شمالی کوریا میں میزائلوں کی آزمائش: ملک کے رہبر اعلیٰ کم جونگ اُن چاہتے کیا ہیں؟
- روپرٹ ونگفیلڈ ہیز
- بی بی سی نیوز، ٹوکیو
کم جونگ اُن ملک کی سالانہ آمدن کا پانچواں حصہ فوج پر خرچ کرتے ہیں
شمالی کوریا نے ایک بار پھر میزائل ٹیسٹ شروع کر دیے ہیں لیکن اس بار جاپان میں ابھی تک اس پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
2017 اگست کی ایک شام جاپانی شہری سائرن کی آواز سن کر ہڑبڑا اٹھے تھے جب شمالی کوریا نے بغیر کسی پیشگی وارننگ کے ایک دور تک مار کرنے والے میزائل کا ٹیسٹ کیا جو جاپان کے اوپر سے گزرتا ہوا بحرہ الکاہل میں جا گرا تھا۔ شمالی کوریا کا یہ قدم بہت دلیرانہ تھا۔
اس بار شمالی کوریا نے ابھی تک کم رینج والے میزائل ہی فائر کیے ہیں جو جاپان سے دور سمندر میں جا کر گرے ہیں۔ ابھی تک کم جونگ اُن تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن انھیں مطلوبہ نتائج نہ ملے تو ان کی یہ پالیسی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔
کم جونگ اُن کیا چاہتے ہیں؟
اگر آپ کسی فوجی ماہر سے بات کریں تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ شمالی کوریا جوہری ہتھیاروں کے ذریعے مکمل تحفظ کی تلاش میں ہے۔
جنوبی کوریا کے سابق نیول کمانڈر کم ڈونگ یپ کہتے ہیں کہ انھیں اس کی توقع تھی۔
’ہمیں حیرت اس لیے ہوتی ہے کہ ہم شمالی کوریا کی ٹیکنالوجی کو کمتر سمجھتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انھیں مشکلات کا سامنا ہے۔ حقیقت میں شمالی کوریا اپنی فوجی طاقت کو ہماری توقعات سے زیادہ تیزی سے بڑھا رہا ہے۔’
شمالی کوریا نے پانچ اور دس جنوری کے ٹیسٹوں کے بعد یہ دعویٰ کیا کہ اس نے ہائپرسونک گلائیڈ وہیکل (ایچ جی وی) کا کامیابی سے تجربہ کیا ہے۔
یہ کیوں اہم ہے؟
شمالی کوریا کا یہ دعویٰ کہ اس نے ہائپرسونک گلائیڈ میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کا مقصد امریکہ اور جاپان کے دفاعی میزائل سسٹم کو مات دینا ہے۔
پروفیسر کم ڈانگ یوپ کے مطابق شمالی کوریا دشمن کے دفاعی میزائل سٹسم کو ناکارہ کرنا چاہتا ہے۔ ’شمالی کوریا ایک بچھو کی دم جیسا دفاعی نظام چاہتا ہے۔’
ایک بچھو اپنے دفاع اور حملے کے لیے اپنی دم کا استعمال کرتا ہے۔
شمالی کوریا نے پانچ اور دس جنوری کو اس ہائپر سونک گلائیڈ وہیکل کا کامیاب تجربہ کیا
پروفیسر کم کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کا مقصد حملہ کرنا نہیں بلکہ اپنے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
شمالی کوریا پر نظر رکھنے والوں کی اکثریت کی رائے بھی یہی ہے۔
لیکن شمالی کوریا کی جوہری اور روایتی فوجی صلاحیت ابھی تک امریکہ اور جنوبی کوریا کے حملے کی صورت میں موثر دفاع کی ضمانت فراہم نہیں کرتی۔ امریکہ اور جنوبی کوریا دونوں کہتے ہیں کہ وہ شمالی کوریا پر حملہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن اس کے باوجود یہ چھوٹا اور غریب ملک اپنی سالانہ آمدن کا پانچواں حصہ دفاع پر کیوں خرچ کر رہا ہے؟
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ساتھ منسلک انکت پانڈا کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شمالی کوریا کے حمکرانوں کو یقین نہیں کہ ان کی فوجی صلاحیت ان کے دفاع کے لیے کافی ہے۔
’کم جونگ اُن اپنے آپ کو ہمیشہ غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں کم جونگ اُن چین اور روس سمیت کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرتے اس لیے شاید انھیں اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانا چاہتے ہیں۔’
