پولی اینڈری: جنوبی افریقہ کی ایسی خواتین جو ایک سے زیادہ شوہر یا پارٹنر چاہتی ہیں
- پوجا چھابڑیا
- بی بی سی ورلڈ سروس
اپنی زندگی کے ابتدائی برسوں سے ہی جنوبی افریقہ کی موومبی نیدزلما ایک ہی شخص سے شادی کرنے کے رواج پر سوال اٹھا رہی تھیں۔
وہ ہمیشہ اپنے والدین سے پوچھتی تھیں کہ ’کیا آپ لوگ ساری زندگی ساتھ رہیں گے؟‘
موومبی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں سوچتی تھی کہ ہماری زندگی میں لوگوں کو موسموں کی طرح بدلنا چاہیے لیکن میرے اردگرد کی دنیا میں ایک شخص کے ساتھ تعلقات کی بات ہر جگہ سکھائی جاتی تھی۔ سینما اور چرچ میں بھی یہی بات کہی جاتی تھی لیکن میں اسے کبھی پوری طرح سمجھ نہیں سکی۔‘
اب موومبی کی عمر 33 سال ہے۔ ان کی شناخت ایک ایسی خاتون کی ہے جن کا ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ رومانوی رشتہ ہے یعنی وہ پولی اینڈری پر یقین کرتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ جنوبی افریقہ میں ایسی کمیونٹی کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی آواز بھی بلند کرتی رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرا ایک مرکزی پارٹنر ہے جس کے ساتھ میں اس وقت منگنی کر رہی ہوں اور ہمارے بچے ہیں۔ میرے دوسرے ساتھی ہم سب کے لیے بہت خوش ہیں۔ میرا مرکزی ساتھی شادی نہیں کرنا چاہتا لیکن مستقبل میں، میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘
موومبی کے اینکر پارٹنر بھی پولی ہیں
جنوبی افریقہ کا آئین دنیا میں سب سے زیادہ لبرل سمجھا جاتا ہے۔ ہم جنس شادی کے علاوہ اس میں مردوں کو متعدد بیویاں رکھنے کی بھی اجازت ہے۔
اب ملک میں شادی کے قانون کو اپ ڈیٹ کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ خواتین کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے اور اس کا مطالبہ بھی ہے۔
تاہم ملک کا قدامت پسند معاشرہ اس پر تنقید کر رہا ہے۔
مزید پڑھیے
موسا مسیلیکو، ایک بیوپاری اور ٹی وی شخصیت جن کی چار بیویاں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں یہ ’ہماری افریقی ثقافت کو بہت نقصان پہنچائے گا۔ ان کے بچوں کا کیا ہو گا، وہ کیا شناخت ظاہر کریں گے۔ خواتین مردوں کی جگہ نہیں لے سکتیں۔‘
’اس بارے میں ابھی تک کسی نے نہیں سنا. کیا اب خواتین مردوں کو لوبولا (دلہن کو دی گئی رقم) دیں گی؟ کیا اب مرد بیوی کی کنیت رکھیں گے؟‘
اس وقت اپوزیشن میں افریقی کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی (اے سی ڈی پی) کے لیڈر ریورنڈ کینتھ میشوئے کا کہنا ہے کہ اس سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔
میشوئے کا کہنا ہے کہ ’ایک وقت آئے گا جب ایک آدمی کہے گا کہ تم کسی دوسرے آدمی کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارتے ہو۔ میرے ساتھ مت رہو۔ یہ دو آدمیوں کے درمیان تنازع کا باعث بنے گا۔‘
لوگوں کا حیرت انگیز ایمان
موومبی کے مطابق کثیر ازدواجی تعلقات میں خواتین کے لیے یہ ایک اہم لمحہ ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’موجودہ صورتحال کشیدہ ہے۔ بہت سے لوگوں کے عقائد کو متزلزل کیا جا رہا ہے۔ مرد اب تک نسلوں سے کھلے عام اور خوشی سے کثیر ازدواج میں ہیں لیکن عورتوں کو اس پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور بہت سی چیزوں کو طے کرنا پڑتا ہے۔‘
موومبی پچھلے دس برسوں سے ایک ساتھ کئی رشتوں میں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اجتماعی طور پر پولی اینڈری کہا جاتا ہے۔ پولی ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک سے زیادہ ازدواجی رشتوں میں رہ سکتے ہیں اور ان تمام لوگوں کی مکمل حمایت اور اعتماد حاصل کر سکتے ہیں جن سے آپ کا رشتہ ہے۔
فی الحال موومبی کے دو شراکت دار ہیں: ایک مرکزی یا ’اینکر پارٹنر‘، وہ ایک ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے وسائل استعمال کرتے ہیں جبکہ ان کا ایک اور ساتھی ہے جس کے ساتھ صرف ایک رومانوی تعلق ہے لیکن دونوں کم کثرت سے ملتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم ٹیبل پولیموری سٹائل پر عمل کر رہے ہیں، جس میں لوگ ایک دوسرے کے شراکت داروں سے بھی آگاہ ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایک دوسرے سے ملے لیکن میرے خیال میں یہ سب بتا کر ہونا چاہیے۔‘
