بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’میری ماں کو شراب کی لت تھی اور یہ ہمارے خاندان کا سب سے بڑا راز تھا‘

’میری ماں کو شراب کی لت تھی اور یہ ہمارے خاندان کا سب سے بڑا راز تھا‘

Becky and her mum

شراب نوشی کے عادی والدین کے ساتھ بڑا ہونے سے بچوں پر کئی صورت میں بے پناہ اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ الکوحل کے عادی افراد کے بچوں کے ڈپریشن اور سکول میں مشکلات کے شکار ہونے اور گھر میں استحصال اور تشدد کا نشانہ بننے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بیکی ایلس ہیملٹن کی طرح کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ بالغ ہونے کے بعد بھی اب تک اپنے والدین کی شراب نوشی سے متاثر ہوئے ہیں۔

یہ سنیچر کی رات تھی اور 13 سالہ بیکی اپنی والدہ پیٹ کی مدد کر رہی تھیں تاکہ وہ باہر جانے کے لیے تیار ہو سکیں۔ پیٹ اپنی زیادہ تر ہفتہ وار تعطیلات اسی سڑک پر واقع اپنے پارٹنر کے گھر پر گزارتیں اور بیکی کو ان کی نانی کے ساتھ گھر پر چھوڑ جایا کرتیں۔

باتھ روم میں پیٹ ٹوائلٹ کی سیٹ پر بیٹھی تھیں اور بیکی ان کی آنکھوں میں کونٹیکٹ لینس ڈال رہی تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے آہستگی سے اپنی والدہ کی آنکھوں پر آئی شیڈو لگایا اور انھیں پھر ایک گلابی لپ سٹک لگائی۔

بیکی کہتی ہیں: ’مجھے اس وقت جو بھی اچھا لگتا میں ان کا میک اپ ویسے ہی کر دیا کرتی اور وہ بھی اسی کے ساتھ چلی جاتیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

بیکی کہتی ہیں کہ پیٹ لمبی اور خوبصورت تھیں اور اپنی 53 سال کی عمر سے کہیں زیادہ نوجوان نظر آتیں۔ اس رات وہ کافی اچھے موڈ میں تھیں اور ہنسنے، مذاق کرنے اور مستیاں کرنے میں مصروف تھیں۔

مگر بیکی کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں ان کے ساتھ کافی خراب موڈ میں ہوتی تھی۔ میں نہایت بے چین تھی۔ میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی کہ ’مجھے پتا ہے کہ آپ شراب پیتی رہی ہیں، مگر جب آپ نے طویل عرصے سے شراب نہیں پی تو پھر اب کیوں؟‘

مگر انھوں نے کچھ نہیں کہا اور میک اپ مکمل ہونے کے بعد پیٹ نے بیکی کو الوداعی بوسہ دیا اور چلی گئیں۔

Short presentational grey line

بہت چھوٹی عمر سے ہی بیکی جانتی تھیں کہ ان کی والدہ شراب نوشی کرتی ہیں بھلے ہی پیٹ نے ان کے سامنے کبھی نہیں پی تھی اور نہ ہی اس حوالے سے کبھی بات کی تھی۔

بیکی کو اب بھی وہ بُو یاد ہے جو ان کی والدہ کے گرد ہوتی، وہ بُو جو گذشتہ رات دُھت ہو جانے والے کسی شخص کے مساموں سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور بیکی کہتی ہیں کہ کئی بار تو یہ صاف دیکھا بھی جا سکتا تھا۔

’آپ واضح طور پر دیکھ سکتے تھے۔ وہ بس بدل گئی تھیں۔ یہ ایسا تھا کہ جیسے ہی انھوں نے شراب پینی شروع کی وہ ایک طرح سے دور ہوگئیں۔‘

پیٹ پورے گھر میں ووڈکا کی بوتلیں چھپا دیتیں، گدے کے نیچے، باتھ روم کی الماری میں تولیوں کے درمیان اور کموڈ کی ٹنکی کے اندر بھی۔ وہ چھپ کر پیا کرتیں اور سات میں سے پانچ دن تک بھاری مقدار میں شراب پیتی تھیں۔ چنانچہ اگر بیکی کو کبھی بھی ان کی والدہ کی چھپائی ہوئی شراب ملتی تو وہ اس میں سے شراب بہا دیتیں، اس میں پانی بھر دیتیں، اور پھر اسے دوبارہ اسی جگہ رکھ دیتیں۔ مگر دونوں نے کبھی بھی اس حوالے سے بات نہیں کی۔

