الجزائر: نقدی میں کمی کی وجہ سے تیل خریدنا منشیات جتنا مہنگا ہو گیا
الجزائر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے کا تیل اور دودھ اس قدر نایاب ہو گیا ہے کہ آپ کو دکانداروں سے اس کی کچھ مقدار حاصل کرنے کے لیے ان کی بہت خوشامد کرنی پڑتی ہے۔
پہلے کورونا وائرس اور اب یوکرین میں جنگ سے نمٹنے کے اقدامات کے اثرات عوام کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ اس صورتحال میں نفرت اور غصے کی کیفیت میں 31 برس کی سمیحہ ثمر کہتی ہیں کہ ’یہ منشیات خریدنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔‘
وہ خاندان اور دوستوں کے لیے کیک بنانا پسند کرتی تھیں، یہاں تک کہ اپنے شوق کے علاوہ وہ اس سے پیسے بھی کما لیتی تھیں، لیکن اب وہ تمام اپنی ضرورت کی تمام اشیا یا اجزا حاصل نہیں کر پا رہیں۔
سمیحہ ثمر کے مطابق کسی بھی دکان سے کوکنگ آئل خریدنے کے لیے آپ کی دکاندار سے جان پہچان ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس حوالے سے تبادلہ خیال عام طور پر احتیاط سے ہوتا ہے جبکہ ان قیمتی اشیا کو دکان کے پچھلے حصے میں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔
الجزائر کے بہت سے شہریوں کی طرح انھوں نے پہلی بار پچھلے سال چیزوں کو بدلتے ہوئے دیکھا کیونکہ کورونا وائرس کے اقدامات نے اپنے اثرات دکھانے شروع کر دیے ہیں۔
رمضان کا مہینہ ہفتے کے آخر میں شروع ہونے کے ساتھ ہی الجزائر کے لوگ کھانا پکانے کا تیل حاصل کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں کیونکہ یہ مہینے کے دوران کھائے جانے والے بہت سے خاص پکوانوں کا اہم جزو ہے۔
سمیحہ ثمر کبھی کبھار بلِدا شہر میں اپنے گھر سے ایک قریبی قصبے کولیا کا رخ کرتی ہیں کیوںکہ وہاں پھل اور سبزیاں نسبتاً سستی ہیں۔
گذشتہ چند ماہ کے مقابلے میں ان دنوں میں ٹماٹر 30 فیصد تک زیادہ مہنگے ہیں اور طلوع آفتاب سے قبل اپنے خاندان کے لیے کچھ دودھ خریدنے کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
انتظامیہ کے ایک کلرک کا کہنا ہے کہ اب انھوں نے یہ سب چھوڑ دیا ہے۔ ان کے مطابق دودھ کے لیے اس طرح دھکے کھانے اور لڑ کر اپنا حصہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ یہ بہت ہی شرمناک ہے۔
اتنی رش کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔
سمیحہ اس وقت ایک کلوگرام پاؤڈر کے دودھ کے لیے سرکاری رعایتی پروگرام کے تحت 25 دینار کے بجائے اپنے طور پر 420 دینار کا منگوا رہی ہیں۔
الجزائر میں دودھ کی پیداوار بہت ہی کم ہوتی ہے، اس وجہ سے گذشتہ کئی برسوں سے یہ فرانس اور دیگر یورپی ممالک سے دودھ درآمد کرتا ہے۔ حال ہی میں الجزائر نے متحدہ عرب امارات سے بھی دودھ کی درآمد شروع کی ہے۔ یہ عام طور پر پاؤڈر دودھ ہوتا ہے جسے بعد میں الجزائر کی مقامی فیکٹریوں میں مائع حالت میں لا کر لوگوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔
الجزائر کے عوام کو کھانے کا تیل بہت ستاتا ہے۔ تیل کی پانچ لیٹر کی بوتل اب 600 دینار میں دستیاب ہوتی ہے۔
الجزائر میں نجی شعبے میں اوسط ماہانہ آمدن 240 ڈالر جبکہ 410 ڈالر سرکاری شعبے کی ہے۔ اب یہ حکام پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اس صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے کچھ عملی اقدامات اٹھائیں۔
پارلیمانی کمیٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس مشکل معاشی صورتحال میں بدعنوانی اور ذخیرہ اندوزی میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کمیٹی کے ایک رکن ہشام صفدر نے بی بی سی کو بتایا کہ کوکنگ آئل کے تاجروں نے مصنوعی طریقوں سے رعایتی چیزوں کی قیمت میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ حکومت سے مزید بھی رقم بٹور سکیں۔
گذشتہ برس حکام کو ڈیڑھ لاکھ تک خلاف ورزیوں کی شکایتیں موصول ہوئیں۔ زیادہ تر معاملات عدالتوں تک پہنچے اور ان خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہزاروں تجارتی اجازت نامے ضبط کیے گئے۔
