھنے کے 15 یا 20 سیکنڈز بعد رضاکاروں کو دورے پڑنا شروع ہو گئے تھے۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ایسی صورتحال میں کینیتھ بے ہوش ہو سکتا ہے یا اُسے اس کے متشدد اثرات بھِی برداشت کرنا پڑ سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہAssociated Press
،تصویر کا کیپشنالاباما میں ریپبلکن رُکن اسمبلی ریڈ انگرام نے بھی کینیتھ کو سزائے موت دینے کی حمایت کی ہے۔
الابامہ میں تمام امریکی ریاستوں کے مقابلے میں سزائے موت دیے جانے کی شرح زیادہ ہے اور وہاں اب بھِی سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی تعداد 165 ہے۔امریکی ریاست میں 2018 سے لے کر اب تک ایسے تین کیسز سامنے آ چکے ہیں جہاں انجیکشن لگانے کی کوششوں کے دوران قیدی گئے۔ان کیسز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد تحقیقات کی گئیں اور جس میں ان تمام ناکامیوں کا ذمہ دار قیدیوں کو ٹھہرایا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وکلا ’وقت ضائع کر کے‘ قیدیوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور بالکل عین وقت پر حکمِ امتناع حاصل کرنے کے لیے عدالت پہنچ جاتے ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اس سے جلادوں پر ’غیر ضروری پریشر‘ پڑتا ہے۔اس بار جلادوں کی ٹیم کو کینیتھ کو سزائے موت دینے کے لیے لمبا ’ٹائم فریم‘ دیا جائے گا۔الاباما کے گورنر کے آئوی کے پاس سزائے موت روکنے کا استحقاق موجود ہے لیکن انھوں نے ماہرین کے انتباہ اور اپنی ریاست پر لگنے والے الزامات پر بات کرنے سے معذرت کر لی۔اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے اقوامِ متحدہ کے تحفظات کو ’سمتھ کے تحفظات کی طرح بے بنیاد‘ قرار دیا۔اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ٹرائل کورٹ نے دورانِ سماعت کینیتھ اور میڈیکل ماہرین کو سُنا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ نائٹروجن کے حوالے سے تحفظات قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔‘ان کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ’ہم 25 جنوری کو سزائے موت پر عملدرآمد کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘الاباما میں ریپبلکن رُکن اسمبلی ریڈ انگرام نے بھی کینیتھ کو سزائے موت دینے کی حمایت کی ہے اور اقوامِ متحدہ کی تنقید کو مسترد کیا ہے۔انھوں نے سزائے موت کے طریقے پر بات کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’تذلیل اور اس کے غیر انسانی ہونے کے حوالے سے مجھے نہیں معلوم لیکن ہم بہتری لا رہے ہیں، میرے خیال میں یہ طریقہ اس سے تو بہتر ہی ہوگا جو کینیتھ نے مقتول کے ساتھ کیا تھا۔‘’ہماری گورنر مسیحی مذہب سے ہیں۔ انھوں نے اس معاملے پر بحث کی تھی اور انھیں لگتا ہے کہ یہ ٹھیک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن پر بوجھ بھی ہو گا لیکن یہ ہی قانون ہے۔‘بی بی سی نے الیزیبتھ سینیٹ کے خاندان سے بھی رابطہ کیا لیکن انھوں نے جمعرات تک اس معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔خیال رہے 1996 میں ایک جیوری نے کینیتھ کے لیے پرول کے بغیر عمر قید کی سزا تجویر کی تھی جسے جج کی جانب سے سزائے موت میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔عدالتی کارروائی کے دوران کینیتھ نے اعتراف کیا تھا کہ قتل کے وقت وہ جائے وقوعہ پر موجود تھے لیکن انھوں نے اس حملے میں حصہ نہیں لیا تھا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}