’میں نے سانس روک لی اور ظاہر کیا میں مر چکا ہوں‘: میانمار کے مختلف علاقوں میں قتلِ عام کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟،تصویر کا ذریعہStudents’ Revolutionary Force

  • مصنف, بی بی سی برمیز
  • عہدہ, ورلڈ سروس نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

جون کے اوائل میں پیر کی ایک روشن صبح ہنین شی کے لیے ایک خوشی کا دن ہونا چاہیے تھا۔ یہ میانمار کے ایک گاؤں ماٹاؤ میں ان کی شادی کا دن تھا جو ملک کے شمال مغربی خطے ساگینگ میں واقع ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ ان کی شادی کی تقریب میں 100 دوست اور رشتہ دار شریک تھے جب ایک طیارے نے نیچی پرواز کرتے ہوئے اس تقریب پر بم برسائے جس کے باعث 33 افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ہنین شی وضاحت دیتی ہیں کہ ’اوپر کی منزل پر تقریب کے بعد ہم سب نچلی منزل پر تصاویر کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہمارے خاندان شادی ہال کے سامنے کھڑے تھے اور ہم سے قریب ہی ایک اور مجمع تھا۔ بم ہمارے اور ان کے درمیان گرایا گیا۔‘وہ بتاتی ہیں کہ ایک اور بم اس گھر کے سامنے گرایا گیا جہاں دلہا ٹھہرا ہوا تھا۔ عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ پھر میانمار کے فوجی لیڈرز کے حامی سپاہیوں نے ان قریب ہی موجود دریا کے پار سے ان پر شیلنگ کرنا شروع کر دی۔ اس وقت لوگ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو وہاں سے لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔منڈالے اور ماگوے خطوں کے علاوہ ساگینگ بھی میانمار کے اس وسطی علاقے میں موجود ہے جسے ’ڈرائی زون‘ کہا جاتا ہے۔ یہ علاقہ سنہ 2021 میں آنگ سان سوچی کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت تک پر امن رہا تھا۔تین برس بعد یہ فوج مخالف گروہ پیپلز ڈیفنس فورسز (پی ڈی ایف) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ جنتا کی فوج میانمار کے سرحدی علاقوں میں باغی گروہ کے خلاف لڑتے ہوئے نقصان اٹھا رہی ہے اور اکثر ڈرائی زون میں عام لوگوں پر بھی حملے کر دیتی ہے جو اس کے نزدیک پی ڈی ایف کے حامی ہیں۔سوشل میڈیا پر دیکھے جانے والے مناظر میں شادی پر کی گئی بمباری کے بعد ہر جانب لاشیں دکھائی دے رہی ہیں جن پر شیٹس، ٹوٹے ہوئے درخت اور تباہ شدہ مکانوں کا ملبہ دیکھا جا سکتا ہے۔شادی شدہ جوڑے کو دو ناریل کے درختوں نے محفوظ رکھا۔ ہنین شی اس وقت بے ہوش ہو گئیں جب ملبے کے ٹکڑے ان کے سر سے ٹکرائے اور انھیں اگلی صبح ہی ہوش آیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اس بارے میں صرف وہی معلوم ہے جو مجھے لوگوں نے بتایا۔‘میانمار کی فوج کی جانب سے حملے کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا لیکن فوج کے ترجمان جنرل زا من تون نے بی بی سی کو بتایا کہ جنتا نواز افراد کی جانب سے یہ معلومات ملی تھیں کے پی ڈی ایف فورسز شادی کے نام پر ایک میٹنگ کر رہی ہیں۔،تصویر کا ذریعہStudents’ Revolutionary Force

،تصویر کا کیپشنشادی کی تقریب میں 100 دوست اور رشتہ دار شریک تھے جب ایک طیارے نے نیچی پرواز کرتے ہوئے اس تقریب پر بم برسائے جس کے باعث 33 افراد ہلاک ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے
ملٹری نواز ٹیلی گرام چینلز کا کہنا تھا کہ گاؤں پر اس لیے حملہ کیا گیا کیونکہ دو پی ڈی ایف اراکین کی شادی ہو رہی تھی۔ ہنین شی کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر ایک عام شہری ہیں اور حالانکہ وہ خود ماضی میں پی ڈی ایف کا حصہ رہی ہیں۔ وہ آج کل پیپلز ایڈمنسٹریشن آرگنائزیشن کا حصہ ہیں جو پی ڈی ایف کے گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں ایک متوازی حکومت ہے۔ہنین شی ان کا اصلی نام نہیں بلکہ بغاوت کے بعد انھوں نے ایک انقلابی نام رکھا۔ انھیں خدشہ ہے کہ یہ فضائی حملہ کسی جنتا حامی شخص کی اطلاع پر کیا گیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’ایسے لوگ یہاں موجود ہیں جنھیں مجھ پر غصہ ہو گا۔ شروعات سے ہی میں انقلاب کا حصہ رہی ہوں۔‘،تصویر کا ذریعہAFPمیانمار کے طلبا اور سماجی کارکنان جو ایک پرامن معاشرے کے لیے کوشاں ہیں، نے ایک تنظیم این ایل ٹی اے بنائی ہے جس کے مطابق جنتا کی جانب سے کیے گئے فضائی حملوں میں فوجی بغاوت کے بعد سے اضافہ دیکھنے میں آیا۔صرف سنہ 2024 میں ایسے 819 فضائی حملے کیے گئے جن میں 119 سیگینگ میں ہوئے جو راخین کے علاوہ کسی بھی دوسرے خطے سے زیادہ ہیں۔تنظیم کے مطابق فوجی بغاوت کے بعد سے 100 سے زیادہ سکول اور تقریباً 200 مذہبی عمارتوں کو ان فضائی حملوں میں نقصان پہنچا۔این ایل ٹی اے کا کہنا ہے کہ فوج نے صرف سنہ 2024 کے اوائل میں 46 موقعوں پر ’قتلِ عام‘ کیے۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کے مطابق جنتا کی حکمت عملی ڈرائی زون میں سنہ 2023 میں تبدیل ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں میں زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا گیا اور پی ڈی ایف حملوں کے بعد سزا دینے کے لیے کیے گئے حملوں میں گاؤں بھی جلا دیے گئے اور اس کے باعث ٹارگٹڈ آپریشن کیے گیے۔ اس سے تشدد میں اضافہ ہوا اور ادارے کی جولائی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ’مظالم‘ نے جنم لیا۔رپورٹ کے مطابق ’کچھ موقعوں پر تو فوجی گاؤں میں پی ڈی ایف جنگجوؤں کے ناموں کی فہرست لے کر آئے اور لوگوں سے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ گاؤں نہیں جلائیں گے اگر وہ ان افراد کی شناخت کر دیں۔بی بی سی نے فوج سے ان رپورٹس کے حوالے سے مؤقف دینے کو کہا لیکن ان کی جانب سے کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیے

