’میں نے جوئے میں 14 ہزار ڈالر جیتے مگر ڈیڑھ گھنٹے میں پھر کنگال ہو گیا‘

سانتیاگو کامانو

،تصویر کا ذریعہCOURTESY OF SANTIAGO CAAMANO

،تصویر کا کیپشن

سانتیاگو کامانو کہتے ہیں کہ جوئے کی لت پڑ جائے تو عمر بھر جاتی نہیں

  • مصنف, المڈینا ڈی کابو
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

سانتیاگو کامانو نے اپنا سارا لڑکپن جوا خانوں اور انٹرنیٹ پر جوا کھیلتے ہوئے گزارا۔ جب دوسرے لڑکے فٹبال کھیلا کرتے یا اپنے دوستوں کے ساتھ ساحل سمندر پر نکل جاتے، سانتیاگو کے دماغ میں ایک ہی دھن سوار رہتی کہ جوا کیسے کھیلا جائے۔

چودہ سے 22 سال تک کی عمر تک شمالی سپین کے شہر میوروس سے تعلق رکھنے والے سانتیاگو کی زندگی جوئے کی گرد گھومتی رہی اور ایک وقت وہ بھی آیا جب وہ ایک دن میں 13 ہزار یورو (تقریباً 14 ہزار ڈالر) ہار بیٹھے۔

لیکن سانتیاگو اکیلے نہیں، جنھیں جوئے کی لت پڑ گئی تھی۔ سپین کی وزات برائے امورِ صارفین کے اعداد وشمار کے مطابق سنہ 2016 میں انٹرنیٹ پر جوا کھیلنے والے 25 سال سے کم عمر افراد کا تناسب 28 فیصد تھا جبکہ سنہ 2021 میں یہ تناسب 48 فیصد ہو چکا تھا۔

وزارت کے مطابق ان میں وہ نوجوان شامل تھے جنھوں نے محض 15 سال کی عمر میں آن لائن بیٹِنگ شروع کر دی تھی۔

چونکہ اکثر ممالک میں سرکاری سطح پر ایسے اعدادوشمار جمع نہیں کیے جاتے جن سے معلوم ہو کہ کس ملک میں کتنے لوگ جوئے کی لت کا شکار ہیں تاہم یورپی ’ایسوسی ایشن فار دی سٹیڈی آف گیمبلِنگ‘ جیسی تنظیموں کے مطابق یورپ کی 0.5 سے دو فیصد آبادی کو جوئے کے مسائل کا سامنا ہے۔

اگر آپ لاطینی امریکہ کے ممالک پر نظر ڈالیں تو وہاں بہت سے لوگ جوا کھیلتے ہیں۔ مثلاً ایک اندازے کے مطابق سنہ 2017 میں میکسیکو میں جواریوں کی تعداد 40 لاکھ ہو چکی تھی۔ اسی طرح فوربز میگزین کے اعدادوشمار کے مطابق میکسیکو میں آن لائن جوئے کا آغاز 2019 میں ہوا تھا اور اب تک قانوی اور غیرقانونی جوئے کے ذریعے دو ہزار ملین (20 کروڑ) ڈالر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہو چکے ہیں۔

ارجنٹائن اور لاطینی امریکہ کے کچھ اور ممالک میں سات سے دس فیصد افراد کو جوا کھیلنے کی عادت ہے جبکہ کولمبیا میں ہر پانچ میں سے ایک فرد جوئے کی ’شدید لت کا شکار‘ ہے۔

دنیا کے مختلف حصوں میں عادی جواریوں کا نفسیاتی علاج کرنے والے ماہرین کی تنظیمیں اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ جواری کا پروفائل تبدیل ہو گیا ہے، یعنی اب ایک نئی قسم کے لوگ جوا کھیلنے لگے ہیں۔

تھراپسٹ کہتے ہیں کہ وہ ایک عشرہ پہلے زیادہ تر 50 سال سے زیادہ عمر کے ان مردوں کا علاج کر رہے تھے جو دکانوں میں لگی مشینوں پر جوا کھیلتے تھے لیکن آج ان کی جگہ ان نوجوانوں نے لے لی ہے جو آن لائن جوئے اور کھیلوں میں سٹے بازی کے جنون میں مبتلا ہیں۔

