برطانوی شہریت کے مسائل: ’میں تو ہمیشہ یہ ہی سمجھتا تھا کہ میں برطانوی ہوں‘
- راحیل شیخ
- بی بی سی نیوز
برطانیہ میں ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جو یا تو برطانیہ میں پیدا ہوئے یا بچپن سے ہی برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں، مگر وہ اپنے امیگریشن سٹیٹس کی وجہ سے خود کو برطانیہ کا دوسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔
ان میں سے اکثریت قانونی طور پر برطانیہ میں رہ رہے ہیں لیکن عارضی امیگریش سسٹم کا حصہ ہونے کی وجہ سے ان کے شہری حقوق محدود ہیں۔
واضح رہے کہ ایسے بچے جو برطانیہ میں ہی پیدا ہوئے ہوں وہ بھی خود بخود برطانوی شہری نہیں بن جاتے بلکہ ان کی برطانوی شہریت کا انحصار ان کے والدین کے امیگریشن سٹیٹس پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کئی ایسے بچے ہیں جو برطانیہ میں پیدا تو نہیں ہوئے مگر یہیں پلے بڑھے ہیں، اور انھیں برطانوی شہریت کے حصول کے لیے ایک طویل اور مہنگا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی پینوراما نے ایسے نوجوان لوگوں سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ ان کے امیگریشن سٹیٹس کی وجہ سے اُن کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔ کچھ کو برطانیہ میں اپنے امیگریشن سٹیٹس کا علم جوان ہونے پر ہوا۔
معراج احمد کو دو سال قبل ایٹن میں اے لیول کے لیے فل سکالرشپ ملا
اٹھارہ سالہ معراج احمد
میں تارکین وطن کی پہلی نسل سے پیدا ہونے والا بچہ ہوں۔ میں یہاں میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا اور امید کرتا تھا کہ میں ایک دن ڈاکٹر بن کر لوگوں کی خدمت کروں گا اور معاشرے کے میرے اوپر کیے گئے احسانات کو لوٹا سکوں گا لیکن حال ہی میں جب مجھے اپنے امیگریشن سٹیٹس کا علم ہوا تو مجھے ایسا لگا کہ میرے خواب چکنا چور ہو گئے۔
جب میں برطانیہ آیا تو میں پانچ برس کا تھا۔ میرے والد بنگلہ دیش میں ایک نرس تھے اور اس شعبے میں اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے برطانیہ آ گئے تھے۔ جب وہ برطانیہ میں ہی تھے تو بنگلہ دیش میں حکومت تبدیل ہو گئی جس کے بعد وہ واپس بنگلہ دیش نہیں جانا چاہتے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے بنگلہ دیش میں مقیم اپنے خاندان کو بھی برطانیہ بلا لیا۔
یہ بھی پڑھیے
جب میں پرائمری سکول میں چوتھی جماعت میں تھا تو مجھے پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ میں برطانوی نہیں ہوں۔
ہمیں ہوم آفس سے خطوط موصول ہوتے تھے۔ میرے والدین انگلش نہیں بولتے تھے جس کی وجہ سے مجھے ہوم آفس کے ان خطوط کو پڑھنا ہوتا تھا۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیں کہا جا رہا ہے کہ دسمبر 2012 کے اختتام تک ہمیں برطانیہ سے واپس جانا ہو گا یا بصورت دیگر اگر ہمیں اس فیصلے سے اختلاف ہے تو ہمیں ہوم آفس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا ہو گی۔
حال ہی میں مجھے بتایا گیا کہ میں اس سال یونیورسٹی نہیں جا پاؤں گا اور شاید کبھی بھی نہیں جا پاؤں گا۔ یہ میرے لیے تباہ کن تھا۔
ابھی میں اڑھائی سالہ ویزہ سسٹم پر ہوں جس کی ہر تیس ماہ بعد تجدید کروانی ہوتی ہے۔
میرا خیال ہے یہ 2019 تھا جب ہمیں پہلی بار اڑھائی سالہ ویزہ سسٹم میں ڈالا گیا جس پر ہمیں دس سال تک رہنا ہو گا۔ شہری ہونا ایک استحقاق ہے اور ہمیں اس استحقاق کی قدر کرنی چاہیے لیکن میں سمجھتا ہوں مجھے یہ استحقاق اب تک مل جانا چاہیے تھا۔
شہریت کا دس سالہ راستہ
معراج احمد جیسے لوگ جو برطانیہ میں رہائش کے خواہشمند ہیں ان کے پاس مستقل سکونت حاصل کرنے کے لیے ایک ذریعہ دس سالہ ویزے کا نظام ہی ہے۔
اب معراج اور ان کا خاندان اس نظام کا حصہ ہے۔ ان کے پاس عارضی ویزہ ہے جس کی ہر 30 ماہ بعد تجدید ہوتی ہے۔
لیکن ویزے کی تجدید کے لیے انھیں ہر بار درخواست کی فیس اور این ایچ ایس کو استعمال کرنے کی مدد میں فی شخص 2600 پونڈ ہر تیس ماہ بعد ادا کرنے پڑتے ہیں۔