پیٹ اپنی نوجوانی میں

پیٹ اپنی نوجوانی میں

بیکی کے خاندان میں ان کی والدہ کی شراب نوشی سے متعلق ایک ان کہا قاعدہ تھا کہ اس حوالے سے کسی سے بات نہیں کرنی۔

بیکی کہتی ہیں: ’میں نہیں چاہتی تھی کہ میری والدہ کے لیے کوئی مشکل پیدا ہو۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر کسی کو پتا چلا تو وہ مجھے وہاں سے لے جائیں گے اور میں جانتی تھی کہ میری والدہ کو میری ضرورت ہے۔ ان کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری تھی اور اگر میں وہاں نہیں ہوتی تو میری دادی اس صورتحال سے نمٹ نہ پاتیں۔‘

بیکی نے اپنے قریب ترین دوستوں کو بھی نہیں بتایا تھا کہ اُن کے گھر میں کیا ہو رہا ہے اور وہ اپنے دوستوں کو رات رکنے کے لیے صرف ہفتے کے اختتام پر بلاتیں جب ان کی والدہ گئی ہوئی ہوتیں۔

وہ کہتی ہیں: ’یہ ایک طرح کی حکمتِ عملی تھی۔ یہ ایسا انتظام تھا جس پر بات نہیں کی گئی تھی مگر یہ سب کے لیے موزوں تھا۔‘

درحقیقت وہ واحد لوگ جن سے بیکی نے کبھی شراب نوشی کے اس مسئلے کے بارے میں بات کی تھی وہ ان کی نانی اور ان کی سوتیلی بہنیں تھیں جو پیٹ کی پہلی شادی سے بیٹیاں تھیں۔ وہ بیکی سے کہیں زیادہ بڑی تھیں اور علیحدگی کے بعد والد کے ساتھ رہتی تھیں۔

’مجھے لگتا ہے کہ میری نانی شرمندہ تھیں، والدہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے جڑی بدنامی کی وجہ سے۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ میری والدہ کے ساتھ کیا کرنا چاہیے اور جیسی مدد آج موجود ہے، ایسی تب نہیں ہوا کرتی تھی۔‘

’میری ماں عادی شرابی تھیں اور یہ بہت بڑا راز تھا۔‘

Presentational grey line

شرابیوں کے بچوں کا ہفتہ

ایک عالمی مہم ہے جس کا مقصد والدین کی شراب نوشی کی عادت سے بچوں پر ہونے والے پوشیدہ اثرات کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے۔

بین الاقوامی طور پر یہ ہفتہ منایا جاتا ہے اور اس سال یہ 14 سے 20 فروری کے درمیان منایا جا رہا ہے۔

Presentational grey line

بیکی پیٹ کے پریشان کُن رویے کی عادی ہوچکی تھیں۔ اپنی والدہ کو الٹیاں کرتے یا بے ہوش دیکھنا غیر معمولی بات نہیں تھی۔

اس کے علاوہ وہ مایوس ہونے کی بھی عادی ہو چکی تھیں۔ ایک شام وہ اور ان کی نانی انڈرویئرز کی دکان پر کام کرنے والی پیٹ کو کام سے لینے کے لیے گئیں تاکہ کرسمس کی روشنیاں دیکھنے جائیں، مگر بیکی کا جوش اس وقت تحلیل ہوگیا جب انھوں نے اپنی والدہ کی آنکھوں میں دیکھا اور اُنھیں گفتگو میں اٹکتے ہوئے دیکھا۔

کبھی کبھی جب ان کی نانی بِنگو کھیل رہی ہوتیں تو بیکی سکول کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ اکیلی رہ جاتیں اور ان کا دھیان شراب سے دور رکھنے کے لیے جو کر سکتیں، کیا کرتیں۔

’میں مسلسل فکرمند رہتی اور ہر وقت کسی مشکل کے لیے تیار رہتی کیونکہ ایک مرتبہ وہ شراب پی لیتیں تو بس مجھے ہوشیار رہنا پڑتا اور پوری رات ان کا خیال رکھنا پڑتا۔‘

اگر پیٹ کو معلوم پڑتا کہ گھر میں شراب نہیں ہے تو وہ بیکی سے کہتیں کہ وہ دکان تک اُن کے ساتھ چلیں۔

