ڈوروتھی بٹلر گیلیم: ’میں ملازمہ نہیں ہوں، میں رپورٹر ہوں‘
ڈوروتھی بٹلر گیلیم نے بطور سیاہ فام خاتون صحافی کے امریکہ کے ایک بڑے اور معروف اخبار میں اُس وقت کام شروع کیا تھا جب امریکی معاشرہ نسلی امتیاز کی بنیاد پر کافی حد تک منقسم تھا۔ بی بی سی کی فرحانہ حیدر نے ڈوروتھی سے بات چیت کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سیاہ فام خاتون ہوتے ہوئے اُن کے ارد گرد سفید فام معاشرے نے کس طرح اُس کی صحافتی زندگی تشکیل دی۔
جب ڈوروتھی واشنگٹن کے امیر طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کی سالگرہ کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے پہنچیں تو گھر کے دروازے پر کھڑے چوکیدار نے انھیں کہا کہ ’آپ اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکتیں۔‘ اُس نے کہا کہ ’ملازماؤں کے داخلے کے لیے عقبی دروازہ مختص کیا گیا ہے۔‘
ڈوروتھی نے جواب دیا کہ ’میں ملازمہ نہیں ہوں، میں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹر ہوں۔‘
ڈوروتھی واشنگٹن پوسٹ اخبار کے لیے رپورٹنگ کرنے والی پہلی افریقی، امریکی (سیاہ فام) خاتون تھیں۔ اُنھوں نے اس اخبار میں سنہ 1961 سے کام کا آغاز کیا تھا اور پھر وہ اگلی تین دہائیوں میں ترقی کرتے ہوئے اسی اخبار میں ایڈیٹر اور کالم نگار کی سینیئر پوزیشنز تک پہنچیں، اور اس دوران اُنھوں نے امریکی معاشرے اور میڈیا میں بنیادی تبدیلیوں کو وقوع پذیر ہوتے ہوئے دیکھا۔
ڈوروتھی اُس وقت اتفاقیہ طور پر صحافت میں آئیں جب وہ کالج میں فرست ایئر کی طالبہ تھی اور وہ ایک ہفت روزہ ’لوئی ویل ڈیفینڈر’ میں سیکریٹری تھیں۔ ایک دن اس جریدے کی صحافی بیمار تھیں تو اُن کی جگہ ڈوروتھی کو کام کرنے کے لیے کہا گیا۔ بغیر کسی تجربے کے جب اچانک اُن پر یہ ذمہ داری آن پڑی تو اُنھیں سیاہ فام متوسط طبقے کے بارے میں ایک اسائنمنٹ پر رپورٹنگ کے لیے بھیجا گیا۔ کنٹکی جیسے بڑے شہر میں سیاہ فام متوسط طبقے کی یہ کمیونٹی ابھی کافی چھوٹی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ ایک نئی دنیا تھی اور اُس وقت میں نے محسوس کیا تھا کہ صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جسے اگر میں سیکھ لوں اور بہتر طریقے سے کرنا سیکھ لوں، تو یہ میرے لیے دنیا کے نت نئے دروازے کھول دے گا۔‘
کالج سے فارغ التحصیل ہو کر اُنھوں نے ’جیٹ‘ اور ’ایبونی‘ جیسے جریدوں میں کام کرنا شروع کیا لیکن اُن کا اصل ہدف تو کسی روزنامے میں کام کرنا تھا۔ اور پھر اُنھیں نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے جرنلزم کے شعبے میں داخلہ مل گیا، اُس برس وہ واحد افریقی، امریکی (سیاہ فام) طالبہ تھی۔ پھر اُنھیں واشنگٹن پوسٹ میں 24 برس کی عمر میں ہی ملازمت کا موقع مل گیا۔
ڈوروتھی بٹلر گیلیم کی سنہ 1958 کی تصویر جب وہ شکاگو کے ایک جریدے ’جیٹ‘ کے لیے کام کر رہی تھیں
اس اخبار کی پہلی افریقی، امریکی خاتون رپورٹر بننا ان کے لیے کافی کٹھن کام ثابت ہوا تھا۔
ٹیکسی ڈرائیور اُن کو بٹھانے کے لیے اپنی کار نہیں روکتے تھے۔ ’میں (واشنگٹن) پوسٹ کے سامنے ٹیکسی روکنے کے لیے اشارہ کرتی، وہ اپنی کار آہستہ کرتے، لیکن جب وہ میرا سیاہ چہرہ دیکھتے تو وہ کار کی رفتار تیز کر دیتے۔‘
دروازے پر کھڑے چوکیدار کی طرح اکثر لوگ اُنھیں واشنگٹن پوسٹ کا رپورٹر ماننے پر تیار ہی نہیں ہوتے تھے۔ اُنھیں اپنے اخبار کے نیوز رُوم میں بھی نسلی امتیاز کا اکثر سامنا کرنا پڑتا تھا۔
