جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

’میں آخری بار اسے ماں پکارتے ہوئے سننا چاہتی تھی‘

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد مارے جانے والوں کی کہانی: ’میں آخری بار اس کے منھ سے مجھے ماں پکارتے ہوئے سننا چاہتی تھی، مگر سن نہیں پائی‘

Victims
،تصویر کا کیپشن

میانمار بغاوت: احتجاج کے بعد مارے جانے والے نوجوان

سیاسی بنیادوں پر قید ہونے والوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم، اسسٹنٹ ایسوسی ایشن، کے مطابق فروری میں میانمار کی فوج کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے سے لے کر اب تک 700 سے زیادہ افراد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ بی بی سی نے اس عرصے میں ہلاک ہونے والے تین افراد کے اہلِ خانہ سے بات کی ہے۔

جیسا کہ میانمار میں مارشل لا کے بعد تشدد جاری ہے اس لیے اس کریک ڈاؤن سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

مرنے والوں میں سے کچھ افراد نے مارشل لا کے خلاف ہونے والے احتجاجوں میں حصہ لیا تھا جبکہ کئی ایسے بھی تھے جنھیں اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے مار دیا گیا، ان میں بچے بھی شامل ہیں۔

تین خاندانوں نے ہمارے ساتھ اپنی کہانی شیئر کی ہے۔

وہ نوعمر لڑکی جو جمہوریت کے لیے ٹِک ٹاک پر گیت گاتی تھی

14 سالہ پان ای فیو جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی بہت بڑی حامی تھیں اور انھوں نے ٹِک ٹاک پر بہت سی ویڈیوز بنائیں جن میں وہ جمہوریت کے حق میں گاتی تھیں۔

ان کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کی والدہ ٹینڈ سان انھیں گلی میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے لیے نہیں جانے دیتی تھیں۔ لیکن وہ ان کی زندگی بچانے کے لیے کافی نہیں تھا۔

پان ای کو ان کے گھر کے اندر مارا گیا۔ یہ اس وقت ہوا جب وہ 27 مارچ کو ان مظاہرین کے لیے اپنے گھر کا دروازہ کھولنا چاہتی تھیں جو فوجی کریک ڈاؤن سے بچ کر بھاگ رہے تھے۔

یہ ملک میں مارشل لا کے بعد سب سے تباہ کن دن تھا جب 11 بچوں سمیت 114 افراد ہلاک ہوئے۔

ان کی والدہ ٹنڈا نے روتے ہوئے بتایا کہ ’وہ اچانک گر گئی اور میں نے سوچا کہ وہ پھسل گئی ہے۔ لیکن پھر جب میں نے اس کی پشت پر خون دیکھا تو مجھے پتہ چلا کہ اسے گولی ماری گئی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

Pan Ei Phyu

،تصویر کا ذریعہCourtesy of families

،تصویر کا کیپشن

پان ای فیو کو 27 مارچ کو ان کے گھر کے اندر گولی ماری گئی۔ وہ میانمار میں مارشل لا کے بعد سب سے ہلاکت خیز دن تھا

برمی زبان میں مان کا مطلب پھول اور ای کا مطلب نرم اور فی کا مطلب سفید ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میری بیٹی جب پیدا ہوئی تو ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ بالکل ایک نرم ملائم پھول کی مانند۔ اس لیے میں نے اسے یہ نام دیا۔‘

وہ یاد کرتے ہوئے بتانے لگیں کہ کیسے ان کی بیٹی گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور پھر جب وہ بڑی ہوئی تو اس کا خواب تھا کہ وہ ایک یتیم خانہ بنائے۔

وہ کہتی ہیں کہ مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی میری بچی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے بغیر میں مر جانا چاہتی ہوں۔

ٹنڈہ کہتی ہیں کہ پان کی موت نے ان کے چھوٹے بیٹے پر بھی بہت گہرا اثر ڈالا ہے۔

’جس دن اس کی بہن کو مار دیا گیا، وہ اس رات سو نہیں پایا اور رات بھر اس کی ٹِک ٹاک ویڈیوز دیکھتا رہا۔‘

اس خاندان نے وہ گھر چھوڑ کر اب کہیں اور رہائش اختیار کر لی ہے کیونکہ ٹنڈا کو خدشہ ہے کہ کہیں کچھ مزید برا نہ ہو جائے۔

Presentational grey line

بی بی سی نے مارشل لا کے بعد ہلاک ہونے والے کچھ لوگوں کی فہرست تیار کی۔

Please activate Jacascript to see the graphic

Presentational grey line

سنار بننے کی تربیت لینے والا ایک کھلنڈر سا لڑکا

Zin Min Htet

،تصویر کا ذریعہCourtesy of families

،تصویر کا کیپشن

زن اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے

زِن مِن ہٹٹ اپنے دوستوں کی مدد کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

ان کے ساتھی کو سائی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چاہے وہ مالی طور پر کتنی ہی مشکل میں ہوتے وہ پیسوں اور اس کے علاوہ جو بھی ہو سکتا اس سے دوستوں کی مدد کرتے تھے۔‘

جب آٹھ مارچ کو انھیں گولی لگی تو ان کی عمر 24 برس تھی اور وہ مارشل لا کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی صفِ اوّل میں شامل تھے۔ ان کے پاس اور کچھ نہیں بس ایک شیلڈ تھی جس کےذریعے وہ مظاہرین کی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جن ان کی والدہ ڈا اوہن ما نے سنا کہ ان کے بیٹے کو گولی لگی ہے وہ بھاگتی ہوئی ہسپتال پہنچیں۔

بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ میں آخری بار اس کے منھ سے مجھے ماں پکارتے ہوئے سننا چاہتی تھی۔ مگر سن نہیں پائی۔ وہاں ہر طرف خون ہی خون تھا۔ میں اسے دیکھ کر برداشت نہیں کر پائی۔ وہ زرد ہو چکا تھا اور ٹھنڈا تھا۔ اس کا بہت سارا خون بہہ چکا تھا۔‘

وہ کہنے لگیں ’میں کیا کہہ سکتی ہوں؟ یہ بہت ظلم اور بربریت ہے۔‘

’میں صرف اتنا جانتی تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے مجھے اس کی لاش کو گھر واپس لیجانا ہے۔‘

Zin Min Htet

،تصویر کا ذریعہCourtesy of families

،تصویر کا کیپشن

زِن مِن ہٹٹ اپنی والدہ کے ہاتھ کے بنے کھانے بہت پسند کرتے تھے اور اکثر دوستوں کو بھی گھر دعوت پر بلا لیتے تھے

زِن مِن ہٹٹ تین سال سے سنار بننے کی تربیت لے رہے تھے وہ اپنی ماں کے سب سے چھوٹے اور اکلوتے بیٹے تھے۔

انھیں یاد کرتے ہوئے ان کی والدہ نے بتایا کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ جلد ازجلد پیسے کما کر انھیں گھر خرید کر دے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’وہ خوش رہنے والا انسان تھا، اس نے کبھی مجھے غصہ نہیں دلایا یا مجھے اداس کیا۔ اسے میرے ہاتھ کا پکایا کھانا بہت پسند تھا۔ وہ کچھ اور کھانے سے انکار کرتا اور اپنے دوستوں کو اکثر گھر دعوت پر بلاتا تھا۔‘

زن مِن ہٹٹ کی والدہ بتاتی ہیں ’جس دن وہ مارا گیا اس روز اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ وہ کام پر جا رہا ہے۔‘ ان کی والدہ نے ایک روز پہلے ہی انھیں مظاہروں پر جانے سے منع کیا تھا۔

مگر وہ کہتی ہیں کہ کم ازکم ان کا بیٹا وہی کرتے ہوئے ہلاک ہوا جو وہ چاہتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے اپنے بیٹے پر فخر ہے، وہ ہیرو تھا، اس میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔‘

رکشہ ڈرائیور، جسے اس کی بیوی کے سامنے گولی ماری گئی

People show banners of Hein Htut Aung's photo after he was killed

،تصویر کا ذریعہCourtesy of families

،تصویر کا کیپشن

ہین ہٹٹ کی ہلاکت پر سوگ منایا گیا

28 فروری کو ہین ہٹٹ آنگ اور ان کی اہلیہ ما زین مر مارشل لا کے خلاف احتجاج مظاہرے کی جانب جا رہے تھے۔ مارشل لا کے خلاف احتجاج میں جانے کی ان کی عادت سی بن چکی تھی اور وہ روز کام سے واپسی پر وہاں جاتے تھے۔

وہ احتجاج میں شرکت کے لیے بس سے سفر کرتے تھے لیکن فائرنگ کی وجہ سے بس رک گئی اور مسافروں کو اترنا پڑا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’اسے اس وقت گولی مار دی گئی جب ہم سڑک عبور کررہے تھے۔ ہم سے کچھ فاصلے پر مظاہرین سڑک کو خاردار تاروں سے بند کر رہے تھے۔‘

’وہ درد سے چلایا اور میں نے اس کے سینے پر خون دیکھا۔ میں نے اس سوراخ کو کنٹرول کرنے اور دبانے کی کوشش کی۔‘

انھیں ہسپتال لیجایا گیا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔

Protest in Myanmar

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہین ہٹٹ انگ موٹر سائیکل رکشہ چلا کر روزی کماتے تھے اس لیے اردگرد سب لوگ انھیں جانتے تھے۔

’وہ بہت سادہ انسان تھا۔ پرامن طریقے سے رہنے والا جو بہت زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ وہ بس اپنے فون پر فارغ وقت میں گیمز کھیلتا تھا۔ وہ جو کچھ بھی ایمانداری سے اپنا کام کرکے کماتا اس رقم کو اپنے خاندان کی دیکھ بھال پر خرچ کرتا تھا۔‘

جنوبی ڈاگون کے ٹاؤن شپ ایئریا میں پانچ سال قبل آئن لائن ملنے کے بعد اس جوڑے نے شادی کر لی تھی اور وہ ایک ’پرسکون زندگی‘ گذار رہے تھے۔

’ہم ہر جگہ اکھٹے جاتے تھے، میں اس کی کمی محسوس کرتی ہوں۔‘

ماں زن مار اب کہتی ہیں کہ وہ مارشل لا کے خاتمے تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گی۔

’میں ان خاندانوں کے لوگوں کی قدر کرتی ہوں جنھوں نے اس مقصد کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی۔ میں ان سے کہنا چاہوں گی کہ وہ مضبوط رہیں۔ میرے احساسات بھی ان جیسے ہی ہیں کیونکہ میں نے اپنا شوہر کھویا ہے۔‘

’مگر ہم رک نہیں سکتے، ہم اب واپس نہیں لوٹ سکتے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو زیادہ اموات ہوں گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.