لیکن پی ڈی ایف کی جانب سے بھی گاؤں جلائے گئے ہیں اور عام شہریوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ ڈرائی زون میں اکثر گاؤں یا تو جنتا یا پی ڈی ایف کی سرِعام حمایت کرنے لگے جس کے بعد سے یہاں ماحول میں خاصا تناؤ پیدا ہوا۔ نو مئی کو متعدد پی ڈی ایف گروپس نے گاؤں سونیوا پر ایک مشترکہ حملہ کیا جس میں 31 عام شہری ہلاک ہوئے۔دو روز بعد جوابی حملے میں سیگینگ میں ایک گاؤں میں متعدد افراد مارے گئے۔ 30 سالہ یان نینگ (فرضی نام) صبح کے وقت فائرنگ اور گولوں کی آواز سے اٹھے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے فوراً اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کی تاکہ یہاں سے بھاگ سکوں لیکن میں نے دیکھا کہ فوج گاؤں کے دونوں اطراف سے آ رہی ہے۔‘انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں میں موجود عبادت گاہ میں پناہ لیں گے جہاں گاؤں کے دیگر لوگ بھی موجود تھے۔ جب عبادت گاہ پر فوج کے دو دستے پہچنے تو انھوں نے ہمیں باہر آنے اور زمین پر گھٹنے ٹیکنے کا کہا اور اس دوران نیچے دیکھتے رہنے کی بات کی۔وہ کہتے ہیں کہ ان میں سے کچھ تو چیخ رہے تھے کہ ’ہم تم سب کو ہلاک کر دیں گے۔‘فوجیوں نے گاؤں والوں پر پی ڈی ایف اراکین کو تحفظ دینے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ وہ انھیں ان کے حوالے کر دیں۔ یین نینگ کے قریب موجود ایک شخص نے فوجیوں کو اوپر منھ کر کے دیکھا۔ یان نینگ بتاتے ہیں کہ ’ان میں سے ایک فوجی نے انھیں دیکھ لیا اور انھیں بوٹ سے مارا اور اپنی بندوق کے دستے سے بھی۔‘یان نینگ کا کہنا ہے کہ پھر ایک اعلیٰ افسر نے لوگوں کو شوٹ کرنے کا حکم دے دیا۔ ’انھوں نے ہر کسی پر گولیاں چلانی شروع کر دیں۔‘یان نینگ خود ہی زمین پر گر گئے اور ایسے ظاہر کرنے لگے کہ انھیں بھی گولی لگی اور پھر ایک کے بعد ایک لاش ان پر گرنے لگی۔ انھوں نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ کیسے متعدد لوگ زمین پر بے یارو مددگار اور ہو کر پڑے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’فوجیوں نے ان سب کو ایک بار پھر گولیاں ماریں تاکہ یہ یقین ہو جائے کہ وہ سب ہلاک ہو چکے ہیں۔ یان ننگ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ موجود ایک شخص کے ساتھ یہ ہوا جو ہلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’گولی اس کی کھوپڑی سے نکل کر میری چھاتی میں لگی۔ اس وقت مجھے یہ معلوم تھا کہ میں ہل نہیں سکتا۔ میں نے اپنی سانس روک اور یہ ظاہر کیا کہ میں مر گیا ہوں۔ میں نے دوبارہ آنکھیں کھولنے کی ہمت نہیں کی۔‘وہ کہتے ہیں کہ جب فوجیوں کے قدموں کی چاپ مدھم پڑنے لگی تو ہی میں نے آہستہ آہستہ سانس لینا شروع کی۔ یان نینگ کی چھاتی میں زخم معمولی نوعیت کا تھا لیکن اس واقعے کے باعث 32 افراد ہلاک ہوئے۔ فوج کے ترجمان نے بتایا کہ وہ یان نینگ کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایف جب جھڑپ جیت جائے تو اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور جب ہار جائے تو مظلوم بن جاتی ہے۔ یان نینگ کہتے ہیں کہ کوئی بھی دوبارہ گاؤں جانے کی ہمت نہیں کر سکا۔ گاؤں میں کچھ رہا بھی نہیں کیونکہ انھوں نے سارے مکان گرا دیے تھے اور نیا بنایا گیا کنواں تباہ کر دیا تھا۔’معصوم افراد ہلاک ہوئے، ماؤں کے بچے چلے گئے، خاندان بکھر گئے۔ میں انھیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}