’میں اسے زندہ رکھنے کے لیے پہاڑ بھی کھودوں گی۔۔۔‘ غزہ پر اسرائیلی بمباری کے دوران پیدا ہونے والے بچے کی کہانی،تصویر کا ذریعہSupplied

  • مصنف, سٹیفنی ہیگرٹی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 3 گھنٹے قبل

7 اکتوبر کی صبح ایمل الابدلہ اپنے بچے کو جنم دینے والی تھیں اور 18 ماہ کے نوح کے ساتھ بستر میں لپٹی ہوئی تھیں جب انھیں زوردار آوازوں نے جگایا۔حماس نے اسرائیل پر حملہ کرتے ہوئے ہزاروں راکٹ فائر کیے۔ اسرائیل کے فضائی طیاروں نے جلد ہی اس کے بعد انتقامی حملے شروع کر دیے۔ خان یونس میں ایمل کو بالکل معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ بہت پریشان اور گھبرائی ہوئی تھیں اور وہ اپنے حمل کے آٹھویں مہینے میں تھیں ان کا بہت زیادہ خون نکلنے لگا۔ انھیں ہسپتال جانا تھا لیکن وہ تنہا تھیں کیونکہ ان کے خاوند غزہ سے باہر مقبوضہ غرب اردن میں ملازمت کر رہے تھے۔تین گھنٹے انتظار کے بعد بھی ایک ٹیکسی ڈرائیور انھیں آدھے راستے تک ہی لے کر جا سکا۔ گلیوں میں بہت سارے ایسے لوگ تھے جنھیں نہیں معلوم تھا کہ کرنا کیا ہے اور جانا کہاں ہے۔