بیکی

تقریباً چھ سالہ بیکی ایک ٹرپ پر اپنی والدہ پیٹ کے ساتھ

’ہم واپسی کے آدھے راستے میں ہوتے تو وہ کہتیں، ’ارے میں کچھ بھول گئی، تم یہیں رکنا‘ اور میں جان جاتی کہ وہ الکوحل کے لیے واپس جا رہی ہیں۔

جب پیٹ شراب کے نشے میں دھت ہوتیں تو رویا کرتیں اور بیکی کو کہتیں کہ وہ صرف محبت چاہتی ہیں، اور پھر اُن تمام بری باتوں کو یاد کرتیں جو اُن کے ساتھ ہوئی تھیں۔ بیکی بیٹھ کر انھیں سنتیں اور اپنی والدہ کو تسلی دیتیں کو وہ ان سے محبت کرتیں ہیں۔ رات کافی ہوجاتی اور بیکی اپنی والدہ کو سونے پر مائل کرنے کی کوشش کرتیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم اپنی نانی کے گھر رہتے تھے تو میں اور میری والدہ ایک ہی بیڈروم میں رہتے، اس لیے مجھے ان کے ساتھ بستر میں جانا اور تب تک انتظار کرنا ہوتا تھا جب تک وہ سو نہیں جاتی تھیں۔ اس کے بعد میں راہداری میں چپکے سے جاتی اور اپنی بہن کو فون کرتی۔‘

پر اگر پیٹ اُٹھ جاتیں اور انھیں یہ احساس ہوتا کہ بیکی وہاں نہیں ہیں تو وہ ناراض ہوجاتیں۔

’وہ رونا شروع کر دیتیں اور کہنے لگتیں کہ ’تم مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔ تم مجھے چھوڑ دو گی۔‘ اور پھر مجھے بستر میں واپس جا کر انھیں سلانے کی کوشش کرنی پڑتی۔‘

بالآخر یا پیٹ سو جاتیں یا پھر شراب کے نشے کے باعث غنودگی میں چلی جاتیں۔ پر اگر رات کافی ہوجاتی اور وہ تھکی ہوئی ہوتیں تب بھی بیکی خود سونے میں کافی پریشانی کا سامنا کرتیں۔ انھیں وقتاً فوقتاً یہ دیکھنے کے لیے اپنی والدہ کے چہرے کے سامنے ایک آئینہ رکھنا پڑتا کہ وہ سانس لے رہی ہیں یا نہیں۔

Short presentational grey line

شراب نوشی میں گزرنے والی رات کے بعد ابھی اُن میں سے بو آ رہی ہوتی لیکن پیٹ پھر بھی ایسے ظاہر کرتیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔

بیکی کہتی ہیں کہ ’اگر گذشتہ رات کچھ ڈرامائی ہوا ہوتا یا انھوں نے مجھے ناراض کیا ہوتا یا میرے ساتھ کچھ غلط کیا ہوتا، تو وہ مجھے گلے سے لگاتیں۔ یہ ان کا یہ اعتراف کرنے کا طریقہ تھا کہ انھوں نے کچھ غلط کیا ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کے بغیر۔ صاف کہوں تو یہ نہایت عجیب تھا۔ وہ بالکل ایک مختلف شخص کی طرح نظر آتیں۔‘

بیکی کہتی ہیں کہ جب پیٹ نشے سے باہر آجاتیں تو وہ ’سب سے زبردست اور پرفیکٹ والدہ‘ ہوتیں۔ ’نہایت رحمدل، مذاقیہ اور خوش مزاج۔‘ اور پھر ایسے دور آتے جب وہ شراب نوشی کافی کم کر دیا کرتیں۔ مگر چاہے وہ بحالی کے کلینکس میں کتنا بھی وقت گزارتیں (بیکی کو بتایا جاتا کہ ان کی والدہ ’ایک دوست کے پاس رہنے جا رہی ہیں‘) یا شراب سے دور رہنے کی جتنی بھی کوشش کرتیں، مگر پیٹ اُن چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں جس کی وجہ سے انھوں نے اپنا علاج خود کرنا شروع کر دیا تھا۔

بیکی

دو سالہ بیکی اپنی والدہ کی گود میں بیٹھی ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے سوتیلی بہنیں موجود ہیں

’جب وہ نشے میں ہوتیں تو وہ مجھے بتاتیں کہ کیسے (اُن کے بچپن میں) انھیں کیسے استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اور انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ کس نے کیا تھا۔ اُس کا تعلق ہمارے خاندان سے ہی تھا۔‘

