’میری بیٹی اس مگر مچھ کو اپنا بھائی کہتی ہے‘: پالتو مگرمچھ جو آسٹریلیا کے انتخابات کا رخ موڑ سکتے ہیں
- مصنف, ٹفانی ٹرن بل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
گھر کے پچھلے صحن میں پالتو مگرمچھ رکھنا کسی آسٹریلوی افسانے کی طرح ہے، جیسے کینگرو پر سوار ہو کر سکول جانا یا انسانوں پر حملہ آور ہونے والے کوالا۔ لیکن آسٹریلیا کے شمالی علاقہ میں یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے۔ ٹریور سلیوان نامی شہری کے گھر پر 11 مگرمچھ ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام ’بِگ جیک‘ ہے۔ اس بھاری بھرکم مگرمچھ کو اب اس گھر کا ایک فرد مانا جاتا ہے۔ آج سے 22 سال پہلے جب سلیوان کے گھر بیٹی کی پیدائش ہوئی تو اُسی دن جیک بھی اس دُنیا میں آئے تھے۔’وہ تب سے ہمارے خاندان کا حصہ رہا ہے۔۔۔ میری بیٹی تو اُسے بھائی کہتی ہے۔‘
اس کے علاوہ 80 ایکڑ پر پھیلی اس رہائش گاہ پر سب کے لیے ہی ایک پُرسکون ماحول میّسر ہے۔ بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے جانور کے لیے۔4.7 میٹر یعنی 15.4 فٹ دیو ہیکل ’شا‘ کے بارے میں سلیوان کہتے ہیں کہ ’اس نے ممکنہ طور پر دو عالمی جنگیں دیکھی ہیں اور شاید 1901 میں آسٹریلیا میں فیڈریشن بھی۔ان کا دعویٰ ہے کہ شا نے ایک بار ایک شخص کو مار ڈالا تھا۔ اسے سائنسی تحقیق کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ اسے ایک پارک میں زہر دے کر مار دیا گیا تھا۔ کچھ سال قبل کوئنز لینڈ کے مگرمچھوں کے ایک فارم میں لڑائی کے دوران اس کے جبڑے کا نچلا حصہ ٹوٹ گیا تھا۔اپنے مگرمچھوں کے بارے میں بی بی سی کو بتاتے ہوئے 60 سالہ سلیوان نے کہا کہ ’ان جیسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔ جیسے موٹر سائیکل رکھنے کے شوقین کے افراد کے پاس کوئی انتہائی قیمتی موٹر سائیکل ہو۔ یہ مگر مچھ پالتو جانوروں کے ’ہارلے ڈیوڈسن‘ ہیں۔‘لیکن سنیچر کے روز ہونے والے انتخابات کے پیش نظر اس علاقے میں مگر مچھ کو پالتو جانور کے طور پر اپنے گھر یا قریب رکھنا اب کسی حد تک ناممکن ہو رہا ہے اور اس بات پر الیکشن کے اس موسم میں بہت زیادہ بات ہو رہی ہے۔زندگی گزارنے کے لیے اخراجات میں اضافہ، رہائش اور جرائم یہاں کے بہت سے ووٹروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ لیکن سلیون کا شمار اُن چند افراد میں ہوتا ہے کہ جن کا دل حکمران لیبر پارٹی کی جانب سے مگرمچھوں کو پالتو جانوروں کے طور پر ممنوع قرار دینے کے فیصلے کے بعد دل ٹوٹ گیا ہے۔آسٹریلیا میں یہ وہ آخری یا واحد جگہ ہے کہ جہاں مگر مچھوں کو پالتو جانوروں کے طور پر رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ انسانوں اور رینگنے والے جانوروں دونوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکرمند ہیں۔ تاہم ملک کی لبرل پارٹی کی حزب اختلاف نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ’جلد بازی‘ کے اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesتقریبا ڈھائی لاکھ لوگ شمالی علاقہ یا ناردرن ٹیرٹری کو اپنا گھر تصور کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے نسبتاً کم ہی اپنے گھروں میں مگرمچھ پالتے ہیں۔ وزیر ماحولیات کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اعداد و شمار فراہم نہیں کر سکتے کیونکہ حکومت انتخابات کی نگران میں مصروف ہے۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق مگر مچھ پالنے کے لیے پرمٹ یا اجازت نامہ رکھنے والے افراد کی تعداد تقریباً 100 ہے۔