’میں نے قبول کر لیا تھا کہ میں مر سکتا ہوں‘
میں نے کابل میں پرورش پائی، میں ایک اچھا باکسر تھا اور خود کو فِٹ رکھنا کے لیے دوڑتا بھی تھا۔ میں نے اپنی تعلیم مکمل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یونیورسٹی بھی جانا چاہتا تھا لیکن میرا خاندان بہت غریب تھا اور مجھے ان کی مالی مدد بھی کرنی تھی۔میری پانچ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ میرے خاندان کو بھوک کا سامنا تھا اور میرے والد ملازمت کرنے کے قابل نہیں تھے۔اسی لیے 18 برس کی عمر میں میں نے بطور مترجم برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ میں نے سکول میں انگریزی پڑھی تھی اور مجھے اس زبان پر عبور حاصل ہو گیا تھا۔برطانوی فوج، افغان فورسز اور سویلینز کی بات چیت ایک دوسرے کو سمجھانا میری ذمہ داری تھی، میں یہ کام بخوبی انجام دیا کرتا تھا۔پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا میں افغان صوبے ہلمند جانا پسند کروں گا اور میں نے جواب میں ہاں کہہ دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ مجھے یہ بات قبول کرنا پڑے گی کہ میں وہاں مر بھی سکتا ہوں۔وہاں صورتحال کسی جہنم جیسی تھی، روز حملے ہو رہے تھے اور لوگ مر رہے تھے، لیکن میں ڈرا ہوا نہیں تھا۔مجھے وہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تقریباً دو برس ہو چکے تھے کہ اچانک ایک دن گشت کے دوران میں نے حادثاتی طور پر ایک بم پر پاؤں رکھ دیا۔ اس دھماکے نے مجھے آسمان کی طرف اچھال دیا اور پھر میں زمین پر آ گرا۔ میں سوچ رہا تھا کہ جیسے میں مر رہا ہوں لیکن وہ سب ایک خواب کی مانند تھا۔میرے پورے چہرے میں کیلیں پیوست ہو چکی تھیں اور میرے پورے 28 دانت جھڑ گئے تھے۔میری سانس رُک رہی تھی لیکن میں اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر گلے سے ایک کیل نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور پھر مجھے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وہاں سے کابل لے جایا گیا جہاں میں نے فوج کے ایک ہسپتال میں کومہ میں دو ہفتے گزارے۔،تصویر کا ذریعہWALI NOORI
’میں سمجھا کہ میری زندگی ختم ہوگئی‘
ڈاکٹرز کو میرے زندہ بچنے کی امید نہیں تھی۔ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میں بالکل بھی بولنے کے قابل نہیں تھا اور اسی لیے میں نے اپنا نام ایک کاغذ پر لکھا تاکہ وہاں موجود عملہ میرے دوست سے رابطہ کر سکے اور میرے خاندان تک میرا پیغام پہنچ سکے۔جب وہاں پہلی مرتبہ میرے والد اور والدہ مجھ سے ملاقات کے لیے آئے تو میں بمشکل اُٹھ کر بیٹھا تاکہ انھیں میری حالت زیادہ خراب نہ نظر آئے۔ میں نے ان کے لیے مسکرانے کی بھی کوشش کی لیکن میں اس وقت بھی کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔مجھے اس کے بعد بگرام ایئر بیس منتقل کیا گیا جہاں امریکیوں نے میرا علاج کیا اور ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑیں۔ سانس لینے میں مدد دینے کے لیے میرے گلے میں ٹیوب لگائی گئی تھی۔۔میں نے وہاں تقریباً مہینہ گزارا اور پھر اپنی آنکھوں کا علاج کروانے کے لیے انڈیا اور پاکستان بھی گیا لیکن میری بینائی واپس آنا اب ناممکن تھی۔یہ سب میرے لیے آسان نہیں تھا بلکہ وہ میری زندگی کے تاریک ترین دن تھے۔ مجھے بھاگنا دوڑنا بہت پسند تھا لیکن میں اس وقت سوچ رہا تھا کہ میرے بھاگنے دوڑنے کے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔میں غیر شادی شدہ تھا اس لیے میں افغانستان میں ہی مقیم اپنے خاندان والوں کے پاس چلا گیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنی زندگی کیسے گزاروں گا اور میں سوچ رہا تھا کہ اب مجھ سے کوئی شادی نہیں کرے گا۔لیکن 2012 میں میری شادی ہو گئی۔ اس دن سے لے کر آج تک میری ایلیہ میری سب سے بڑی سپورٹر ہیں۔ انھوں نے میری سفید چھڑی پھینک دی اور کہا کہ ’میں آپ کی چھڑی ہوں۔‘وہ ایک بہت مہربان خاتون ثابت ہوئیں اور جب بھی میں اداس ہوتا تو وہ کہتیں: ’میں ہوں نہ آپ کے پاس۔‘ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے گھر تین بچوں کی ولادت ہوئی۔،تصویر کا ذریعہWALI NOORI
’شہزادہ ہیری سے ناقابلِ یقین ملاقات‘
میں کام کرنا چاہتا تھا لیکن افغانستان میں رہتے ہوئے یہ ممکن نہیں تھا۔ حادثے کے بعد برطانوی فوج نے مجھے ایک برس کی تنخواہ دی تھی لیکن میں پھر بھی پریشان تھا کیونکہ افغانستان معذور لوگوں کے لیے ایک اچھی جگہ نہیں ہے۔پھر 2014 میں مجھے برطانوی حکومت نے بتایا کہ میں اپنے خاندان سمیت برطانیہ منتقل ہونے کا اہل ہوں۔ ہمیں کولچسٹر پہنچنے میں تقریباً دو برس لگے اور پھر اس کے بعد ہم نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔مجھے یہاں رہنا بہت پسند ہے، یہ بہت اچھی جگہ ہے جہاں میں نے اچھے دوست بھی بنا لیے ہیں۔ میرے رننگ کلب کا نام کولچسٹر ہیریرز ہے اور ہم یہاں بہت محفوظ ہیں۔کلب کے پاس گائیڈ رنرز تھے اور مجھے یہاں اندازہ ہوا کہ میں دوبارہ بھاگ سکتا ہوں، دوڑ سکتا ہوں۔ اسی سبب مجھ میں آزادی کا احساس مزید بڑھا اور میری ذہنی صحت میں بھی بہتری آئی۔میں نے تقریباً پانچ برس انتظار کیا اور گذشتہ برس میں نے انوکٹس گیمز میں فخر کے ساتھ برطانیہ کی نمائندگی کی۔ میں نے 100 میٹر، 200 میٹر، 400 میٹر اور 1500 میٹر کی ریس میں چار گولڈ میڈلز جیتے۔میں نے پرنس ہیری اور میگھن سے ملاقات کی، وہ بہت گرمجوشی اور دوستانہ انداز میں مجھ سے ملے۔ہیری نے مجھ سے مصافحہ کیا، مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔ میں نے پوچھا ’آپ کون ہیں؟‘ اور انھوں نے جواب دیا ’میں شہزادہ ہیری ہوں۔‘ہم ایک ساتھ بیٹھ کر ہنسے اور آپس میں گفتگو بھی کی۔ وہ میری زندگی کا ایک ناقابلِ یقین لمحہ تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’میں نابیناپن کے سامنے کبھی نہیں جُھکوں گا‘
میں اب تک ریسنگ کے مقابلوں میں 21 اور تیراکی کے مقابلوں میں تین میڈلز جیت چکا ہوں۔ میں زندگی میں کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھنا چاہتا بلکہ صرف آگے ہی بڑھنا چاہتا ہوں۔میرا خواب ہے کہ میں پیرالمک مقابلوں میں حصہ لوں۔ میں ان مقابلوں کے لیے کوالیفائی کر چکا تھا لیکن وقت پر اپلائی نہیں کر سکا۔ لیکن ایک دن میں وہاں تک ضرور پہنچ جاؤں گا۔میں چاہتا ہوں کہ تمام چھ بڑے میراتھن مکمل کرلوں، لندن میراتھن میں میں 2019 میں حصہ لے چکا ہوں۔میں نے ابھی اپنی زندگی پر ایک کتاب مکمل کی ہے جو کہ 12 ستمبر کو چھپ کر آ جائے گی۔ میں سکول، کالجوں میں جاتا ہوں اور دیگر سابق فوجیوں کے مختلف گروپس میں بھی اٹھتا بٹیھتا ہوں اور ان کے ساتھ اپنی کہانی شیئر کرتا ہوں۔ حال ہی میں نے ان فوجیوں سے بھی ملاقات کی ہے جو یوکرین میں زخمی ہوئے تھے۔ان تقاریر کے جو مجھے پیسے ملتے ہیں وہ میں افغانستان بھیج دیتا ہوں تاکہ بیواؤں اور یتیم بچوں کی مدد ہو سکے۔،تصویر کا ذریعہWALI NOORI
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.