’جب میں واشنگٹن پوسٹ میں کام کرتی تھی تو اُس وقت بھی وہاں چند ایک پرانی روایات والے سینیئر ایڈیٹرز تھے۔‘
ڈرورتھی نے کہا کہ ’اُن میں ایک نے کہا کہ ہم سیاہ فام لوگوں کے قتل کی رپورٹیں شائع نہیں کرتے ہیں، یہ بے کار قسم کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘ یہ سُن کر ڈرورتھی کا دل چاہا کہ وہ گلا پھاڑ کر چیخیں اور وہاں سے بھاگ جائیں۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ اگر وہ دل لگا کر اپنا کام کرتی رہیں گی تو ایسے لوگوں کا اس قسم کا رویہ ختم ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
وہ کہتی ہیں کہ اُن کے مسیحی عقیدے نے بھی ان کی مدد کی، خاص طور پر جب وہ اپنے آپ کو سفید فام ساتھیوں سے بہت الگ تھلگ محسوس کرتی تھی۔
’نیوزرُوم کے اندر ان میں سے کچھ صحافی ہیلو کہہ دیتے یا کبھی اپنا سر ہلا دیتے یا مجھ سے بات کر لیتے، لیکن اگر وہ مجھے عمارت کے باہر دیکھتے تو وہ ایسا ظاہر کرتے کہ وہ مجھے جانتے ہی نہیں۔ یہ بہت ذلت آمیز رویہ تھا۔ وہ دوسرے سفید فام لوگوں کے سامنے ایک سیاہ فام شخص سے اپنی شناساہی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔‘
لیکن ڈوروتھی نے اپنے ایڈیٹرز کے ساتھ درپیش چیلنجز پر بات نہیں کی۔ انھیں تشویش تھی کہ کوئی شکایت انھیں سیاہ فام صحافیوں کی خدمات حاصل نہ کرنے کا بہانہ نہ دے دے۔
یہاں تک کہ سنہ 1960 کی دہائی میں ایک سیاہ فام عورت کے طور پر ڈوروتھی کے لیے لنچ خریدنا بھی مشکل تھا۔
ڈوروتھی ایک ایسی ریاست میں پروان چڑھی تھیں جس کو نسل کے واضح قوانین کے ذریعے سیاہ اور سفید کے درمیان سختی سے الگ کیا گیا تھا۔ سیاہ فام لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا سکتا تھا، ان کے تعلیمی اور روزگار کے مواقع محدود کر دیے گئے تھے اور ان کے بنیادی انسانی وقار کو تسلیم بھی نہیں کیا گیا تھا۔
سنہ 1954 میں ہفت روزہ لوئی ڈیفینڈر میں کام کے دوران ڈوروتھی بٹلر گیلیم کی ویسٹ پوائنٹ (امریکی ملٹری اکیڈی) کے گریجویٹس کے ساتھ لی گئی ایک تصویر
واشنگٹن میں ریستورانوں کو اب بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر الگ کیا جاتا تھا اور جو واشنگٹن پوسٹ دفاتر کے قریب کے ریستوران تھے وہ افریقی، امریکیوں (یعنی سیاہ فاموں) کو ہوٹل میں نہیں آنے دیتے تھے۔ ڈوروتھی اپنے دفتر سے دور تک چلتی جاتیں یہاں تک کہ وہ ایسی جگہوں پر پہنچ جاتی جہاں اُن جیسے سیاہ فام افراد کے لیے کسی ریستوران میں بیٹھنا آسان ہو۔
وہ ایک نئے انداز میں سیاہ فام افراد کی کہانیاں سنانے کی اپنی صلاحیت سے بہت زیادہ آگاہ تھی۔ افریقی، امریکیوں کی منفی تصاویر جو وہ مین سٹریم پریس میں دیکھتی تھیں انھیں وہ بہت کم پڑھتی تھیں، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان میں سیاہ فاموں کی بات بہت کم کی جاتی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں صرف سیاہ فام لوگوں کے بارے میں منفی کہانیوں کا احاطہ نہیں کرنا چاہتی تھی، بلکہ میں سیاہ فام لوگوں کی زندگی کا مکمل احاطہ کرنا چاہتی تھی۔‘
مزید پڑھیے
ڈوروتھی نے شہری حقوق کے اہم واقعات کا احاطہ کیا، جس میں سنہ 1962 میں مسیسیپی یونیورسٹی کے انضمام (انٹیگریٹی) کا واقعہ بھی شامل تھا۔ اس واقعے میں ایک نوجوان طالب علم جیمز میرڈیتھ کو یونیورسٹی میں پہلے افریقی امریکی کے طور پر داخل ہونے کے بعد احتجاج اور ہنگامے ہوئے۔
