’میں نے اپنی ماں کو قتل کیا‘: جب جاپانی فوج نے سینکڑوں شہریوں کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا
شیگیاکی کنجو 16 برس کے تھے جب ان کے شہر میں سینکڑوں افراد نے خود کشی کرنا شروع کر دی۔ اس وقت انھوں نے ایک فیصلہ کیا جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔
یہ دوسری جنگ عظیم کا دور تھا۔ کنجو ریوکو جزائر کے رہائشی تھے جہاں جاپانی حکام نے یہ تاثر مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا تھا کہ اگر امریکی فوجیوں نے حملہ کر دیا تو وہ سب کو بربریت کا نشانہ بنائیں گے اور خواتین کا ریپ کریں گے۔
حکام نے عوام کو اس قدر خوفزدہ کیا کہ ایسی صورت حال کا سامنا کرنے بہتر ہو گا کہ وہ اپنی زندگی خود ہی ختم کر لیں۔ جاپان کی فوج نے شہریوں کو ممکنہ حملے کی صورت میں خود کشی کے لیے ہینڈ گرینیڈ تک فراہم کیے۔
یہ خوف اس وقت حقیقت میں بدل گیا جب امریکی فوج اس جزیرے پر اتری۔ کنجو نے اپنے گاوں کے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنے خاندان کو خود ہی ہلاک کر دیا۔ کنجو نے بھی ایسا ہی کرنا کے بارے میں سوچا۔
کنجو نے بعد میں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے برطانیہ کے امپیریئل وار میوزیم کو 1998 میں ایک انٹرویو دیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’ہمیں لگا کہ یہی ایک راستہ ہے ہمارے پاس۔ میں نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ مل کر اپنی ماں کو قتل کر دیا۔ پھر چھوٹی بہن اور چھوٹے بھائی کو۔‘
یہ جبری خودکشیوں کا آغاز تھا جو اوکیناوا کی لڑائی کے دوران جاری رہیں۔ یہ لڑائی یکم اپریل، 1945 کو شروع ہوئی جس نے جنگ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم 78 برس قبل پیش آنے والے اس سانحے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
’ہم سب خود کشی کرنا چاہتے تھے‘
جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے سینکڑوں کلومیٹر دور اوکیناوا ریوکو جزائر کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو 1879 میں جاپان کا حصہ بنا۔
اس جزیرے پر دوسری جنگ عظیم کی سب سے خونی لڑائیوں میں ایک لڑی گئی تھی۔
کرسٹن زیومیک ایک مورخ ہیں جن کا کہنا ہے کہ اوکیناوا کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ یہ لڑائی اس لحاظ سے الگ تھی کیوں کہ یہاں کے رہائشیوں کو مکمل طور پر جاپانی نہیں سمجھا جاتا تھا۔
کیراما جزیرے پر حملے کے چند دن بعد، جہاں کنجو رہتے تھے، مغربی اتحادیوں نے اوکیناوا پر قبضے کی کوشش کا آغاز کیا جہاں سے وہ جاپان پر حتمی حملہ کرنا چاہتے تھے۔ جاپان اس جزیرے کی اہمیت سے واقف تھا۔
جاپان نے اپنی فضائیہ کے ذریعے کاماکازی یعنی خود کش حملوں سے جواب دینا شروع کیا جبکہ زمین پر لاکھوں جاپانی فوجیوں نے غاروں میں چھپ کر دفاع کیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 82 دن کی لڑائی میں ایک لاکھ جاپانی فوجی، 12 ہزار امریکی فوجی اور ایک لاکھ عام شہری ہلاک ہوئے جن میں سینکڑوں ایسے عام شہری شامل تھے جن کو خود کشی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
زیومیک کا کہنا ہے کہ اجتماعی خود کشیوں کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ ایسے مقام پر ہوئیں جہاں جاپانی فوج کی موجودگی تھی جہسے کہ جزیرے کے ایک غار میں۔ ان کے مطابق ایسے مقامات جہاں صرف عام شہری بستے تھے، حالات مختلف تھے کیوں کہ یہاں لوگوں نے گرفتاری دینا بہتر سمجھا۔
زیومیک نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’جبری خودکشیاں اس لیے ہوئیں کیوں کہ جاپانی فوجی ان کو مجبور کر رہے تھے۔ جو ہوا، وہ بہت ظالمانہ تھا۔‘
جاپان کے اس جزیرے پر کتنے لوگوں نے خود کشی کی، اس بارے میں حتمی طور پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔
جاپانی مورخ ہیروفومی ہایاشی کا اندازہ ہے کہ کیراما جزیرے پر تقریبا 559 لوگوں نے خودکشی کی جبکہ مجموعی طور پر تقریبا 700 افراد اس جبری خود کشی کا شکار ہوئے۔
چند ماہرین کا ماننا ہے کہ اس میں جاپانی پروپیگینڈا کا بھی کردار تھا جس نے امریکیوں کو ایک جابر کے طور پر پیش کیا اور دشمن سے بچنے کے لیے خود کشی کو ایک اعلی عمل کے طور پر دکھایا۔
تاہم جزیرے پر زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ اس سب کے ذمہ دار جاپانی فوجی تھے جنھوں نے عام شہریوں کی خود کشی کی اس خوف سے حوصلہ افزائی کی کہ وہ امریکیوں کے سامنے راز افشاں نہ کر دیں۔
دوسری جانب جاپانی ثقافت میں گرفتار ہونے کو بری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
زندہ بچ جانے والے افراد میں ٹاکیجیرو ناکامورا بھی تھے جنھوں نے اپنی والدہ کو دیکھا جنھوں نے ان کی بہن کو ایک رسی سے ہلاک کر دیا تھا۔
2007 میں بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا تھا کہ ’ہم سب خود کشی کرنا چاہتے تھے کیوں کہ ہمیں جاپانی فوج پر یقین تھا۔‘
’میں جاپانی فوج کو ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ آج میری بہن کے بچے اور نواسے ہوتے۔‘
مٹسیوکو اوشیرو بھی اس وقت زندہ بچ گئی تھیں۔ انھوں نے بعد میں بتایا کہ ایک فوجی نے ان کو گرینیڈ دیا اور کہا کہ اگر انھوں نے اس کی مدد سے خود کو اور اپنے خاندان کو ہلاک نہیں کیا تو امریکی ان کا ریپ کریں گے اور ان پر تشدد کریں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں مرنا چاہتی تھی لیکن ایسا نہیں کر سکی۔ جب امریکیوں نے حملہ کیا تو میں پہاڑوں کی جانب فرار ہو گئی لیکن انھوں نے ہمیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی اور ہمیں جانے دیا۔‘
تاہم ان کے خاندان کے 11 افراد نے احکامات کی تعمیل کی اور زہر کھا کر خود کشی کر لی۔
اثرات
جاپان میں اس سانحے کے بارے میں گواہیاں 2007 میں سامنے آئیں۔ اس سال ایک تنازع نے جنم لیا جب جاپانی حکومت نے تجویز دی کہ سکول کی کتابوں سے فوج کی جانب سے خود کشی کے احکامات پر سبق کو کسی حد تک بدل دیا جائے۔
تقریبا ایک لاکھ افراد نے سڑکوں پر اس تجویز کے خلاف احتجاج کیا۔
کنجو ان مظاہروں میں شامل تھے۔ انھوں نے اپنے تجربات کے بارے میں گواہی بھی دی جو ان کے لیے ایک کامیابی تھی کیوں کہ اپنی زندگی کے اس مشکل دور کے بارے میں کھل کر بات کرنے میں ان کو دو دہائیوں سے زیادہ کا وقت لگا۔ ‘
کنجو گذشتہ سال 93 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔
اس تنازع کی وجہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ موضوع اب تک اوکیناوا کے رہائشیوں کے لیے کتنا حساس ہے۔
یہ بھی پڑھیے
واضح رہے کہ دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد جاپان نے اوکیناوا کا کنٹرول 1972 تک امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔ اس جزیرے پر امریکی فوج کی موجودگی بھی تنازعوں اور احتجاج کا باعث بنتی رہی ہے۔
تاہم ایک سوال جس کا اب تک جواب نہیں مل سکا، وہ یہ ہے کہ آیا اوکیناوا پر عام شہریوں کی خود کشی بھی ایک عنصر تھا جس نے امریکہ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی کہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر جنگ کو جلد ختم کیا جائے۔
زیومیک کا کہنا ہے کہ اس سے قبل سائیپان میں ایسا ہو چکا تھا جہاں عام شہریوں نے گرفتاری کے خوف سے اجتماعی طور پر خود کشی کی اور پھر اوکیناوا میں بھی جب ایسا ہوا تو امریکہ کو احساس ہوا کہ ان کا سامنا ایک غیرمعمولی دشمن سے ہے جو کبھی نہیں رکے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’شاید یہ ایٹم بم گرانے کے لیے ایک وضاحت لگی ہو۔ تاہم مجھے یقین نہیں ہے کہ اگر یہ اجتماعی خود کشیاں نہیں ہوتیں تو ایٹم بم کا استعمال نہیں کیا جاتا۔‘
Comments are closed.