سانتیاگو کامانو بھی اسی قسم کے نوجوانوں میں شامل ہیں۔ ان کے اہل خانہ اور دوست کہتے ہیں کہ انھوں نے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جس سے لگا ہو کہ سانتیاگو کو جوئے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے۔

بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے سانتیاگو کا کہنا تھا ’آخر کار، جواری نہ صرف جھوٹ بولتا ہے بلکہ اسے جھوٹ بولنے میں بڑی مہارت حاصل ہو جاتی ہے۔‘

سانتیاگو کہتے ہیں کہ جب وہ جوا جیت لیتے تو پرانے قرض اتار دیتے تھے لیکن جب دوبارہ ہار جاتے تو دوبارہ قرض لے لیتے۔ ’یہ ایک شیطانی چکر کی طرح ہوتا ہے جس سے آپ باہر نہیں نکل سکتے۔‘

ان کا خیال ہے کہ بچوں کو جوئے کے نقصانات بارے میں سکولوں میں پڑھانا چاہیے تاکہ نوجوان یہ جان سکیں کہ اس عادت کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔

’میں ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہوں، جو بھی شخص جواری بنتا ہے وہ اس لیے بنتا ہے کہ اس نے ایک بار جوا ضرور کھیلا ہوتا ہے۔ جو کبھی جوا نہیں کھیلتا وہ کبھی جواری نہیں ہو گا۔ تو پھر یہ خطرہ کیوں مول لیں؟‘

یہاں ہم سانتیاگو کی کہانی ان کے اپنے الفاظ میں پیش کر رہے ہیں۔

جوا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

عالمی ادارۂ صحت تسلیم کرتا ہے کہ جوئے کی عادت ایک نفسیاتی مسئلہ ہے

آن لائن پوکر کے لیے اپنی ماں کے کوائف استعمال کیے

’میں نے 14 سال کی عمر میں جوا کھیلنا شروع کیا۔ میں بھی گلیشیا کے ایک چھوٹے سے قصبے کا بچہ تھا، باقی بچوں کی طرح۔

مجھے یاد ہے کہ 14 سال سے زیادہ عمر کے لڑکوں نے قصبے کے شراب خانوں اور بارز میں پوکر کھیلنا شروع کر دیا تھا، مجھے نہیں لگتا کہ وہ زیادہ عمر کے مرد تھے۔ ان کی عمریں 16 یا 17 سال ہوں گی۔ یہ وہی وقت تھا جب تاش کے دو پتوں والے ’ٹو کارڈ پوکر‘ کا جنون شروع ہوا تھا۔ میں نے بھی پوچھنا شروع کر دیا کہ اس میں کیا ہوتا ہے اور یوں پوکر کھیلنا شروع کر دیا۔

پہلے پہل میں اور میرا دوست ایک ایک یورو کا داؤ لگاتے تھے، ادائگی جیتی ہوئی رقم سے کر دیتے یا کسی اور چیز سے۔ یوں میں اس وقت تک ’ٹُوکارڈ پوکر‘ کھیلتا رہا جب تک مجھے احساس نہیں ہوا کہ مجھے زیادہ سے زیادہ کھیلنے کی ضرورت ہے۔

میرے دوست نے وہ پیسہ لگا دیا جو اس نے جیلی بینز خریدنے کے لیے رکھا تھا یا اپنے انسٹیٹیوٹ سے فوٹو کاپیاں بنوانے کے بہانے لیے ہوئے تھے۔

میں نے بھی آغاز چھوٹی چھوٹی چیزوں سے کیا۔ اگرچہ مجھے پہلے ہی محسوس ہو گیا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں لیکن میرا جی چاہتا تھا کہ پوکر کھیلتا رہوں، میں بس کھیلتا رہا۔

15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی میں نے انٹرنیٹ پر پوکر کی تلاش شروع کردی تھی اور اس کے لیے اپنی والدہ کی شناخت کو استعمال کرتے ہوئے ایک جعلی اکاؤنٹ بنا لیا تھا۔

اس میں آپ کم سے کم 10 یورو ڈال سکتے تھے اور اس کے لیے کارڈ دکانوں اور گیس سٹیشنوں سے خریدا جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے آپ موبائل فون کا کارڈ خریدتے ہیں۔

آن لائن پوکر کے لیے میں اپنی ماں کے کوائف استعمال کر رہا تھا۔ مجھے ہمیشہ امید تھی کہ میں ایک دن بہت پیسہ کما لوں گا اور یہ میری ماں کو اتنا برا نہیں لگے گا لیکن وہ لمحہ کبھی نہیں آیا۔