ویزہ کے اس دس سالہ نظام میں ڈالے گئے افراد جب تک تین برس تک اس نظام میں گزار نہ لیں ان کے لیے مقامی طلبا کے لیے مقررہ فیس پر یونیورسٹی جانا ممکن نہیں۔ اگر وہ تین برس گزارنے سے پہلے ہی یونیورسٹی میں داخلے کے خواہشمند ہیں تو انھیں وہ فیس ادا کرنی ہو گی جو بین الاقوامی طلبا ادا کرتے ہیں اور برطانوی شہریوں کے لیے مقررہ فیس سے ہزاروں پونڈ زیادہ ہوتی ہے۔
وہ اس وقت ریاست سے کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ اگر وہ بطور شہری فائدہ حاصل کے خواہشمند ہیں تو انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔
شہریت کا دس سالہ نظام بہت سست رفتار ہے۔ برطانیہ میں نئے آنے والوں کے لیے پانچ سالہ روٹ بھی ہے لیکن صرف ایسے لوگوں کے لیے ہے جو کسی مخصوص ہنر کے مالک ہوں اور جن کی آمدن بھی اچھی ہو۔ اس کے علاوہ شہریت حاصل کرنے کا ایک اور راستہ برطانوی شہری سے شادی کے ذریعے ممکن ہے۔
خیراتی ادارے ’وی بیلونگ‘ کا کہنا ہے کہ اس نظام میں لوگوں کو مشکل میں ڈال دیا جاتا ہے اور ایسی فیسیں ادا کرنے کا کہا جاتا ہے جن کو ادا کرنے کے لیے ان پاس وسائل نہیں ہیں۔
ہوم آفس نے کہا کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کچھ ایسے افراد ہوں گے جو بچپن سے برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں لیکن ان کی کا سٹیٹس ابھی باضابطہ نہیں ہے، ہم ایسے لوگوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ہوم آفس نے کہا کہ ہم اپنی تمام فیسیوں پر غور کرتے رہتے ہیں اور کچھ حالات میں اُن کو معاف بھی کیا جاتا ہے۔
ہوم آفس کا کہنا ہے کہ امیگریشن کا نیا پلان بہت ’منصفانہ لیکن بہت سخت‘ ہو گا۔ ہوم آفس کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں سکونت کے نظام کے ضوابط کو آسان بنانے اور ویزے کی درخواستوں کے نظام کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
تہاج لی اور ناشستاسیا کی صورتحال
ناشستاسیا اپنی چھوٹی بہن تہاج لی کے ہمراہ
میں اور میری بہن شہریت کے دس سالہ سسٹم پر ہیں اور ہمیں سات برس ہو گئے ہیں اور ہم اس کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کر چکی ہیں۔
میرے خیال میں اس سارے سلسلے کے لیے جتنی فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں وہ ورکنگ کلاس کا کوئی فرد آسانی سے پوری نہیں کر سکتا ہے۔
ہم اپنی والدہ کے ہمراہ جمیکا سے برطانیہ آئے۔ اس وقت میں ایک برس اور میری بہن ناشستاسیا نو برس کی تھیں۔
ہم یہاں وزٹ ویزہ پر آئے کیونکہ ہمارا پورا خاندان برطانیہ میں رہ رہا تھا۔ میری امی اپنے خاندان کی واحد فرد تھیں جو پیچھے جمیکا میں رہ گئی تھی۔
جب ہم ٹین ایج میں پہنچیں تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے شہریت کے سٹیٹس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔
یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ آپ کو برطانوی شہریت کو خریدنا پڑتا ہے لیکن میں برطانیہ کے علاوہ کسی اور ملک کی جانتی ہی نہیں ہوں۔
میری لیے میری ماں اور میری بہن کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا اور نو سال کا بچہ کسی دوسرے ملک ہجرت کرنے کا کیسے فیصلہ کر سکتا ہے؟
میری ماں ہفتے کے ساتوں روز، اور دن کے چوبیس گھنٹے کام کرتی تھیں تاکہ ہمارے پاس اتنے پیسے ہوں کہ ہم برطانیہ میں رہنے کے لیے ضروری فیسیں ادا کر سکیں اور ہمارے سر پر چھت ہو اور میز پر کھانا۔
اس صورتحال کی وجہ سے میری ماں کی صحت کے مسائل پیدا ہوئے۔ حالات نے ان کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کیا۔ اب یہ صورتحال ہے کہ وہ جسمانی طور پر اس حالت میں ہیں کہ وہ سارا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہیں لہذا اب یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے۔ یہ بہت بھاری بوجھ جو میں اٹھا رہی ہوں جس سے میری ذہنی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
Comments are closed.