ہیروئن کی لت سے فوج کی ملازمت تک کا سفر: ’میں نے آئینے میں خود کو دیکھا اور کہا کہ آئندہ تمہیں ہیروئن نہیں ملے گی‘
- اینجی براؤن
- بی بی سی سکاٹ لینڈ
پال بوگی تسلیم کرتے ہیں کہ کئی سال تک ہیروئن کی لت میں مبتلا رہنے کے بعد وہ زندگی سے مکمل طور پر بیزار ہو چکے تھے لیکن پھر اپنی زندگی کا رخ تبدیل کر کے انھوں نے فوج میں ملازمت اختیار کر لی اور ایک دن خود کو شاہی محل کے سامنے گارڈ کی حیثیت میں کھڑے پایا۔
پال نے 18 برس کی عمر میں اسی وقت سے ہیروئن پینا شروع کر دی تھا جب یہ نشہ ایڈنبرا کے کرنگنٹنی کے علاقے میں واقع ان سرکاری فلیٹوں میں پہنچا تھا جہاں پال اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے تھے۔
ان دنوں پال کی اپنے دوستوں سے نہیں بن رہی تھی اور وہ اداس تھے۔ ایسے میں جب ایک دوست نے انھیں کہا کہ چلو تمام دوست مل کر ہیروئن پیتے ہیں تو پال نے دوست کی بات مان لی۔
پال بتاتے ہیں کہ جب وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ’تمام لوگ ایک چھوٹی سی کار میں بیٹھے ہوئے تھے، میں نے (ایک کے ہاتھ میں) چمکتی ہوئی ایلومینیم کی پتری دیکھی لیکن مجھے نہیں پتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے۔‘
’ایک دوست کار سے باہر نکلا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ نشہ کر رہے ہیں لیکن مجھے وہاں کوئی ایسی سوئی یا چمچ دکھائی نہیں دی جن سے کوئی خود کو نشے کا ٹیکہ لگا رہا ہوتا یا کوئی نشہ آور چیز پی رہا ہوتا۔‘
’لیکن جب میں کار کے اندر گھسا تو بہت ہی گندی بدبو آ رہی تھی، جیسے گلی سڑی مچھلی سے آتی ہے۔ ہیروئن کے دھوئیں سے ایسی ہی بدبو آتی ہے۔‘
اور پھر تھوڑے ہی عرصے میں پال نے خود پر 16 ہزار پاؤنڈ کا قرض چڑھا لیا۔
پال نے اٹھارہ برس کی عمر میں ہیروئن کا نشہ شروع کر دیا تھا
ان دنوں پال ہر روز ہیروئن کا نشہ کرتے تھے لیکن اس دوران انھوں نے ایک دفتر میں ملازمت بھی جاری رکھی جہاں وہ ڈاکیے کا کام کرتے تھے۔ پال کبھی کبھی دفتر کے ٹوائلٹ میں بھی نشہ کرتے تھے لیکن انھوں نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ہیروئن کا نشہ کرنے کے باوجود ’میں دفتر کا کام کر لیتا تھا۔ دیکھنے میں لگتا نہیں تھا کہ میں ہیروئن کا عادی ہوں اور (اس وقت تک) میرے جسم پر بھی کوئی برے اثرات ظاہر نہیں ہوئے تھے۔‘
اس دوران پال نے دفتر اور اپنے گھر والوں کو بھی پتا نہیں لگنے دیا کہ وہ نشہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی پوچھتا کہ تمہاری آنکھیں سرخ کیوں ہیں تو وہ بہانہ کر دیتے کہ مجھے موسمی زکام ہے۔
’میں سمجھتا تھا کہ مجھے ہیروئن کی لت نہیں پڑی اور میں نشے کو کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتا تھا۔‘
لیکن جب ایک مرتبہ علاقے میں پولیس نے چھاپہ مارا اور پال کو آٹھ گھنٹے تک ہیروئن نہ ملی تو بقول ان کے انھیں ’وحشت‘ ہونے لگی۔
پال بوگی (دائیں) اپنے ایک بھائی اور والدہ سے ساتھ
’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب مجھے دوبارہ ہیروئن ملی تو مجھے زبردست سکون کا احساس ہونے لگا، میری کپکپاہٹ، جسم میں درد، آنکھوں اور ناک سے بہنے والا پانی، سب کچھ ٹھیک ہو گیا۔‘
’لیکن تب میں نے سوچا کہ ایسا نہیں ہو سکتا، میں تو خود ہی اپنی ہی سزائے موت کے پروانے پر دستخط کر چکا ہوں۔‘
’مجھے احساس ہوا کہ مجھے ہیروئن اتنی اچھی لگنا شروع ہو گئی ہے کہ مجھے کسی خطرے کا احساس ہی ختم ہو گیا ہے۔ میں کھبی بھی اس احساس سے دوبارہ نہیں گزرنا چاہتا تھا۔ تب ہی میں یہ سوچنے لگ گیا تھا کہ میں تو ہیروئن کا عادی ہو چکا ہوں۔‘
اور پھر جوں جوں سال گزرتے گئے اس نشے نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔
پال کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑ گئے اور وہ بیمار دکھائی دینے لگے۔ ان کے بقول ان کا مزاج بہت خراب ہو گیا اور لوگوں کا معلوم ہونے لگا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
ان کا وزن کم ہوتے ہوتے تقریباً پچاس کلوگرام ہو گیا جو کہ 5 فٹ 8 انچ کے قد کے شخص کے لیے خاصا کم ہوتا ہے۔ پال کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے اپنی ’موت کا اتنظار کرنا شروع کر دیا تھا۔‘
پال کے بقول نشے کی عادت ایک خوفناک چیز ہے