یہ وہ وقت تھا جب میں نے سنجیدگی سے جوا کھیلنا شروع کر دیا یعنی میں نے باقاعدہ جھوٹ بولنا، چوری کرنا اور کھیل پر توجہ مرکوز کرنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ ہائی سکول کے پہلے سال (16 سال کی عمر میں) میں نے اپنے سکول کے نتیجے کے بارے میں بھی جھوٹ بولا۔

میں تمام مضامین پاس کر چکا تھا لیکن میں نے سب کو یہ بتایا کہ میں تین مضامین میں ناکام ہو گیا اور اس کے لیے مجھے کمپیوٹر پر بیٹھ کر مزید تیاری کرنی ہے لیکن جب میں گرمیوں میں اکیلے بیٹھا کمپیوٹر پر جوا کھیل رہا تھا تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میں عجیب حرکت کر رہا ہوں۔

جوا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سپین میں 3752 گیم رومز، 481 بیٹنگ سینٹرز اور 55 جوا خانے ہیں

کھیلوں پر سٹہ بازی

میں نے اپنی نوجوانی کے سال یوں ہی گزارے، یہاں تک کہ 17 برس کی عمر میں انگریزی زبان کی ڈگری کے لیے سینٹیاگو ڈی کمپوسٹیلا نامی ادارے میں داخل ہو گیا۔

چونکہ میں اب گھر سے دور سٹوڈنٹ فلیٹ میں رہ رہا تھا اس لیے کرائے کے بارے میں گھر والوں سے جھوٹ بولنا آسان ہو گیا تھا۔

ان ہی دنوں میں نے سپورٹس بیٹنگ کے لیے اپنے ہاسٹل کے ’گیمز روم‘ میں جانا شروع کر دیا۔ میں نے پوکر کو ایک طرف رکھ دیا کیونکہ اب مجھے دوسری گیمز میں جوا کھیلنے میں زیادہ مزہ آنے لگا تھا۔

اصولی طور پر گیم روم میں داخل ہونے کے لیے آپ کی عمر 18 سال ہونی چاہیے لیکن انھوں نے کبھی بھی مجھ سے شناختی کارڈ وغیرہ نہیں مانگا۔ ان کی نظر سے دیکھا جائے تو اگر کوئی نابالغ لڑکا جواری بن رہا ہے تو وہ ان کے لیے مستقبل کا پکّا گاہک بن رہا ہے۔

انہیں یہ ضرور پتا ہوگا کہ کیونکہ میں ابھی قانونی طور پر بالغ (18برس) کا نہیں ہوا تھا کیونکہ میرا قد بھی چھوٹا تھا اور میں 17 برس سے زیادہ کا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بہرحال، میری زندگی کا یہ وہ وقت تھا جب میں نے بہت زیادہ جوا شروع کر دیا۔

یوں میں کئی کئی گھنٹے گیم رومز میں گزارنے لگ گیا۔ اگرچہ میری گرل فرینڈ 15 سال کی تھی لیکن وہ بھی جوا کھیلتی تھی، اگرچہ اس کے لیے اپنی عمر چھپانا زیادہ مشکل تھا لیکن وہ پھر بھی تین چار گھنٹے وہاں گزار لیتی تھی، جس کے لیے اسے بھی بہت جھوٹ بولنا پڑتا تھا۔

میں پہلے سال کبھی بھی کلاس میں نہیں گیا لیکن گھر سے دور سینتیاگو میں رہنے کے لیے میں اپنی ماں سے مسلسل جھوٹ بولتا رہا۔

اور پھر دوسرے سال میں نے انگریزی چھوڑ کر ’لیبر ریلیشنز‘ میں داخلہ لے لیا۔ میں اس مرتبہ بھی کالج نہیں گیا لیکن گھر سے نئی کتابوں اور خرچے کے پیسے مانگتا رہا۔ میں اس کے لیے جھوٹ موٹ کے خرچے نکال لیتا، یہاں تک کہ ایک دن میں نے اپنی گرل فرینڈ کے دراز سے وہ پیسے بھی چرا لیے جو اس نے فلیٹ کے کرائے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔

