مراکش کے تارکین وطن: ’میں نے اپنے گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل پڑا‘
مراکش سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ نوجوان محمد کا کہنا تھا ’میں نے اپنے گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل پڑا۔’
سپین کے ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے محمد نے وہ تمام تفصیلات بیان کیں کہ وہ کسی طرح سپین کے شمالی افریقہ کے علاقے سیٹا میں ریکارڈ تعداد میں داخل ہونے والے غیر چانون تارکین وطن کا حصہ بنے۔ سیٹا براعظم افریقہ کے انتہائی شمال میں مراکش سے جڑا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو سپین کے زیر اثر ہے۔
اپنا گھر بار اور ملک چھوڑنے والے دوسرے مجبور لوگوں کی طرح ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ روزگار کی تلاش ہی ان کی سرحد عبور کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنی۔
‘میں کام کرنا چاہتا ہوں اور اپنے خاندان کی مدد کرنا چاہتا ہوں اور میرے سب دوست بھی یہی کرنا چاہتے ہیں۔’
یہ بھی پڑھیے
محمد نے ہسپانوی ٹی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے ایک رشتے کے بھائی کے ساتھ ٹیکسی کی اور اس کے بعد آدھے گھنٹے تک تیر کر سپین کی سرحد میں داخل ہو گئے۔
انھوں نے بتایا کہ راستے میں انھیں مارکش کے حکام نے روکا لیکن پھر جانے دیا۔ ’یہ ایسے ہی تھا کہ انھوں نے پہلے منع کیا اور پھر جانے دیا۔‘
ہسپانوی حکام کا کہنا ہے کہ آٹھ ہزار تارکین وطن میں تقریباً نصف کو واپس بھیج دیا گیا ہے۔ درجنوں نوجوان بدھ کو مراکش کی سرحد پر واپس جانے کے لیے قطار لگائے انتظار میں تھے۔
ہسپانوی خبر رساں ادارے ایفی کے مطابق مراکش پولیس نے اب سرحد بند کر دی ہے تاکہ مزید لوگوں کو سپین میں داخل ہونے سے روکا جائے۔
سیٹا اور ملیلا کے علاقے افریقی ممالک سے یورپ آنے والے خواہشمند افراد کی پسندیدہ منزل بن گئے ہیں جہاں سے ان کے لیے سپین اور یورپ کے دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا ممکن ہو جاتا ہے۔
رواں ہفتے مراکش سے سپین میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد غیر معمولی حد تک بڑھ جانے سے مراکش اور سپین کے درمیان سفارتی تعلقات میں تلخی پیدا ہو گئی تھی۔
اس ہفتے ایسا کیا ہوا؟
تارکین وطن جن میں سے بہت سے ربڑ کی کشتیوں اور ٹیوبوں پر تیر کر سوموار کی صبح سیٹا پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی لیکن بعض پورے پورے خاندان جن میں ڈیڑھ ہزار کے قریب بچے بھی شامل تھے وہ بھی غیر قانونی طور پر سپین میں داخل ہوئے۔
اس ہفتے سپین میں داخل ہونے والے تارکین وطن میں سے کم از کم ایک شخص راستے میں ہلاک ہو گیا۔ ہسپانوی حکام نے منگل کو سیٹا میں موجود پولیس اہلکاروں کی مدد کے لیے وہاں فوج بھی تعینات کر دی۔
اس دوران کئی ڈرامائی مناظر بھی دیکھنے کو ملے جب سمندر کے راستے غیر قانونی طور پر اپنے خاندانوں سمیت سپین آنے والے لوگ خشکی پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے تو ہسپانوی فوج کے اہلکاروں کو ان کے بچوں کو بچانے کے لیے پانی میں اترنا پڑا۔
اطلاعات کے مطابق منگل کی شام تک سپین آنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گئی تھی۔ ان میں سے بہت سے لوگ رضا کارانہ طور پر مراکش لوٹ رہے تھے لیکن کچھ لوگوں کو فوج زبردستی اٹھا کر لے جا رہی تھی۔
سپین کے زیر اثر دوسرے علاقے ملیلا میں افریقہ کے صحرا کے جنوبی علاقوں سے تعلق رکھنے والے 86 غیر قانونی تارکین وطن جنوبی جیٹی سے داخل ہوئے۔