الجزائر کی جنوبی سرحد پر ان رعایتی اشیا کی سمگلنگ سے ساتھ بھی ایک مسئلہ پیدا ہوا ہے کہ یہ چیزیں پڑوسی ممالک میں فروخت کی جا رہی ہیں۔ اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی نے ایک کہا ہے کہ یہ مسئلہ اس سرحد پر کثرت سے پایا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ابھی کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں لیکن ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ ہر روز 12 لاریوں سے بھرے کوکنگ آئل الجزائر سے مالی اور نائیجر سمگل کیے جاتے تھے۔
ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ مجرم سرکاری مالی اعانت سے چلنے والا، الجزائر کا تیار کردہ کوکنگ آئل ہارڈ کرنسی میں فروخت کرتے ہیں، جس سے فی لاری لوڈ 17,800 ڈالر تک کا منافع ہوتا ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں صدر عبدالماجد تبونے نے کسی بھی شے کی درآمد پر پابندی عائد کی ہے۔ ان میں وہ اشیا بھی شامل ہیں جو جنھیں پہلے درآمد کیا گیا تھا، جیسا کہ کوکنگ آئل، چینی، پاستا، سمولینا اور اس میں گندم کی دیگر اشیا شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الجزائر کی اس مشکل کو سمجھنے کے لیے اس کے پس منظر پر نظر دوڑانا ضروری ہے۔
’مافیا نے ملک کو لوٹ لیا ہے‘
پیداوار کے لیے معیشت کا انحصار گیس اور خام تیل پر ہے۔
معاشی امور کے ماہر عبدالرحمان ہادیف کا کہنا ہے کہ ’حکومت کے لیے ریونیو کے اس اہم ذریعے نے کئی مسائل کو بھی جنم دیا ہے۔
ان کے مطابق اس شعبے میں بدانتظامی زیادہ ہے، جس میں بہت سے سودے بازی متوازی مارکیٹ میں ہو رہی ہے، جس سے معیشت کو بڑا دھچکا پہنچ رہا ہے۔ یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ معاشی مسائل سے مزید سیاسی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔
سماجی امور کے ماہر پروفیسر رچڈ ہماڈوچے کا کہنا ہے کہ ’قیمتوں میں یہ اضافہ اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں حکمران طبقے اور عوام میں کمزور رابطہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے، جس سے عوام میں بہت عدم اطمینان پیدا ہوسکتا ہے۔‘
ملک کے سابق صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ کو عوامی مظاہروں کے تناظر میں سنہ 2019 میں اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
ان کے بعد منصب اقتدار سنبھالنے والے صدر جو پہلے ان کے اتحادی بھی رہ چکے ہیں اب مافیا کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اس مافیا نے سابق صدر کے دور میں ملک میں خوب لوٹ مار کی ہے۔
صدر کی تبدیلی کے باوجود مارچ 2020 تک لوگ احتجاج کر رہے تھے۔ ان مظاہروں کا سلسلہ کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کی وجہ سے تھما۔
ملک کی 75 فیصد آبادی 37 برس سے کم عمر کی ہے اور بے روزگاری 11 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ بہت سے یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا ابھی بے روزگار ہیں۔
عوام کی اس مشکل کو کم کرنے کے لیے رواں ماہ سے حکومت نے کہا ہے کہ ایسے بے روزگار لوگ جو یہ ثابت کر سکیں کہ وہ سنجیدگی سے ملازمت ڈھونڈ رہے ہیں کو مہینے میں 90 ڈالرز کا الاؤنس ملے گا۔
حیرت انگیز طور پر گیس کی قیمتوں میں اضافہ عالمی سطح پر ہوا ہے، جس کی ایک وجہ یوکرین جنگ ہے۔
معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ الجزائر اب گیس کی مد میں کم ہونے والی آمدن کا بوجھ کا متحمل نہیں ہو سکتا، جس طرح گذشتہ 20 برس سے تیل کی آمدنی سے ممکنہ اضافہ حاصل نہیں ہو سکا تھا یعنی ضائع ہو گیا۔
اب تک کے لیے سمیحہ ثمر جیسے خریدار بہترین ڈیل کو ترس گئے ہیں اور یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی فرینڈلی دوکاندار انھیں نایاب کوکنگ آئل تک رسائی دے دے گا۔
Comments are closed.