سانتیاگو

،تصویر کا ذریعہCOURTESY OF SANTIAGO CAAMANO

،تصویر کا کیپشن

سانتیاگو کو دکانوں وغیرہ میں جوا کھیلنا زیادہ پسند تھا کیونکہ وہاں آپ دیگر لوگوں سے ملتے ہیں

ایک دن میں 13 ہزار یورو ہار بیٹھا

میں نے اس ہفتے پہلے ہی دن ہفتے بھر کے پیسے ( 50 سے 60 یورو) جوئے میں لگا دیے۔ پھر میں نے اپنے روم میٹ پر کچھ احسان کیا تاکہ وہ مجھے پیسے دے کیونکہ میں نے ابھی ہفتے بھر کی خریداری کرنا تھی۔ مجھے پیسے کا اتنا مسئلہ ہوگیا کہ میں منشیات بیچنے لگا۔

ایک دن میں آن لائن سٹے بازی کر رہا تھا کہ میں نے 13 ہزار یورو جیت لیے لیکن صرف ڈیڑھ گھنٹے بعد میرے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔

لیبر ریلیشنز کی ڈگری کا دوسرا سال بھی سال کی طرح افراتفری کا شکار رہا۔ چنانچہ میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور 19 سال کی عمر میں اپنے شہر (میوروس) میں اپنے ماموں کے بار میں کام کرنا شروع کر دیا اور مجھے زیادہ پیسے ملنے لگے۔

لیکن اس دوران بھی کسی نے کبھی توجہ نہیں دی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میرا بڑا بھائی، جو مجھ سے دو سال بڑا ہے، وہ بھی آن لائن جوا کھیلتا تھا لیکن زیادہ نہیں۔ اس سے پہلے ہاسٹل میں میرے ساتھی بھی آن لائن بیٹنگ کرتے تھے لیکن کم ہی۔

میں شہر کے ایک بار میں مشینوں پر چھپ کر بہت جوا کھیلتا تھا کیونکہ وہ مشینیں باہر سے نظر نہیں آتی تھیں اور میں مالک کو جانتا بھی تھا۔

ان دنوں مجھے یہ لگتا تھا کہ میں بہت زیادہ جوا نہیں کھیل رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک جگہ بیٹھے یہ کام نہیں کر رہا تھا۔ میں کبھی ایک بار میں کھیلنے چلا جاتا، کبھی دوسری جگہ پر۔

اس دوران جب بھی ممکن ہوتا میں گاڑی لے کر سینتیاگو نکل جاتا تھا۔ وہاں میرے لیے جوا کھیلنا آسان ہوتا تھا کیونکہ وہ مجھے نہیں جانتے تھے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں میں بڑی بڑی شرطیں لگاتا تھا۔‘

سانتیاگو بتاتے ہیں کہ وہ جوئے میں ماہانہ تقریباً 1200 یورو خرچ کر دیتے تھے، جو کم و بیش ان کی ماہانہ آمدن کے برابر ہوتا تھا اور اگر پیسے کم پڑتے تو وہ ہر مہینے کوئی نیا بہانہ بنا کر اپنے انکل اور گھر والوں سے پیسے منگوا لیتے۔

سانتیاگو کے بقول انھوں نے ہمیشہ ہر کام بہت احتیاط سے کیا اور انھیں اچھی طرح یاد ہوتا تھا کہ کس شخص سے کیا جھوٹ بولنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کمال کے اداکار تھے اور ان دنوں انھیں لگتا تھا کہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ خوش انسان ہیں۔

ان کی زندگی کا مقصد ایک ہی تھا، وہ یہ کہ جوا کھیلنے کے لیے پیسے کہاں سے لانے ہیں اور ان کو لگتا تھا کہ زندگی اسی کا نام ہے۔

’اس کے باجود میں نے پیسوں کے لیے کبھی کوئی بڑا جرم نہیں کیا۔ میرے دماغ میں بینک پر ڈاکہ ڈالنے یا کسی گھر میں چوری کا خیال آتا تھا لیکن میری خوش قسمتی ہے کہ مجھ میں ایسی حرکت کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔‘

جوا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سپین میں آن لان گیمنگ 45 ہزار ملین کا کاروبار ہے اور اس سے حکومت کو سالانہ 1830 ملین ڈالر ٹیکس ملتا ہے