ہسپانوی خبر رساں ادارے نے اطلاع دی کہ ملیلا میں جہاں سرحد پر لگی باڑ مضبوط ہے وہاں پر سکیورٹی اہلکار کئی سو تارکین وطن کو روکنے میں کامیاب رہے۔
ہسپانوی حکام نے بتایا کہ ملیلا میں مراکش کے سکیورٹی اہلکاروں نے بھی تارکین وطن کو روکنے میں مدد کی۔ ہسپانوی ذرائع ابلاغ نے خبر دی کہ سیٹا میں ایسا نہیں تھا جہاں مراکش کے سکیورٹی اور سرحدی اہلکار خاموش تماشائی بنے رہے اور سپین پہنچنے کی کوشش میں سمندر میں اترنے والے لوگوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
بی بی سی کی نامہ نگار نکی بیکی جو سیٹا میں موجود ہیں انھوں نے کندھے اور بیگ لٹکائے مختار گونبور نامی 30 سالہ نوجوان سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ بہت سے نوجوان کیوں واپس جا رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، کوئی پیسہ نہیں ہے اور رات انھوں نے کھلے آسمان تلے سڑک پر بسر کی۔ انھوں نے کہا کہ وہ مراکش لوٹ رہے گو کہ وہاں انھیں وہ زندگی میسر نہیں آ سکتی جس کی وہ خواہش رکھتے ہیں۔
چند گلیاں آ گے فرناڈوز نامی ایک کیفے میں کوفی پیتے ہوئے کچھ مقامی لوگ ایک پرانے سے ٹی وی پر سیٹا آنے والے لوگوں کے مناظر دیکھ رہے تھے۔
چھیاسٹھ برس کی مقامی خاتون مرسیڈز کا کہنا تھا کہ انھیں بچوں کو دیکھ کر افسوس ہو رہا تھا جن کے جسم پر مناسب کپڑے تک نہیں تھے۔ لیکن میز پر مکا مارتے ہوئے انھوں نے انتہائی غصے سے کہا کہ ہر مرتبہ جب مراکش کو سپین سے پیسے لینے ہوتے ہیں تو وہ تارکین وطن کو سپین میں داخل ہونے سے روکنا بند کر دیتا ہے۔
قریب ہی بیٹھی مرسیڈیز کی ایک دوست نے کہا کہ سپین کے وزیر اعظم کو مراکش کو صاف صاف بتا دینا چاہیے کہ ان لوگوں کو واپس بھیجیں۔
ردعمل کیا ہے؟
سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سنچیز نے صورت حال کو معمول پر لانے کا عزم کیا ہے۔ یورپی حکام اس سلسلے میں سپین کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔ یورپی کمیشن کے نائب صدر مرگریٹس سن نے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ تارکین وطن کے معاملے پر یورپ کسی کی دھونس میں نہیں آئے گا۔
مراکش نے سپین سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ سپین کے وزیر خارجہ ماریا آرنزوز گونزیلز لیلا نے مراکش کے سفیر سے سرحد پر پیش آنے والے واقعات پر غصے کا اظہار کیا تھا۔ تارکین وطن میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق کا مراکش سے ہے۔
شمالی افریقہ کے علاقہ سیٹا اور ملیلا سپین کے قبضے میں ہیں گو کہ مراکش ان علاقوں پر اپنا دعوی کرتا رہا ہے۔ سیپن کے کئی دوسرے حصوں کی طرح ان علاقوں کو بھی جزوی خود مختاری حاصل ہے۔
یورپی ملکوں کی طرف سے تارکین وطن کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنے کی ایک مثال گزشتہ مہینے اس وقت سامنے آئی جب ڈنمارک نے دو سو شامی مہاجرین کے ڈنمارک میں رہنے کے اجازت نامے منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا۔
اس فیصلے کو یورپ کے قانون سازوں، اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈنمارک کے حکام کا کہنا ہے شام کے کئی علاقے اب بالکل محفوظ ہیں اس لیے یہ مہاجرین اپنے ملک لوٹ سکتے ہیں۔
اس فیصلے پر ڈنمارک کے مختلف شہروں میں بدھ کو مظاہروں کا اعلان کیا گیا۔ ڈنمارک نے حالیہ برسوں میں مہاجرین اور تارکین وطن کے بارے میں اپنے رویے کو سخت کرنا شروع کر دیا ہے۔
Comments are closed.