جنوبی کوریا کی یونیورسٹی ڈانگسیو میں پروفیسر برائن آر میئرز کے مطابق شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کے مقاصد بہت بڑے ہیں۔
پروفیسر برائن سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا اپنے جوہری اسلحے اور میزائل پروگرام کے بل بوتے پر جنوبی کوریا سے ایسے امن معاہدے پر بات چیت کے خواہاں ہے جس کے تحت امریکی فوجی جنوبی کوریا سے نکل جائے جس کے بعد وہ جنوبی کوریا کو اپنا محکوم بنا لے۔
لیکن فی الحال شمالی کوریا کے سامنے ایک اور مقصد ہے۔
شمالی کوریا چاہتا ہے کہ اس کے جوہری اور میزائل پروگرام کی وجہ سے اس پر اقوام متحدہ نے جو پابندیاں عائد کر رکھی ہیں وہ ختم کر دی جائیں۔ شمالی کوریا کو یہ بھی معلوم ہے اس کے لیے اسے امریکی انتظامیہ سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔
شمالی کوریا ماضی میں واشنگٹن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے ہمیشہ بحران کا سہارا لیتا رہا ہے۔ کچھ ماہرین کی نظر میں شمالی کوریا اب بھی یہی کر رہا ہے۔
جنوبی کوریا کی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزی بورڈ کے ممبر پروفیسر کمِ یونگ جُن سمجھتے ہیں: ’یہ ایک اشارہ ہے۔‘
پروفیسر کم یونگ جُن کا کہنا ہے کہ کم جونگ اُن امن کی کوشش سے پہلے اپنے زیادہ سے زیادہ میزائل ٹیسٹ کرنا چاہتے ہیں۔
’وہ جو بائیڈن کو بات چیت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ اگر مقصد یہی ہے تو کمِ جونگ اُن کو شاید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے۔ جو بائیڈن آج کل یوکرین کے مسئلے میں بہت مصروف ہیں۔‘
اس کے علاوہ جو بائیڈن اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے برعکس شمالی کوریا سے بات چیت میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔
انکت پانڈا کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کی قیادت اپنے آپ کو ایجنڈے پر لانے میں مہارت رکھتی ہے۔ ’لیکن جو بائیڈن کم جونگ اُن کو ایک ’جابر حکمران‘ کہہ چکے ہیں اور ان سے بات چیت کے لیے جو بائیڈن کو سیاسی فاہدہ ملنے کا بھی امکان نہیں ہے۔
’لہذا میرے خیال میں جو بائیڈن کسی بڑے بحران کی صرورت میں شمالی کوریا کی طرف متوجہ ہوں گے۔‘
شمالی کوریا کے مقامی ذرائع ابلاغ پر میزائلوں کی یہ تصاویر شائع کی گئی ہیں جن کے ٹیسٹ کیے گئے
اگر یہ سب کچھ جانا پہچانا لگتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔
ہم نے 2010 میں دیکھا کہ شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی نیوی کی ایک کشتی کو ڈبو دیا تھا اور چند ماہ بعد اس نے جنوبی کوریا کے کچھ جزائر پر بمباری شروع کر دی تھی۔
پھر ہم 2017 میں دیکھا کہ شمالی کوریا نے جاپان کے اوپر سے دور تک مار کرنے والے میزائل فائر کیے اور گوام میں امریکی اڈے پر حملے کی دھمکیاں دیں۔ شاید ہمیں آنے والے مہینوں میں ایک بار پھر ایسی کارروائیاں دیکھنے کو ملیں۔
انکت پانڈا سمجھتے ہیں کہ بحران کی جانب بڑھنے کا امکان موجود ہے۔
’شمالی کوریا چاہتا ہے کہ امریکہ اسے سنجیدگی سے لے۔ وہ ایک چھوٹا ملک ہے لیکن اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ امریکی صدر اس حقیقت کو تسلیم کرے.‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے شمالی کوریا کی خواہشات کے جلد پورے ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘
Comments are closed.