گھر والوں کے سامنے اقرار

میں سنہ 2015 تک میوروس میں تھا اور پھر جب میں 22 سال کا ہوا، تو میں اپنے ماموں کے ساتھ رہنے کے لیے کُرونا چلا گیا۔ گھر والوں سے کہا کہ میں وہاں پڑھائی کے لیے جانا چاہتا ہوں۔

میرے گھر والوں کا خیال تھا کہ میں سارا دن موبائل فون پر سوشل میڈیا دیکھتا رہتا ہوں۔ انھیں معلوم ہی نہیں تھا میں اتنی دیر باتھ روم میں اپنے فون پر کیا کرتا رہتا تھا، حتی کہ میرے ماموں کو بھی نہیں پتا لگا۔

جب میں نے کُرونا میں دوبارہ تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو میں نے ٹی وی کے ایک پرائم ٹائم پروگرام میں کامیڈین کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور پھر میں نے مزید جوا کھیلنا شروع کر دیا. مجھ پر بینک کا تقریباً چھ ہزار یورو کا قرض چڑھ چکا تھا۔

یہ منگل 13 اکتوبر 2015 کا دن تھا۔ اس دن میرے چھوٹے کزن کی پیدائش ہوئی تھی اور پورا خاندان میرے ماموں کے گھر آیا ہوا تھا، جہاں میں رہتا تھا۔ اس دن میں نے سب کچھ بتانے کا فیصلہ کر لیا۔

میں نے انھیں بتایا کہ مجھے جوئے کا مسئلہ ہے، مجھ پر اچھا خاصا قرض ہے اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے چل رہا ہے ۔ میں نے کہا کہ اب میں یہ سب جاری نہیں رکھ سکتا اور میں ہار مان رہا ہوں۔

تمام گھر والے رونے لگ گئے اور انھوں نے مجھے یقین دلایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں اور مجھے جس چیز کی بھی ضرورت ہو گی وہ میری مدد کریں گے۔ وہ میری اُس زندگی کا آخری دن تھا۔

اگلے دن میں نے ٹیلی ویژن چھوڑ دیا اور اپنی نفسیاتی بحالی کا کام شروع کیا، جس دوران اچھا وقت بھی آیا اور بُرا بھی۔

میں نے کُرونا میں ہی ایک کمرشل کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ مجھے معمول کی زندگی کی تلاش تھی اور اس دوران میں اپنے ماموں ل کے گھر میں ہی رہتا رہا۔

سانتیاگو

،تصویر کا ذریعہCOURTESY OF SANTIAGO CAAMANO

،تصویر کا کیپشن

سانتیاگو اب اپنی ماں اور چھوٹے بھائی کے ساتھ رہتے ہیں

جوئے کی عادت لوٹ آتی ہے

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور دو سال تک یہ سلسلہ دوبارہ شروع نہ ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب بحالی کے دوران میں نے پہلی مرتبہ دوبارہ جوا کھیلا تھا، لیکن میں نے اس کے بعد شمار کرنا چھوڑ دیا اور کئی مرتبہ جوئے کی طرف لوٹ گیا اور یوں میں پھر اسی چکر میں پھنس گیا۔

میں نے یہ کہتے ہوئے رضاکارانہ طور پر بحالی کے پروگرام سے جان چھڑا لی کہ اب میں ٹھیک ہو گیا ہوں لیکن یہ سب جھوٹ تھا۔ میں ہر کچھ عرصے بعد بحالی کے پروگرام میں چلا جاتا اور اس دوران اپنے گروپ کو چھوڑ کر جوا کھیلنے لگتا۔ میں دراصل خود کو بے وقوف بنا رہا تھا اور باقی دنیا کو بھی۔

ایک دن میرے ماموں نے مجھے پکڑ لیا، مجھے دوبارہ بحالی کے پروگرام میں نہ جانے کی وجہ سے اپنے گھر سے نکال دیا۔ میں شہر کی مشہور بارسلونا سٹریٹ پر دو منشیات کے عادی افراد کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہنے چلا گیا۔ یہ علاقہ خاصا بدنام ہے۔ وہاں رہتے ہوئے میں نے ایک دن ہار مان لی اور سوچا کہ ’اگر یہی میری زندگی ہے تو اسے ختم ہو جانا چاہیے۔‘