اس دوران ان کا خون بہہ رہا تھا۔ایمل ایک آرکیٹیکٹ ہیں، جب وہ ہسپتال پہنچیں تو انھیں فوراً سی سیکشن میں آپریشن کے لیے بھیج دیا گیا۔ محمد ایک ایسی دنیا میں آیا جو بالکل بدل گئی تھی۔اس دن سے محمد کی والدہ انھیں اور ان کے دو سال کے بھائی کو زندہ رکھنے کی جنگ روزانہ کی بنیاد پر لڑ رہی ہیں۔غزہ کی 90 فیصد کی آبادی کی طرح ایمل اور ان کے گھر والوں نے کئی مہینوں سے صحت مند، متوازن غذا نہیں کھائی۔ شمال میں یہ مسئلہ بہت زیادہ ہے، جہاں 90 فیصد بچے اور 95 فیصد حاملہ اور دودھ پلاتی خواتین کو شدید خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔اس مہینے کی ابتدا میں عالمی ادارہ صحت نے ہسپتالوں کے دورے کے بعد کہا تھا کہ شمالی غزہ میں بچے بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں۔لیکن جنوب میں بھی بیبی فارمولے تک رسائی بہت مشکل ہو گئی۔ ،تصویر کا ذریعہGetty Imagesاقوام متحدہ بہت سے ہنگامی حالات میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہاں دودھ پلانے والی خواتین کی شرح زیادہ ہے۔ لیکن غزہ میں تقریباً نصف خواتین چھ ہفتوں سے زائد عرصے تک اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ہنگامی حالات میں بچوں کی غذائیت کی یونیسیف کی سینیئر مشیر انو نیارن کہتی ہیں کہ ’جیسے ہی تنازع شروع ہوا ہم جانتے تھے کہ یہ ایک چیلنج بننے والا ہے‘۔وہ کہتی ہیں ’اگر آپ اپنے بچے کو دودھ نہیں پلا رہے ہیں اور آپ تنازع میں پھنسے ہیں، آپ اچانک اپنے بچے کو دودھ پلانا شروع نہیں کر پائیں گے۔ ایسے میں آپ بچے کے فارمولے پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔‘ایمل، محمد کو ایک ماہ تک دودھ پلا سکیں لیکن انھوں نے دیکھا کہ وہ اتنا دودھ نہیں بنا رہیں جتنا چاہیے۔وہ کہتی ہیں ’میں ہر وقت گھبرائی ہوئی اور خوفزدہ رہتی تھی۔ میں اپنے لیے اچھی غذا نہیں تلاش کر پا رہی تھی۔ لہٰذا میرے پاس دودھ نہیں تھا لیکن میں نے کوشش کی۔‘جیسے جیسے جنگ طویل ہوتی گئی حالات مشکل ہوتے گئے۔ غزہ میں پانی کا نظام مشکلوں سے چل رہا ہے۔ زیادہ تر نئی مائیں پانی کی قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے دودھ بنانے میں رکاوٹ ہو رہی ہے۔انو نیارن کہتی ہیں ’لوگوں کو یومیہ دو لیٹر سے بھی کم پانی مل رہا ہے اور یہ دھونے کو چھوڑیں پینے کے لیے بھی کافی نہیں۔‘غزہ میں بھی بیبی فارمولے تک رسائی ایک جدوجہد ہے۔ اب مارکیٹ میں بہت کم مقدار میں ہی یہ دستیاب ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ اسے مدد کے طور پر غزہ بھیج رہا ہے مگر اب غزہ میں جنگ کے آغاز کے مقابلے میں آنے والے ٹرکوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔اس وقت جس طرح کی افراتفری اور جنگ جاری ہے ایسے میں غزہ میں آنے والے ٹرکوں پر حملوں اور ان کی لوٹ مار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔اسرائیل نے غزہ میں امداد بھیجنے میں رکاوٹ ڈالنے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد تقسیم کرنے میں ناکامی امداد بھیجنے والے اداروں کی ہے۔ جمعے کو آسریلیا کے وزیر خارجہ پینی وانگ نے کہا ہے کہ غزہ جانے کے لیے ابھی کافی امداد اجازت کی منتظر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کے تعاون کے بغیر اس امداد کو غزہ میں لے جانے اور وہاں پر عوام میں تقسیم کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسرائیل سے یہ درخواست کر رہے ہیں کہ وہ غزہ میں مزید امداد جانے کی اجازت دے۔‘صاف پانی کی کمی کی وجہ سے یونیسف غزہ کی طرف ’پری مکسڈ بیبی فارمولا‘ بھیج رہی ہے۔ اس کے استعمال میں کوئی خطرہ نہیں ہے مگر اسے بڑی تعداد میں لے جانے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔سی سیکشن کے تین دنوں میں ہی ایمل کو دوبارہ یہاں سے کُوچ کرنا پڑا۔ انھیں اپنی ماں کا گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ چوتھی دفعہ بے گھر ہو رہے تھے۔ انھوں نے بمباری کے دو گھنٹے سے قبل ہی یہ گھر رات کو چھوڑ دیا تھا۔ ایمل کا کہنا ہے کہ وہ وہاں سے دودھ اور ڈائپرز نہیں لے کر آ سکیں کیونکہ انھوں نے پوری عمارت کو زمین بوس کر دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہAmal Alabadlaایمل آغاز میں اپنے بچوں کو رفح میں لے کر آ گئیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ جگہ محفوظ ہے۔ مگر پھر وہ یہاں سے خان یونس کی طرف لوٹ گئیں۔ انھیں رفح میں وہ کچھ نہیں مل سکا جن کی انھیں تلاش تھی۔ محمد کو ڈیری الرجی ہے اور عام فارمولے سے وہی بیمار ہو جاتے ہیں۔ ایمل نے محمد کے لیے بغیر ڈیری والے فارمولے کا ایک کین تلاش کیا مگر اس کی قیمت کوئی 40 ڈالر بنتی تھی۔ یہ جنگ شروع ہونے سے قبل نرخوں سے چار گنا زیادہ مہنگا تھا۔جنوری کے وسط تک خاندان خان یونس کے باہر جھاڑیوں پر رہ رہا تھا اور ایمل کے پاس صرف دو دن کا بیبی فارمولا بچا ہوا تھا۔ تین ماہ کے محمد اس کے علاوہ کچھ کھا بھی نہیں سکتے تھے۔انھوں نے موبائل پیغام میں بتایا کہ ’میں اسے غذا دینے کے لیے پہاڑ کھودوں گی۔ میرے بچے کو اس کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے اپنے بھائیوں کو بھی اپنے گھر کی طرف بھیجا کہ وہاں ملبے تلے سے فارمولا دودھ تلاش کر کے لے آئیں مگر وہ بھی خالی ہاتھ ہی لوٹے۔ایمل نے دوبارہ دکانوں اور بازاروں سے یہ دودھ ڈھونڈنے کے لیے رفح کا رخ کیا۔ اس سفر میں عام طور پر کار سے صرف 20 منٹ لگتے تھے، لیکن اب ہر جگہ اسرائیلی افواج رستے میں سرگرم تھیں۔اس سفر میں راستے میں ان کا سامنا تین ٹینکوں سے ہوا۔ ایک نے ان کی سمت گولی چلائی جس کے ساتھ ہی گولی کار کے قریب آ کر لگی۔ ڈرائیور نے گاڑی پیچھے کی اور وہ وہاں سے بچ نکلے۔ سہمی ہوئی اور اپنے بچوں سے ملنے کے بے تاب ایمل کو یہاں سے بھی کوئی فارمولا دودھ نہیں مل سکا۔،تصویر کا ذریعہSupplied

