’میری پیاری کیٹی‘: وہ خط جو ایک سو سال بعد اپنی منزل پر پہنچا

خط

یہ چھ فروری 1916 کی تاریخ تھی جب ’میری پیاری کیٹی‘ کے نام ایک انتہائی نجی نوعیت کا خط بذریعہ پوسٹ ارسال کیا گیا۔ لیکن کسی وجہ سے یہ خط ان تک نہیں پہنچ سکا۔

تقریبا 100 سال بعد یہ خط اس پتے پر پہنچا جہاں کبھی کیٹی رہا کرتی تھیں۔ یہ برطانیہ میں جنوبی لندن کے ناروڈ علاقے میں کرسٹل پیلس نامی عمارت کا ایک اپارٹمنٹ تھا۔

2021 میں جب فنلے گلین نے اسی پتے پر یہ خط وصول کیا تو انھوں نے دیکھا کہ اس پر برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کی تصویر والا پوسٹ سٹیمپ چپساں تھا جس کی قیمت ایک برطانوی پینی تھی۔

گلین کا کہنا ہے کہ ’ظاہر ہے کہ ہم بہت حیران ہوئے اور سوچ میں پڑ گئے کہ ایک خط سو سال سے کیسے اس طرح گھومتا رہا۔‘

برطانوی پوسٹل سروس، دی رائل میل، نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک ان کو بھی یہ علم نہیں ہو سکا کہ ایسا کیسے ہوا۔

کوئی نہیں جانتا کہ ایک خط، جو اس وقت ارسال کیا گیا جب پہلی جنگ عظیم جاری تھی اور برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم کو تخت نشین ہوئے پانچ برس بیت چکے تھے، اتنے سال تک کیسے پتے پر نہیں پہنچ پایا۔

تجسس

برطانیہ میں سنہ 2000 میں منظور ہونے والے پوسٹل سروسز ایکٹ کے تحت اگر خط آپ کے نام پر نہیں تو اس کو کھولنا جرم ہے۔

تاہم گلین کا کہنا ہے کہ ان کو ایسا کرنا مناسب لگا جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ خط 1916 کا ہے، 2016 کا نہیں۔

27 سالہ تھیٹر مینیجر کا کہنا ہے کہ ’اگر میں نے کوئی جرم کیا ہے تو میں صرف معافی مانگ سکتا ہوں۔‘

خط

،تصویر کا ذریعہFINLAY GLEN

یہ بھی پڑھیے

یہ خط ’میری پیاری کیٹی‘ کے نام لکھا گیا تھا جو ایک سٹیمپ ڈیلر اوسوالڈ مارش کی اہلیہ تھیں۔

ناروڈ ریویو نامی مقامی میگزین کے مدیر سٹیفن اوکسفورڈ کے مطابق اوسوالڈ مارش اپنے کام کی وجہ سے کافی معروف تھے اور ان کو اکثر سٹیمپ فراڈ کیسوں میں بطور ماہر بلایا جاتا تھا۔

یہ خط لکھنے والی کرسچابل مینیل تھیں جو ایک مقامی تاجر ہینری ٹیوک مینیل کی بیٹی تھیں اور اس وقت برطانیہ کے جنوب مغرب میں چھٹیاں منا رہی تھیں۔

ماضی کی ایک جھلک

اس دریافت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ناروڈ ریویو نامی مقامی میگزین کے مدیر سٹیفن اوکسفورڈ نے کہا کہ ’یہ کافی غیر معمولی ہے اور خوشگوار بھی کیوں کہ یہ ہمیں مقامی تاریخ کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے کیوں کہ ناروڈ کا علاقہ متمول لوگوں میں سنہ اٹھارہ سو کے بعد سے کافی مقبول رہا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کرسٹل پیلس میں امرا کی بڑی تعداد رہائش پذیر رہی۔

خط

،تصویر کا ذریعہTHE ANNUAL MONITOR

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر خط بھجوانے والے یا پھر جن کے نام خط بھجوایا گیا میں سے کسی کے رشتہ داروں نے ان سے رابطہ کیا تو وہ کیا کریں گے، تو گلین نے کہا کہ ’یہ ان کی خاندانی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے اور اگر وہ چاہتے ہیں تو آ کر اسے وصول کر سکتے ہیں۔‘

رائل میل کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ’اس طرح کے واقعات بہت شازونادر ہوتے ہیں اور ہم ٹھیک سے نہیں جانتے کہ اس کیس میں کیا ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ لوگ 1916 کے اس خط کی کہانی سے کافی حیرت زدہ ہیں لیکن ہمارے پاس فی الحال اس بارے میں کوئی نئی معلومات نہیں ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