’میں نے زندہ رہنے کی امید ختم کر دی تھی اور میرا واحد مقصد یہ تھا کسی طرح مجھے ہیروئن مل جائے۔ میں ہر وقت اپنے ہی غم میں ڈوبا رہتا تھا اور ہیروئن ہی وہ واحد چیز تھی جو مجھے اس سے نجات دلاتی تھی۔‘
’میری خوش قسمتی ہے کہ والدین نے مجھے گھر سے نہیں نکالا لیکن میں سیڑھیوں کے نیچے ایک کھولی میں ہی سوتا تھا۔‘
’جب آپ نے ہیروئن کا نشہ کیا ہوتا ہے تو آپ جہاں بھی پڑے ہوں آپ خوش رہتے ہیں، آپ کو نہ درد ہوتا ہے اور نہ ہی سردی لگتی ہے۔‘
پال نے 13 مرتبہ ہیروئن چھوڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ہر بار دوبارہ نشہ کرنے لگ جاتے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک انھوں نے بے گھر افراد کے لیے کام کرنے والے ایک خیراتی ادارے کی جانب سے چلائے جانے والے ایک پروگرام میں حصہ نہیں لیا۔
’ایک دن میں نے ہیروئن اور اپنی تمام ادویات ایک میز پر رکھیں اور ساتھ چائے کی ایک پیالی بھی۔ میں نشہ چھڑوانے والی گولیاں نگلنے کے لیے چائے پیا کرتا تھا لیکن اس دن میں اس میز کے پاس سے گزرا اور اپنے کمرے میں لگے ہوئے آئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ میں نے اپنی ناک آئینے کے ساتھ لگائی اور خود سے ایک سوال کیا ’تم آخر چاہتے کیا ہو؟‘
’میں نے آئینے میں خود کو دیکھا اور کہا ’آئندہ تمہیں کوئی ہیروئن نہیں ملے گی‘ اس لیے کبھی مجھ سے ہیروئن کی فرمائش نہ کرنا۔ بس قصہ ختم ہو گیا۔‘
اس دن کے بعد پال نے کبھی ہیروئن کو ہاتھ نہیں لگایا۔
یہ بھی پڑھیے
افغانستان جانے کی تیاری میں پال کئی ماہ تک ایک مشکل تربیتی پروگرام میں حصہ لیتے رہے
اور پھر کئی برس گزر جانے کے بعد جب پال کا وزن بھی ٹھیک ہو گیا اور انھوں نے ایک سپر مارکیٹ میں نوکری شروع کر دی تو 30 سال کی عمر میں انھوں نے فوج (سکاٹس گارڈز) میں بھرتی کی درخواست جمع کر دی۔
فوج میں ملازمت کے صرف چھ ماہ بعد ہی انھیں بکنگھم پیلس میں گارڈ کے طور پر تعینات کر دیا گیا۔
’میں نے اس وقت تک درد کش ادویات بھی چھوڑ دی تھیں لیکن مجھے لگتا تھا کہ میری زندگی میں اب بھی کسی چیز کی کمی ہے لیکن جب سکاٹس گارڈز میں بھرتی ہو گیا تو مجھے بہت فخر ہوا کہ میں اس مقام تک پہنچ گیا ہوں۔‘
میں سوچ رہا تھا کہ ’واہ کیا بات ہے، چند ہی سال پہلے تک میں ہیروئن کا عادی شخص تھا اور اب میں گارڈ کی وردی میں محل کے سامنے کھڑا ہوں۔‘
لیکن سکاٹس گارڈز میں پانچ برس کی ملازمت کے بعد ایک دن جب کچھ فوجیوں کو افغانستان میں تعیناتی سے پہلے تربیتی کورس کے لیے ایک فوجی ٹرک میں لے جایا جا رہا تھا کہ ایک حادثہ پیش آ گیا اور اس میں پال کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
کچھ عرصے بعد انھیں ہسپتال سے تو فارغ کر دیا گیا لیکن کمر کے شدید درد کے لیے انھیں درد کی دوائیں تجویز کر دی گئیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پال درد کی ادویات کے عادی ہو گئے اور ہیروئن کی طرح درد کش گولیوں کے بغیر پال کا گزارا مشکل ہو گیا۔
پال اب اپنی اہلیہ اور سوتیلی بیٹی کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں
کورونا وائرس کی وبا میں برطانیہ میں لگائے جانے والے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران پال نے ’ہیروئن ٹو ہیرو‘ (ہیروئن سے ہِیرو تک) کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھنا شروع کر دی جس سے ملنے والی آمدن بے گھر افراد کو جاتی ہے۔
اس کتاب میں انھوں نے اس چیز کا احاطہ کیا ہے کہ انھوں نے ہیرؤین کیسے چھوڑی، جس سے انھیں بعد میں درد کی ادویات کو ترک کرنے میں بھی مدد ملی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’گولیاں کھانے کی بجائے اب میں نے درد کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔‘
آج کل پال سکولز میں لیکچر دیتے ہیں اور بچوں کو نشہ آور اشیا کے خطرات سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مختلف جیلوں میں جا کر قیدیوں کو بھی تربیت دیتے ہیں جس کے لیے وہ کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔
ان کے بقول ’ادویات پر انحصار تو برا ہے ہی لیکن نشے کی عادت تو سراسر تباہی ہے۔‘
’کسی بھی نشے کی عادت کو ختم کرنا مشکل کام ہے کیونکہ آپ اپنی قسمت کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں اور پھر میرے کئی دوستوں کی طرح ایک دن موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔‘
Comments are closed.