کبھی کبھار پیٹ کے لیے چیزیں اتنی مشکل ہوجاتیں کہ وہ سب کچھ ختم کرنے کی کوشش کرتیں۔ بیکی کو یاد ہے کہ ان کے بچپن میں تین مرتبہ خودکشی کی کوشش کی گئی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ نے ممکنہ طور پر کئی کوششیں کی ہوں گی۔

وہ کہتی ہیں: ’امی بس مایوسی تک پہنچ جاتیں۔ مجھے یقین ہے کہ اُنھوں نے مزید کوششیں کی ہوں گی۔‘

ایک شام جب بیکی کافی چھوٹی تھیں اور شاید پانچ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں، تب ان کی سوتیلی بہنیں آئی ہوئی تھیں اور بیکی کے والد باہر گئے ہوئے تھے۔

’امی نے پینی شروع کر دی، نشے میں دھت ہوگئیں اور پھر بڑی تعداد میں گولیوں کے ساتھ گُم ہوگئیں۔ ہم انھیں تلاش نہیں کر پائے سو میری بہنیں میرے والد کو تلاش کرنے کے لیے نکل گئیں۔ اس کے بعد مجھے یاد ہے کہ انھوں نے مجھے میری گڑیا کی پرام میں ڈال دیا اور میرے والد کہنے لگے، ’اسے اپنی نانی کے پاس لے جاؤ‘ اور ہم اندھیرے میں گھر تک پیدل گئے اور وہاں ایک ایمبولینس دیکھی۔

پیٹ کو پارک کی ایک بینچ پر پڑا ہوا پایا گیا تھا اور انھیں فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ جب انھیں ڈسچارج کیا گیا تو کسی نے بیکی کو نہیں بتایا کہ کیا ہوا تھا اور نہ ہی کسی نے اس حوالے سے بات کی۔

ویسے تو ان کے والدین کی شادی زیادہ عرصہ نہیں چلی اور ان کی والدہ نے مکمل طور پر شراب نوشی ترک نہیں کی تھی مگر جب بیکی 13 سال کی ہوئیں تو لگنے لگا تھا کہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں۔ پیٹ کو ایک نیا اور اچھا پارٹنر مل گیا تھا اور وہ اب اتنی شراب نہیں پی رہی تھیں، بلکہ صرف ہفتہ وار تعطیل کے دن برائن کے گھر پر ہی پیتی تھیں۔

بیکی کہتی ہیں کہ ’مجھے اس دور میں ان کے حوالے سے کافی خوشگوار باتیں یاد ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اس شخص سے ملی ہوں، وہ ایسا بندہ تھا جو میری والدہ، میرے اور میری نانی کے بارے میں دل سے خیال کرتا تھا اور انھیں کوشش کرنے کی وجہ فراہم کرتا تھا۔‘

کسی اچھے دن جب پیٹ شراب نہ پینے میں کامیاب ہوجاتیں تو وہ اپنی ڈائری پر درست کا نشان لگا لیا کرتیں۔

’ہم اس حوالے سے بات نہیں کرتے تھے مگر مجھے وہ پڑھنا اور 10 تک گننا یاد ہے، اور یاد ہے کہ میں کتنی خوش تھی کہ امی بہتر ہو رہی ہیں۔ میں نے سوچا کہ ’ہاں، انھیں حل مل گیا ہے۔‘

مگر پھر کچھ تبدیل ہو گیا۔ ڈائری میں ان کے درست کے نشان سوالیہ نشانوں میں تبدیل ہونے لگے۔ پیٹ نے پھر سے شراب پینی شروع کر دی تھی۔

Short presentational grey line

سنیچر کی اُس رات جب بیکی نے اپنی والدہ کا میک اپ مکمل کیا تو پیٹ برائن کے گھر روانہ ہو گئیں۔ بیکی کہتی ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ انھوں نے راستے میں مزید شراب پی ہوگی کیونکہ برائن نے انھیں سو جانے کے لیے کہا اور خود اکیلے باہر نکل گئے تھے۔

اگلی صبح شاید چھ یا سات بجے فون کی گھنٹی بجی اور بیکی کو اُن کی نانی نے جگایا۔

وہ مسلسل چِلا رہی تھیں: ’بیکی! اٹھو، تمہاری ماں نے اپنے آپ کو ختم کر لیا ہے۔ اٹھو! تمہاری ماں نے اپنے آپ کو ختم کر لیا ہے۔‘