ایک دن میں نے گاڑی لی اور یہ وہ وقت تھا جو میری زندگی کا بدترین لمحہ تھا۔ جوئے کی عادت دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔ میں نے دو ہفتوں سے نہیں کھیلا تھا لیکن میں دوبارہ بیٹنگ کے لیے یونیورسٹی آف کُرونا کے ساتھ واقع ایک جگہ کے لیے گاڑی پر نکل پڑا۔ میں نے خود سےکہا کہ اگر میں یہ شرط ہار گیا تو میں خود کشی کر لوں گا۔ میں راستے سے ہٹ ہو جاؤں گا اور یہ سب ختم ہو جائے گا۔‘

اور مجھے نہیں معلوم کہ اس روز کیا ہوا۔ میرے د ماغ میں اچانک کوئی خیال آیا اور جوئے کی بازی ختم ہونے سے پہلے ہی میں کھیل سے نکل آیا۔ میں دوبارہ ماہر نفسیات کے پاس چلا گیا اور انھوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ وہ پہلا دن تھا جب انھوں نے میری آنکھوں میں خلوص دیکھا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

بعض اوقات کسی چیز سے نکلنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آپ ایک مرتبہ اس کی تہہ سے ٹکرا کر اوپر ابھریں۔

اس کے بعد میں نے پھر سے اپنی بحالی پر کام کرنا شروع کر دیا اور اس مرتبہ بغیر کسی کی مدد کے۔

اگرچہ پچھلے سال مجھے دوبارہ اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن اب میں ٹھیک ہوں۔ دسمبر 2021 میں بھی جوئے کی عادت لوٹ آئی تھی لیکن بہت کم وقت کے لیے۔

یہ وہ وقت تھا جب میں نے سوشل میڈیا پر دوسرے لوگوں کی مدد اور انھیں اس عادت سے چھٹکارا پانے کی تربیت دینا شروع کر دی۔

معمول کی زندگی کی جانب میری واپسی نے مجھے یہ دیکھنے پر مجبور کیا کہ میں کوئی ہیرو نہیں ہوں۔ جن افراد کے ساتھ میں بحالی کا کام کر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ بیمار ہیں اور شاید وہ اپنی باقی زندگی بھی اسی حال میں گزار دیں۔ چانچہ میں نے کچھ عرصے کے لیے سوشل نیٹورک پر اپنی سرگرمیاں ترک کر دیں۔

اس دوران میں نے ایک نئے ماہر نفسیات کے پاس جانا شروع کر دیا کیونکہ مجھے بے چینی یا اضطراب کے مسائل کا سامنا تھا۔

اب میں نے ایک سال اور تین ماہ سے جوا نہیں کھیلا لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں دوبارہ نہیں کھیلوں گا کیونکہ یہ چیز آپ خود نہیں جانتے۔

جوئے کی عادت کا کبھی بھی مکمل علاج نہیں ہو سکتا، یہ ایک قسم کی بیماری بن جاتی ہے۔ میرے نزدیک جوئے سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ میں کبھی دوبارہ جوا نہ کھیلوں۔ اگر میں دس یورو کی شرط لگاتا ہوں تو بظاہر اس سے کچھ نہیں ہوتا لیکن اتنی چھوٹی شرط سے بھی یہ خونخوار درندہ لوٹ آتا ہے۔

ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter

،تصویر کا کیپشن

سانتیاگو نے اپنی کہانی ٹوئٹر پر شیئر کی تاکہ لوگ ان سے سیکھ سکیں

نفسیاتی بحالی کیسے کی جاتی ہے؟

سانتیاگو کہتے ہیں کہ ہر ماہر نفسیات کا اپنا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ میرے معاملے میں یہ کیا گیا کہ آپ کے پاس پیسے تک رسائی نہیں ہونی چاہیے، آپ کے پاس بینک کارڈ نہیں ہونا چاہیے اور آپ کا اکاؤنٹ مشترکہ ہونا چاہیے تاکہ آپ خود سے پیسے نہ نکلوا سکیں۔

اس کے لیے آپ کو روزانہ اور ماہانہ اخراجات کا بجٹ بنانا پڑتا ہے اور ہر چیز کا حساب رکھنا پڑتا ہے۔ اگرچہ یہ تھوڑا مشکل کام ہے لیکن اس سے آپ کو پیسے کی قدر معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب آپ جوا کھیلتے ہیں تو آپ کو پیسے قدر یاد نہیں رہتی۔