موومبی شروع میں اپنے خاندان کو اس کے بارے میں بتانے میں ابہام کا شکار تھی لیکن جب پانچ سال قبل ان کے اینکر پارٹنر مزو میمیکلا نالاباٹسی کے ساتھ ان کا رشتہ مضبوط ہوا تو انھوں نے سب کو بتانے کا فیصلہ کیا۔
پولی اینڈری کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح بچوں کے والد کا پتا لگانے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ لازم ہو جائے گا
انھوں نے کہا کہ ’میرا اینکر پارٹنر بھی پولی ہے اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میرا خاندان ممکنہ طور پر لڑائی کرے جب وہ کسی دوسرے ساتھی کے ساتھ عوامی جگہ پر ہو اور وہ اس سے الجھن میں پڑیں۔‘
’وہ وقت بھی تھا جب ہماری بیٹی پانچ سال کی تھی اور میں میدان میں سرگرم ہو رہی تھی۔‘
موومبی اپنی حالیہ مصروفیات کو یاد کرتی ہیں جب ان کے اینکر پارٹنر نے لوبولا کی رسم ادا کی۔ اس عمل کے تحت ایک مرد اپنی آنے والی بیوی کے خاندان کو شادی کی ادائیگی کرتا ہے۔
جنوبی افریقہ میں صنفی کارکن مساوات کے لیے مہم چلا رہے ہیں اور خواتین کو انتخاب کرنے کے لیے ایک سے زیادہ شادیوں کو قانونی حیثیت دے رہے ہیں کیونکہ موجودہ نظام صرف مردوں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ان کی تجویز کو دستاویز میں شامل کیا گیا ہے جو کہ حکومت کی جانب سے سنہ 1994 کے بعد پہلی بار شادی کے قانون میں تبدیلی کے لیے جاری کی گئی ہے تاکہ لوگ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔
دستاویز میں مسلم، ہندو، یہودی اور رستافاری شادیوں کو قانونی حیثیت دینے کی تجویز بھی دی گئی ہے، جنھیں فی الحال باطل سمجھا جاتا ہے۔
موومبی کا کہنا ہے کہ یہ پیشکش دعا کی قبولیت کی طرح ہے۔
اور ایک سے زیادہ شادی کرنے کے بارے میں جو خدشات اٹھائے جا رہے ہیں وہ پدرسری سے جڑے ہوئے ہیں۔
پولی اینڈری کے موضوع پر نامور تعلیمی پروفیسر کولیز ماچوکو نے ایسی رائے کا اظہار کیا کہ عیسائیت اور نوآبادیات کی آمد کے ساتھ خواتین کا کردار کم ہوتا گیا۔ ’وہ برابر نہیں تھیں۔ شادیاں معاشرے میں درجہ بندی قائم کرنے کے لیے بھی استعمال کی جاتی تھیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ بچوں کا سوال بہت سادہ ہے۔ جو بھی بچے ان رشتوں میں پیدا ہوتے ہیں، وہ خاندان کے بچے ہوتے ہیں۔
موومبی کے کچھ ماضی کے تعلقات میں پدرسری عقائد پائے جاتے ہیں اور اس کے بعد سے ان کے ساتھیوں کے ساتھ رہنا آسان ہو گیا، جو خود پولی ہیں۔
موومبی کہتی ہیں ’جہاں تک میرا تعلق ہے، ایسا نہیں کہ میں زیادہ سے زیادہ محبت کرنے والوں کی کوشش کر رہی ہوں۔ یہ کسی کے ساتھ رابطہ تلاش کرنے کی طرح ہے جب میں اسے محسوس کرتی ہوں۔‘
موومبی نے اپنے دونوں شراکت داروں سے ایک آن لائن کمیونٹی میں ملاقات کی جو جنوبی افریقہ میں متعدد لوگوں کو جوڑتی ہے۔
ان دنوں وہ ملک میں جاری بحث کے حوالے سے اپنے ساتھی کے ساتھ ’اوپن لو افریقہ‘ کے نام سے ایک آن لائن پلیٹ فارم بنا رہی ہیں۔ موومبی کے مطابق ان کی کوشش ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ تعلقات کو اخلاقی طور پر قبول کیا جائے۔
وہ بتاتی ہیں کہ کمیونٹی سیاہ فام لوگوں کی زیادہ حمایت کرتی ہے لیکن یہ جامع ہے اور آگے بڑھتے ہی اس میں اضافہ ہوگا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک تحفہ ہے جو ایک سے زیادہ افراد کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں ہیں۔ آپ کو ایسے لوگ ملیں گے اور پھر وہ محسوس کریں کہ جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ کسی بھی دوسری لڑائی کی طرح یہاں بھی لوگ ہمیشہ اس کی مخالفت میں آواز بلند کرتے رہیں گے۔
’جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھی، میری ماں احتجاج میں شامل تھیں تاکہ عورتیں مرد کی اجازت کے بغیر مانع حمل ادویات لے سکیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت یہ ایک مختلف لڑائی تھی اور اب یہ میرے لیے ایک مختلف لڑائی ہے۔‘
Comments are closed.