ڈوروتھی کو سفید فاموں کی بالادستی کے اس گڑھ میں نسلی انضمام (انٹیگریٹی) کے بارے میں ان کے رد عمل کا اندازہ لگانے کے لیے سیاہ فام برادریوں سے بات کرنے کی اسائنمنٹ دی گئی تھی۔ سیاہ فام افراد نے جیمز میرڈیتھ کے اچھے مستقبل سے امیدیں باندھ لی تھیں اور وہ کہتے تھے ان کے اس طرح داخلے سے دیگر سیاہ فاموں کے بھی حوصلے بڑھے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ مزید سیاہ فام طلبہ کو سفید فام اداروں میں داخلے ملنے چاہییں۔
انھوں نے ایسے مردوں اور عورتوں کو دیکھا جو پُرامید تھے اور ان میں جرات پیدا ہو رہی تھی۔ ڈوروتھی نے اسی کے بارے میں لکھا۔
جب انھوں نے سفید فام صحافیوں کی لکھی ہوئی کہانیاں پڑھیں تو انھوں نے دیکھا کہ انھوں نے سیاہ فام لوگوں کی ایک اسی تصویر پیش کی تھی جس میں وہ خوفزدہ نظر آتے تھے۔ ’اور جو مجھے وہاں نظر آیا وہ یہ نہیں تھا۔‘
جب وہ مسیسیپی میں تھیں تو انھیں سفید فام افراد کے ہوٹلوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی اور اُنھوں نے سیاہ فام افراد کی ایک جنازہ گاہ میں قیام کیا۔ ’میں مُردوں کے ساتھ سوتی تھی۔ کہانی حاصل کرنے کے لیے آپ کو جو بھی کرنا ہے وہ کریں۔‘
اپنے تیسرے بچے کی پیدائش کے بعد ڈوروتھی نے سنہ 1960 کی دہائی کے وسط میں واشنگٹن پوسٹ کی ملازمت چھوڑ دی تھی۔
سنہ 1972 میں وہ واشنگٹن پوسٹ میں پھر سے کل وقتی ملازم ہو گئیں، تاہم اس مرتبہ سٹائل سیکشن میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے، وہ اس کام کو پسند کرتی تھی۔
سٹائل سیکشن میں سیاہ فام ثقافت کے بارے میں بہت کچھ بیان کرنے کے قابل باتیں تھیں جو واقعی دلچسپ تھیں۔ یہاں انھیں معلوم ہوا کہ سفید فام امریکیوں کو سیاہ فاموں کی ثقافت کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، صرف اتنا ہی معلوم تھا جو وہ اپنی نوکرانیوں یا اپنے دربانوں سے بات کر کے جان سکتے تھے۔ سارا مقصد اس سیاہ فام ثقافت کو مرکزی دھارے میں لانا تھا۔‘
اس حیثیت میں ڈوروتھی لوگوں کی خدمات حاصل کرنے کے قابل بھی تھیں، اور انھوں نے ایسے صحافیوں کی خدمات حاصل کیں جو سیاہ فاموں کے تجربے کے بارے میں لکھ سکتے تھے۔ پھر سنہ 1979 میں وہ ایک کالم نگار بن گئیں، جہاں انھوں نے تعلیم، سیاست اور نسل کے مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے 19 سال تک کام کیا۔ وہ سنہ 2003 میں اس عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔
صحافت میں 50 سالہ کیریئر کے دوران ڈوروتھی نے ہمیشہ معاشرتی تنوع کے خیال کو مضبوط کیا۔ وہ نیشنل ایسوسی ایشن آف بلیک جرنلسٹس کی صدر رہیں اور وہ رابرٹ سی مینارڈ انسٹیٹیوٹ فار جرنلزم ایجوکیشن کے قیام میں شامل ہوئیں اور اب اس کے بورڈ کی ممبر ہیں۔ اس انسٹیٹیوٹ نے نسلی اقلیتوں کے ہزاروں افراد کو بطور صحافی تربیت دی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ لوگوں کے ایک گروہ کی نظر سے ایک کہانی سُنا رہے ہیں تو آپ واقعی سچی کہانی یا پوری کہانی بیان نہیں کر سکتے ہیں۔‘
’اور اگر آپ کے پاس ایسے لوگ نہیں ہیں جو دنیا کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں، تو آپ اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کی مکمل تصویر نہیں بنا سکتے ہیں۔‘
Comments are closed.