بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’میری زندگی وہ نہیں جو سستے اخباروں میں چھپنے والی خبروں میں دکھائی جاتی رہی ہے‘

ہنٹر بائیڈن کا نشے کی لت سے متعلق جواب: ’میری زندگی کوئی اخبار نہیں ہے‘

ہنٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن نے اپنی شراب نوشی اور نشے کی لت سے متعلق ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی زندگی وہ نہیں جو ‘سستے اخباروں میں چھپنے والی خبروں میں دکھائی جاتی رہی ہے‘۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میرا تعلق کسی انتظامیہ سے نہیں۔ میرا تعلق ایک خاندان سے ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ وہ اس بات کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں کہ انھوں نے ایک ایسی خبر بنا دی جو کسی بھی ہوش مند انسان کو اخبار کی ’سنسنی خیز شہ سرخی‘ لگے گی۔

ہنٹر بائیڈن نے خود پر اور اپنے والد کے کام ہونے والی جانچ پڑتال کا بھی ذکر کیا، جس کا سامنا انھیں یوکرین میں ایک توانائی کمپنی کے ساتھ ملازمت کے دوران ہوا۔

ہنٹر بائیڈن برسیما نامی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں شامل تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے والد جو بائیڈن امریکی نائب صدر کے عہدے پر تھے۔ جو بائیڈن، اوبامہ انتظامیہ میں امریکہ اور یوکرین کے درمیان ایک اہم ثالث کا کردار بھی ادا کر رہے تھے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا ہے کہ محکمہ انصاف کے طرف سے ان کے خلاف جاری تحقیقات سے یہ بات سامنے آجائے گی کہ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔

یہ بھی پڑھیے

ہنٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تنقید کا نشانہ

یوکرین میں ہونے والے کاروباری سودوں کی وجہ سے انھیں اکثر والد کی حریف جماعت رپبلکن پارٹی کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ نہ صرف گذشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں بلکہ صدر ٹرمپ کے مواخذے کے دوران بھی ان پر تنقید ہوتی رہی۔

صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات کا مرکز ان کی یوکرین کے صدر کے ساتھ ہونے والی ٹیلیفون کال تھی۔ جس سے یہ تاثر ملا کہ انھوں نے یوکرینی صدر پر بائیڈن خاندان کے خلاف تحقیقات شروع کرنے پر زور دیا۔

صدر ٹرمپ کی اس فون کال سے تھوڑی دیر پہلے انھوں نے یوکرین کو ملنے والی فوجی امداد روک دی تھی۔

ہنٹر بائیڈن کہتے ہیں کہ توانائی کا کاروبار کرنے والی کمپنی برسیما میں ملازمت کے لیے جو تعلیمی قابلیت درکار تھی وہ اس پر پورا اترے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب اگر وہ اس بارے میں سوچتے ہیں تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اس بات کا بخوبی اندازہ نہیں ہوا کہ اس ملازمت سے دنیا کو کیا تاثر ملے گا۔

اکیاون برس کے ہنٹر بائیڈن کہتے ہیں ’مجھے پتا ہے کہ اس بات پر یقین کرنا مشکل ہو گا کہ میں نے اس بارے میں نہیں سوچا، خاص طور پر جب آپ یہ سوچیں کہ 2020 کے الیکشن آنے والے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ برسیما کمپنی کے لیے ان کا نام ’سونے‘ جیسا تھا اور اس چیز نے ان کی بورڈ آف ڈائریکٹر کے طور پر تعیناتی میں بہت بڑا کردار ادا کیا۔

اگرچہ بائیڈن خاندان پر لگنے والا کوئی بھی الزام ابھی تک ثابت نہیں ہوا، سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک سینیئر اہلکار نے 2015 میں اس حوالے سے کانفلکٹ آف انٹرسٹ یعنی کہ ’مفادات کا تصادم ‘ کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے تھے۔

رپبلکن قانون دانوں کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں گذشتہ برس یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہنٹر بائیڈن کی یوکرینی کمپنی میں ملازمت ’پریشان کن‘ صورتحال تھی۔ لیکن یہ انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ اس سے کسی طرح سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ امریکی خارجی پالیسی پر اس سے کوئی اثر پڑا۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بائیڈن خاندان نے جو بائیڈن کے نائب صدر ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

ہنٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی ریاست یوٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر اور صدر ٹرمپ کے سخت ناقد مٹ رومنی نے اس رپورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سیاسی تماشہ ہے۔

ہنٹر بائیڈن اس بات کو مانتے ہیں کہ ان کے والد کے نام کی وجہ سے ان کے لیے وہ دروازے کھلے جو کہ عام انسانوں کہ لیے بند ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ استحقاق کے ساتھ ساتھ ایک بوجھ بھی ہے۔

سی بی ایس کی جانب سے جب ان سے محکمہ انصاف کی طرف سے جاری تحقیقات کے بارے میں پوچھا گیا تو امریکی صدر کے بیٹے نے جواب دیا:

’میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہوں۔ اور مجھے یقین ہے، سو فیصد یقین ہے کہ اس کے اختتام کے ساتھ ہی یہ ثابت ہوجائے گا کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘

امریکی میڈیا کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس تفتیش کا تعلق ہنٹر بائیڈن کے چین سمیت دوسرے ممالک سے کاروباری سودوں سے متعلق ہے۔

ہنٹر بائیڈن کی سوانح عمری ’بیوٹیفل تھنگز‘ کچھ ہی عرصے میں شائع ہونے والی ہے، اس حوالے سے انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پیار کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے جو کہ انھیں ان کے خاندان نے دیا اور جس سے ان کی زندگی بچی۔

وہ کہتے ہیں ’آپ کو پتا ہے ہم اس وقت دو وباؤں سے گزر رہے ہیں، ایک وبا کا نام کورونا وائرس ہے اور دوسری وبا کا نام نشہ ہے۔‘

جو بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

جو بائیڈن کی اہلیہ نیلیہ بائیڈن اور ایک سالہ بیٹی کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے

اندھیرا، صرف اور صرف اندھیرا

سنہ 1972 میں ایک کار حادثے میں ہنٹر بائیڈن کی والدہ اور ان کی بہن ہلاک ہو گئی تھیں۔۔۔۔ ہنٹر اور ان کا بھائی بچ گئے تھے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے اس صدمے اور اپنی نشے اور شراب کی لت کے بارے میں بات کی۔

وہ کہتے ہیں ’نشے کے عادی افراد میں ایک چیز مشترک ہے، ان کے اندر ایک ایسا خلا ہوتا ہے جس کے بارے میں وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں اسے پر کرنا ہے۔ اس خلا کو کوئی بھی چیز پر نہیں کرسکتی، تو پھر آپ اپنے آپ کو بے حس بنا لیتے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ 2015 میں ان کے بھائی کی وفات کے بعد وہ بہت گہرے ذہنی صدمے میں چلے گئے تھے۔

وہ کہتے ہیں ’میرے بھائی کی موت واقع ہو گئی، میری اپنی بیوی سے علیحدگی ہو گئی، میں اپارٹمنٹ میں اکیلا تھا اور میں اتنی شراب پی رہا تھا کہ جیسے میں اور زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ یہ بہت برا وقت تھا۔ آپ شدت غم سے عجیب و غریب کام کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اگر آپ کو نشے کی لت بھی لگ جائے تو یہ پھر ایسی چیز بن جاتی ہے جس پر قابو پانا واقعی مشکل چیز ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی نشے کی لت نے جہاں انھیں اخبارات کی شہ سرخیوں اور سیاسی جنگ کا مرکز بنا دیا وہیں ملک میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو سمجھ سکتے تھے کہ ان پر کیا بیت رہی ہے۔

ہنٹر کہتے ہیں ’میرے خیال میں لوگ بائیڈن خاندان کو اپنے خاندان جیسا سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ ہمارے ساتھ ہونے والے حادثات اور ان میں جو کچھ ہم نے کھویا۔۔۔ اس غم کو سمجھتے ہیں۔ لیکن انھیں اس میں پیار اور مخلصی بھی نظر آتی ہے۔ اور میرے خیال میں انھیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا خاندان ان کے خاندان یا دوسرے بہت سے خاندانوں سے مختلف نہیں ہے۔‘

ہنٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’امید بھری کہانی‘

صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن کے درمیان صدارتی انتخابات کے دوران ہونے والے پہلے عوامی مباحثے کی تیاری کرتے وقت ان کی نشے کی عادت کا ذکر ہوا۔ ہنٹربائیڈن کہتے ہیں کہ مجھے اور میرے والد کو پہلے ہی پتا تھا کہ اس کا کیا جواب دینا ہے۔

’میں نے کہا کہ ڈیڈ، آپ کو پتا ہے، یہ ہماری کہانی ہے۔ اور یہ کہانی ہے پیار کی۔ اور امید کی۔ یہ کہانی یہ ان سینکڑوں لوگوں کی کہانی ہے جو ایسی تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ آپ ان سے بات کریں اور یہ یاد رکھیں کہ میری اور آپ کی ہمارے حالات کے بارے میں ایمانداری ہی امریکی لوگوں تک پہنچے گی۔‘

وہ کہتے ہیں ’یہ کوئی سیاسی جوڑ توڑ نہیں تھا، یہ دل سے نکلی ہوئی بات تھی۔‘

اپنے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہنٹر بائیڈن کہتے ہیں کہ نشے کی عادت کبھی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی لیکن نشے کے عادی بہت سے افراد نے زندگی میں آگے جا کر بہت زبردست اور عظیم کام کیے ہیں۔

’وقت آگیا ہے کہ ہم نشے کی عادت کو سماجی یا اخلاقی مسئلے کے نظریے سے نہ دیکھیں بلکہ اسے ذہنی صحت کے مسئلے کے طور پر سمجھنا شروع کریں۔‘

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا صدر بائیڈن 82 برس کی عمر میں دوسری بار صدارتی انتخابات میں حصہ لیں گے تو ان کا کہنا تھا:

’میرے والد ذہنی اور جسمانی طور پر مجھ سے زیادہ جوان ہیں۔ میں ایسے کسی اور شخص کو نہیں جانتا جو ان جیسا پرعزم اور پرجوش ہو۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.