بیکی گھر سے باہر نکل کر برائن کی طرف بھاگیں۔ وہ گلی میں اس وقت رک گئیں جب انھوں نے ایمبولینسیں دیکھیں۔ انھوں نے کوئی جوتے نہیں پہنے تھے اور اپنے رات کے لباس میں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کسی خواب کی طرح تھا، مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ ہونے والا ہے۔ میں خود کو اس کے لیے تیار کر رہی تھی۔‘

بیکی بتاتی ہیں کہ پیٹ برائن کے فلیٹ میں بے ہوش ہو گئی تھیں اور ان کے اندرونی عضو فیل ہوگئے جس کی وجہ سے وہ ’تقریباً فوراً ہی‘ ہلاک ہوگئی تھیں۔

پیٹ کے خون میں شراب کی انتہائی بلند مقدار ریکارڈ کی گئی تھی اور پوسٹ مارٹم میں ان کی موت کو حادثاتی قرار دیا گیا۔

بیکی کہتی ہیں ’یہ سننے میں بہت برا لگتا ہے مگر آپ اس سے تھوڑے بے حس ہوجاتے ہیں کیونکہ آپ کو بچپن سے ہی اس حوالے سے بہادری دکھانی پڑتی ہے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے آپ کو اب چیزیں محسوس ہی نہیں ہوتیں۔ یہ افسوسناک ہے مگر میری حقیقت یہی ہے۔‘

پیٹ، برائن

پیٹ نے برائن سے ملنے کے بعد شراب نوشی کم کرنے کی بے حد کوشش کی

مقامی اخبار سکنتھورپ ٹیلیگراف نے جلد ہی پیٹ کی موت کے بارے میں ایک خبر شائع کی۔

بیکی کہتی ہیں کہ ’میرے کسی بھی دوست کو ان کی موت تک ایک بھی بات معلوم نہیں تھی مگر اس کی وجہ سے میں اس حالت میں آ گئی جہاں مجھے یہ مجبوراً یقین کرنا پڑا کہ یہ ہمارا بہت بڑا راز تھا جسے میں بس عام چیز سمجھتی تھی۔‘

جب وہ سکول گئیں تو ہر کسی کو اس بارے میں معلوم تھا۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے تنگ کیا گیا اور میں نے اپنی والدہ اور اُن کی موت کے بارے میں کئی شرمناک لطیفے سنے، اور لوگوں کو کہتے سنا کہ یہ سب میری غلطی ہے۔‘

’میری والدہ جا چکی تھیں، میں اپنی شناخت مکمل طور پر کھو چکی تھی۔ یہ خفیہ زندگی جو میں جی رہی تھی اور جن حالات سے میں گزر رہی تھی، وہ سب ختم ہو چکا تھا۔ ہر کسی کو سب کچھ معلوم تھا اور مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں۔‘

بیکی کہتی ہیں کہ انھیں ان کے سکول سے منظّم انداز میں مدد نہیں ملی۔

وہ بتاتی ہیں: ’میرے ایک ٹیچر تھے جنھوں نے ایک روز مجھے ایک جانب لے جا کر پوچھا کہ کیا چل رہا ہے، چنانچہ وہی تھے جن کے پاس میں افسردہ ہونے پر جایا کرتی تھی۔‘

جس دن بیکی ریاضی کی کلاس میں جذباتی طور پر بکھر گئی تھیں اس دن اُن ٹیچر کو درحقیقت معلوم ہوا کہ کیا چل رہا ہے۔ یہ ان کی والدہ کی پہلی برسی تھی مگر بیکی کو صرف ایک سننے والے ہمدرد سے کہیں زیادہ کی ضرورت تھی۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیسے نمٹنا ہے یا کیا کرنا چاہیے۔ میں اس سب کو سمجھ نہیں پا رہی تھی، یہ بہت برا تھا۔‘

’سب کچھ میری والدہ کا خیال رکھنے کے گرد گھوم رہا تھا اور اب وہ جا چکی تھیں۔‘

Short presentational grey line

اب اس سب کو کئی سال گزر چکے ہیں اور بیکی اب بھی اپنی والدہ کو کھونے کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ وہ اس ’زہریلی خاموشی‘ کے بارے میں بے چین ہیں جو پیٹ کے بچپن میں استحصال اور بعد میں ان کی شراب نوشی کی لت کو گھیرے ہوئے تھی۔ مگر وہ کسی کو بھی قصوروار نہیں ٹھہراتیں۔

