جیو اور جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن پرائیوٹ پراپرٹی کیس سے بری ہوگئے جس کا فیصلہ جاری کردیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج اسد علی نے 20 صفحات پر مشتمل بریت کا فیصلہ جاری کیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ثبوت نہ ہونے کے سبب ریفرنس کا ٹرائل جاری رکھنا لاحاصل مشق ہوگی، ضبط کی جانے والی تمام کیس پراپرٹی سائلین کو واپس کی جائے۔
اس میں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریکارڈ پر اعانت جرم کا ذرا برابر بھی ثبوت نہیں۔
عدالت نے فیصلے میں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن، شریک ملزمان ہمایوں فیض رسول، میاں بشیر کو الزام سے بری کیا جاتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا تو اعانت کا جرم کیسے ثابت ہوسکتا ہے، ڈی جی ایل ڈی اے کو سمری بھیجنے میں ہمایوں فیض، بشیر احمد کے خلاف بےایمانی کا ثبوت نہیں ہے۔
اس میں کہا گیا کہ شریک ملزمان ہمایوں فیض، بشیر احمد پر مالی فائدہ حاصل کرنے کا بھی الزام نہیں، ڈی جی ایل ڈی اے کو سمری بھیجنے سے کرپشن یا کرپٹ پریکٹس کا جرم نہیں بنتا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اس کیس کا شکایت کنندہ اس علاقے کا رہائشی نہیں ہے، شکایت کنندہ کے کسی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اسے متاثرہ فریق نہیں کہہ سکتے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کے 9 گواہوں کی شہادت ریکارڈ ہوچکی جبکہ ماسٹر پلان بھی ریکارڈ پر آچکا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ میر شکیل الرحمٰن نے زائد الاٹ ہوئی زمین کے لیے پیسے ادا کر دیے تھے، نو ریکوری سرٹیفکیٹ تمام واجبات کی ادائیگی کے بعد ہی جاری ہوتا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی اس سرٹیفکیٹ کے لیے ایک بار بھی درخواست مسترد نہیں ہوئی۔
عدالتی فیصلے میں نیب کے اس کیس کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ شریک ملزمان کے خلاف جرم کی نیت کی کوئی شہادت نہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس میں نومبر 2020ء میں ضمانت منظور کی:
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں نومبر 2020ء میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایڈیٹر انچیف جنگ جیو میر شکیل الرحمٰن کی 34 سال پرانےنجی پراپرٹی کیس میں ضمانت منظور کی تھی۔
درخواست ضمانت کیس کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا تھا کہ یہاں لاء افسروں کو بھی اضافی زمین اسی قیمت پرملی، انکےخلاف نیب کامقدمہ بنا؟
میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے موکل پر قومی خزانے کو ایک پینی کا بھی نقصان پہنچانے کا الزام نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک ہی دن وارنٹ جاری کیے اور اسی روز منظوری دی گئی، نیب نےسابق ڈی جی ایل ڈی اے،ڈائریکٹرلینڈ سمیت کوئی ملزم گرفتار نہیں کیا۔
جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ یہ بہت افسوس ناک کہانی ہے، کیا صوبے کو کوئی نقصان ہوا؟
وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ایل ڈی اے میر شکیل الرحمٰن کے خلاف شکایت کنندہ ہے نہ اس نے کوئی کارروائی کی،اس جگہ ایل ڈی اے سے نقشہ منظور کروا کے مکان بنایا،ایل ڈی اے نے واجبات نہیں مانگے، الزام لگایا 4 کنال12 مرلے اضافے زمین کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق نہیں دی۔
انہوں نے کہا کہ اضافی زمین کی قیمت 1987 میں ادا کردی گئی تھی، 34 سال بعد نوٹس جاری کرکے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان پر گلیاں پلاٹ میں شامل کرنے کا الزام ہے جس پر وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ جن کو یہ گلیاں کہتے ہیں یہ وہی اضافی لینڈ ہے، اس وقت 1986 میں گلیاں تھیں ہی نہیں، کھیت کھلیان تھے، ماسٹرپلان1990میں منظورہوا،1987 میں گلیاں پلاٹ میں ڈالنےکا الزام کیسےلگایا جاسکتا ہے؟
جسٹس یحییٰ نےنیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ میرشکیل نے جو دستاویزات دکھائیں یہ درست ہیں یا غلط؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میر شکیل الرحمٰن کی دستاویزات درست ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پھر سوال کیا کہ بتائیں پھر آپ نے دوسرے لوگوں پر نیب کا ریفرنس کیوں نہیں بنایا؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مارکیٹ ریٹ کا تعین بعد میں کیا گیا۔
جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اس وقت کسی اور سے بھی مارکیٹ پرائس لی گئی؟ کیا آپ نے کسی اور کو بھی نوٹس دیا کہ وہ اضافی رقم دے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ریکارڈ سے ایسا ثابت نہیں ہوتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پھر سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ کیا ہم اس درخواست ضمانت پر فیصلہ جاری کریں؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے نیب پراسیکیوٹر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوگا آپ درخواست ضمانت کی مخالفت نہ کریں۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم لکھ کر دے دیتے ہیں کہ درخواست ضمانت کی مخالفت نہیں کرتے۔
کیس کا پس منظر:
میر شکیل الرحمٰن نے 1986ء میں لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں 54 کنال پرائیویٹ پراپرٹی خریدی، اس خریداری کو جواز بنا کر نیب نے انہیں 5 مارچ کو طلب کیا۔
میر شکیل الرحمٰن نے اراضی کی تمام دستاویزات پیش کیں اور اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا، 12 مارچ کو نیب نے دوبارہ بلایا اور وہ انکوائری کے لئے پیش ہوئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
آئینی اور قانونی ماہرین کے مطابق اراضی کی دستاویزات کی جانچ پڑتال کے دوران اُن کی گرفتاری بلا جواز تھی، کیونکہ نیب کا قانون کسی بزنس مین کی دوران انکوائری گرفتاری کی اجازت نہیں دیتا۔
لاہور ہائیکورٹ میں دو درخواستیں، ایک ان کی ضمانت اور دوسری بریت کے لئے دائر کی گئی، عدالت نے وہ درخواستیں خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ مناسب وقت پر اسی عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.