اس کے علاوہ بحالی میں آپ کو ہر ہفتے انفرادی تھراپی اور گروپ تھراپی بھی ملتی ہے۔ ہمارے گروپ میں خاصے لوگ تھے اور نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی۔ یہ بات مجھے اچھی طرح یاد ہے۔

میں رضاکارانہ طور بحالی کے اس پروگرام سے نکل آیا ہوں اور اب میں 29 سال کی عمر میں معاشی طور پر کم و بیش معمول کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میں اپنے علاقے میں مشروبات کی ترسیل کا کام کرتا ہوں اور میری تنخواہ ٹھیک ہے۔ میں باہر کھانا کھانے یا پارٹیوں میں بھی جاتا ہوں لیکن میں صرف کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرتا ہوں۔

کارڈ کے ذریعے خود کو کنٹرول کرنا آسان ہے کیونکہ ابھی تک مشینیں کارڈ قبول نہیں کرتیں اور آپ کی جیب میں سکے نہ ہوں تو آپ چھوٹے موٹے جوئے سے بھی بچے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ میں نے حکام سے درخو است کی ہے کہ میرا نام جواریوں کے ملک گیر ڈیٹا بیس سے نکال دیا جائے۔

بیماری کو معمول کی بات سمجھنا

ایک اور کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ جوئے کی بیماری کو سر پر نہیں چڑھایا اور اسے زندگی کا حصہ سمجھا۔

مثلاً جب میں اپنی کمپنی والوں سے کہتا ہوں کہ مجھے جوئے کے ٹکٹ دو اور وہ پوچھتے کہ کیوں تو میرا جواب یہی ہوتا کہ ’آخر کار میں ایک جواری ہوں۔ ‘

یہاں تک کہ میری کمپنی نے یہ بات نوکری کے انٹرویو میں بھی پوچھی تو میں نے یہی کہا تھا۔

مجھے اپنی زندگی میں یہ کہنے میں کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا کہ میں ایک جواری ہوں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں یہ چیز مسائل کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ جوا کسی حد تک ممنوعہ بیماری ہے۔

لوگوں کو اپنی کہانی سنانا کسی حد تک ایک مثبت کام تھا کیونکہ اس سے میں بہت سے لوگوں کے خیالات کو کسی حد تک تبدیل کرنے میں کامیاب ہوا ہوں۔

تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کے سب سے اہم چیز تعلیم اور اس بارے میں بات کرنا ہے تاکہ سکول کی عمر سے آپ کو معلوم ہو کہ جوا کیا ہے، یہ کیا مسائل پیدا کرسکتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔

میں ہمیشہ ایک ہی بات کہتا ہوں، ایک بار کھیلنے سے آپ جواری نہیں بن جاتے۔ کوئی شحص جواری تبھی بنتا ہے جب وہ پہلے جوا کھیلتا رہا ہو۔ قصہ مختصر یہ کہ جو کبھی نہیں کھیلتا وہ کبھی جواری نہیں بنے گا۔ تو پھر یہ خطرہ مولنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

اس کے علاوہ، یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اب جواری کا پروفائل تبدیل ہو گیا ہے۔ اب جواری وہ بچہ ہے جو موبائل پر آن لائن جوا کھیل رہا ہے یعنی پروفائل مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ جن لوگوں کی ہم بات کر رہے ہیں ان کی عمریں 16 سے 22 سال کے درمیان ہیں۔

دوسرے جواریوں کے لیے پیغام

انھیں بتائیں کہ میں جوئے کی لت کی وجہ بدترین حالات سے گزرا ہوں۔ میرے خیال میں میں باہر نکلنے میں کامیاب رہا ہوں۔ اس راستے میں بہت سےگڑھے ہیں لیکن گڑھے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کی موت اسی گڑھے میں لکھی ہوئی ہے۔

آپ کو بہت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے، اپنے خاندان پر انحصار کرنا پڑتا ہے، پیشہ ورانہ مدد پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے، یہ لوگ اس کام کو سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ آپ جلد از جلد اس لت سے نکل آئیں۔

جوا ترک کرنے کا کام محض اپنی ماں یا اپنی گرل فرینڈ کے لیے نہ کریں اور نہ ہی لوگوں کو دکھانے کے لیے ایسا کریں کیونکہ اگر آپ خود اس عادت سے چھٹکارا نہیں حاصل کرنا چاہتے تو اس کی اصل وجہ سامنے آ جائے گی اور آپ دوبارہ جوا شروع کردیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