بیکی کہتی ہیں کہ ’یہ اس وقت کی نسل کا رویہ تھا۔ اگر آپ ایسی چیزوں کے بارے میں بات کیا کرتے تو آپ کے خاندان کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔‘

بیکی سوچتی ہیں کہ کاش انھوں نے اپنی والدہ سے بات کی ہوتی یا ان کے لیے کہیں سے مدد تلاش کی ہوتی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’شاید مجھے ایک افسوس ہے کہ میں نے نہیں کیا۔ اس وقت میں اس کی ہمت نہیں کر سکی کیونکہ میرے ذہن میں یہ بات بٹھا دی گئی تھی کہ اگر میں نے ان سے بات کی تو یہ مزید خراب ہوگا۔ پر اگر میں نے خاندان سے باہر کسی سے بات کی ہوتی تو شاید مجھے ان سے بات کرنے کی ہمت ملتی اور شاید بات چیت ہی وہ چیز تھی جس کی ضرورت تھی۔‘

بیکی

بیکی اور اُن کے شوہر جے

پیٹ کی موت کو اب 18 سال گزر چکے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت لوگوں کے گرد ہونے سے بیکی اب بھی بے چینی محسوس کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں بہت ڈر جاتی ہوں اور پھر میں بہت کنٹرول کرنے لگتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ مجھے ماں کا وہ کردار نبھانا چاہیے۔ میں آرام نہیں کر پاتی یا ان کی دیکھ بھال کرنے سے خود کو روک نہیں پاتی، میں انتہائی خبردار ہوجاتی ہوں۔‘

دو سال قبل بیکی کے بوائے فرینڈ جے ان کی شادی کے موقعے پر شراب کے ساتھ خوشی منا رہے تھے۔

بیکی کہتی ہیں ’اور تب مجھے احساس ہوا کہ اس نے کیسے مجھے بے چین کیا اور میرا اگلا دن برباد ہوا۔‘

جے نے تب سے اب تک شراب نہیں پی ہے۔ بیکی بتاتی ہیں کہ ’وہ زبردست ہیں‘ اور گذشتہ نومبر سے بیکی نے بھی شراب نوشی مکمل طور پر چھوڑ دی ہے۔ ویسے تو وہ اتنی زیادہ نہیں پیا کرتی تھیں مگر ان کے ذہن میں کہیں یہ خوف تھا کہ کہیں وہ بھی اپنی والدہ کی طرح نہ ہوجائیں۔

اپنی والدہ کی موت کے کچھ ہی عرصے بعد بیکی میں بائی پولر ڈس آرڈر کی تشخیص ہوئی اور ویسے تو انھوں نے ہمیشہ دوائیں لی ہیں مگر وہ اپنا خیال نہیں رکھ رہی تھیں۔ پھر دو سال قبل جے سے اپنی شادی کے موقع پر انھیں یہ احساس ہوا کہ انھیں اپنے ڈپریشن اور اپنی بچپن کے صدموں سے نمٹنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔

اپنی ریسرچ کے ذریعے انھوں نے ایسی تنظیمیں ڈھونڈ نکالیں جو شراب نوش والدین کے بچوں کو مدد فراہم کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے لگتا تھا کہ صرف مجھے ہی کموڈ کی ٹنکی میں سے ووڈکا کی بوتلیں ملتی ہیں اور پھر مجھے یہ کمیونٹی ملی، میں نے ان لوگوں سے بات کی جو اسی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ اس سے میرے سینے سے بوجھ ہٹ گیا۔‘

بیکی کے پاس اب ایسے لوگوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے جن سے وہ بات کر سکتی ہیں، جو ان کے بچپن کے تجربات کے بارے میں ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں ایک نیا مقصد ملا ہے کہ وہ شراب کے عادی لوگوں کو بحالی کے سفر میں مدد فراہم کرنے کے لیے ٹریننگ دیں۔

بیکی کہتی ہیں کہ ’میں نے خود کو پا لیا ہے اور میرے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔‘

’میری ماں شاید چاہتی ہوں کہ میں وہ کروں جس سے مجھے خوشی ملے، اور مجھے ان کی طرح کے لوگوں کی مدد کرنے سے خوشی ملتی ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.