پانی اور خوراک کی کمی

فروری میں خان یونس میں جنگ میں شدت آگئی اور دھماکوں کی آواز نوح کے لیے خاص طور پر مشکل تھی۔ انھیں مرگی ہے اور بمباری سے اس بیماری میں شدت آجاتی ہے۔ اس کی مرگی کی دوا ختم ہو چکی ہے اور اب یہ ایمل کو بھی کہیں سے نہیں مل رہی ہے۔ایمل کے خاندان کے پاس کھانا اور پانی بہت کم رہ گیا ہے۔ ایمل اسے آگ پر ابال کر اسے صاف کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ اب بھی گندا ہے لیکن میں اپنی پوری کوشش کر رہی ہوں۔‘عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے اندازے کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 24000 بچے پیدا ہو چکے ہیں۔غزہ کی پوری آبادی کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے لیکن یہ خطرہ خاص طور پر چھوٹے بچوں کے لیے شدید ہے۔یونیسف کی انو نیارن کے مطابق ’بچے بہت تیزی سے بیمار ہو سکتے ہیں۔ کم ذخیرے کی وجہ سے یہ بچے تیزی سے شدید غذائی قلت کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘اگر ان کا علاج بھی کیا جا رہا ہو تو بھی طویل مدت کے لیے انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غذائیت کی کمی سے بعد میں ذیابیطس، دل کی بیماری اور یہاں تک کہ موٹاپے کا باعث بن سکتی ہے۔کانگو میں بالغوں پر کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن مردوں کا بچوں کی طرح شدید غذائی قلت کا علاج کیا گیا تھا ان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس علاج کا ان کی علمی نشوونما پر طویل مدتی اثر پڑتا ہے، جس سے تعلیمی کامیابیوں اور خود اعتمادی پر منفی اثر پڑتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہSuppliedایمل نے فی الحال فارمولا دودھ کی تلاش ترک کر دی ہے۔ اور محمد کی غذا کے لیے ایک متبادل حل تلاش کر لیا ہے۔ انھوں نے اب اسی علاقے میں ایک ماں تلاش کی ہیں ، جو اپنے بچے کے ساتھ محمد کو بھی دودھ پلا رہی ہیں۔ ایمل انھیں اس کے بدلے بچے کے کپڑے اور تھوڑے سے پیسے دے رہی تھیں۔وہ المواسی کے ساحلی علاقے میں ریت کے ایک حصے پر تختوں اور ربڑ کی چادروں سے بنائے گئے خیموں میں رہتے ہیں۔ وہ ڈبے میں بند کھانا اور عطیہ کیے گئے آٹے سے روٹی کھاتے اور چارے کی لکڑی سے کھانا پکاتے تھے۔ المواسی کو اسرائیلی فوج نے جنگ سے قبل ’انسانی ہمدردی والے علاقے‘ کا درجہ دیا۔یہاں تک کہ یہ سیٹ اپ زیادہ دیر تک نہیں چل سکا۔ گذشتہ اتوار کو وہ پھر بے گھر ہو گئے جب ان کے کیمپ پر حملہ ہوا۔ ایمل کے ساتھ والے خیمے پر گولہ باری کی گئی اور چار افراد مارے گئے۔انھوں نے موبائل سے بھیجے گئے اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ’یہ ایک معجزہ ہے کہ ہم زندہ ہیں۔‘غزہ کے بہت سے دوسرے باشندوں کی طرح انھوں نے بھی اب آن لائن کراؤڈ فنڈنگ کا سہارا لیا ہے تاکہ ہزاروں ڈالر اکٹھے کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ ان پیسوں سے وہ اپنے خاندان کو مصر بھیجے جانے والی فہرست میں اندراج کے لیے بروکرز کو رقم ادا کریں گی۔ایک شام ایمل نے جنگ سے پہلے اپنی زندگی کی آخری تصویر بھیجی جو چھ اکتوبر کی رات کی تھی۔نوح نرم قالین پر لیٹا ہوا تھا، ایک بڑے کُشن پر کھڑا ہو کر وہ ٹی وی پر کارٹون دیکھ رہا تھا اور بوتل سے دودھ نکال رہا تھا۔ وہ کمرے کی دیوار پر فیری لائٹس کی نرم چمک کے نیچے ہوا میں اپنی ٹانگیں مار رہا ہے۔وہ اس رات اپنی ماں کے ساتھ ایک ایسی دنیا میں سو گیا جو خاک، گندگی اور سفاکیت سے بہت دور ہے جو اب ان کی زندگی کی علامت ہے۔ایمل نے کہا کہ میں وہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جو ممکن ہے۔ ’مجھے صرف اپنے بچوں کو اس خوفناک جنگ سے بچانے کی ضرورت ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}