زیادہ تر مگرمچھوں کو اس وجہ سے کُھلے عام رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ وہ پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔سخت شرائط اور قواعد و ضوابط کے طے ہو جانے کے بعد اب یہ بڑا ضروری ہو گیا ہے کہ جانوروں کو کہاں اور کن حالات میں رکھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ہیچلنگ یا چھوٹے جانور صرف شہری علاقوں میں رہ سکتے ہیں تب تک کہ جب تک وہ 60 سینٹی میٹر لمبے نہ ہوں عام طور پر عرصہ تقریبا ایک سال کی کا بنتا ہے یا یوں کہ لیں کے جب تک کہ یہ جانور ایک سال کے نا ہو جائیں۔ جس کے بعد انھیں حکام کے حوالے کیا جانا چاہیے یا شہر کی حدود سے باہر کسی محفوظ مقام پر منتقل کیا جانا چاہیے۔تاہم ان قوانین کے تحت مالکان کو جانوروں کو رکھنے کے لیے کسی خاص تربیت یا علم کی ضرورت نہیں تھی۔
ٹام ہیز کا کہنا ہے کہ مگرمچھ کا مالک ہونا یا انھیں اپنے پاس محفوظ رکھنا ہی اس علاقے کی ایک ایسی خاص اور سب سے مختلف بات ہے کہ جو اسے سب سے منفرد مقام دیتی ہے۔ ’میرے بچوں اور خاندان کے دیگر افراد نے اسی لیے اس علاقے میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔‘ 40 سالہ ٹام اپنے والد کے ساتھ آسٹریلیا کے اس شمالی علاقے کا سفر کرتے ہوئے بڑے ہوئے، دیو قامت مگرمچھوں کے ساتھ دریائے میری میں مچھلیاں پکڑتے، ان شکاریوں (مگرمچھوں) سے محبت کی وجہ بھی وہی وقت بنا اور اب ایک یہ وقت ہے کہ اُن کے پاس اُن کا اپنا مگرمچھ ہے جسے ایک پالتو جانور کے طور پر رکھنے کا اُنھوں نے ایک عرصہ پہلے خواب دیکھا تھا۔ٹیٹو بنانے والے ٹام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں صرف ایک مگرمچھ اس لیے اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی کرتے ہوئے بس اس بات کا احساس دلا سکوں کے میرے پاس ایک مگرمچھ ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’میں تو چاہتا تھا کہ ان کے لیے کوئی ایسی جگہ ہو جہاں یہ پرسکون انداز میں اپنی زندگی آزادی سے گُزار سکیں کہ جہاں انھیں اس بات کو خوف اور خطرہ نہ ہو کہ انھیں کوئی گولی مار دے گا۔‘،تصویر کا ذریعہTom Hayesوہ میگا کروک کو اپنانے کے عمل میں تھے جب آسٹریلیا کے شمالی علاقے کی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ رینگنے والے جانوروں کو پالتو جانوروں کے طور پر رکھنے کے لیے کوئی نیا اجازت نامہ جاری نہیں کرے گی۔حکومت کے اس علان نے ہیز کو ایک عجیب سے مُشکل اور تناؤ کا شکار کر دیا ہے اور جس مگرمچھ کو وہ بچانے کی امید کر رہے تھے، اسے اب اُن سے دور کیا جا رہا ہے۔آسٹریلیا کے شمالی علاقے کی وزیر ماحولیات کیٹ ورڈن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ’عوام سے مشاورت اور اُن سے رائے لینے کے بعد‘ اور ’جانوروں کی فلاح و بہبود اور حفاظت کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ کیا گیا ہے۔موجودہ اجازت نامے تو بحال ہی رہیں گے مگر اب کسی بھی اجازت نامے کی کسی دوسرے فرد کے نام پر منتقلی کی اجازت نہیں ہوگی۔ورڈن نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’یاد رکھیں کہ وہ ایک جنگلی جانور اور ایک ماہر شکاری ہے اور ایسا نہیں ہے کہ جسے بس قید میں رکھا جائے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ اس خطے میں مگرمچھوں کے اپنے مالکان پر حملہ کرنے کی مثالیں موجود ہیں۔ نئے قوانین شمالی علاقے کو آسٹریلیا کی ہر دوسری ریاست اور علاقے جیسا ہی بنا دیا گا، سوائے وکٹوریہ کے جو کھارے پانی کے مگرمچھ کی آرام دہ آب و ہوا سے دور ہے۔ جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کارکنان جو شمالی علاقے میں موجود پالتو جانوروں کے قوانین میں تبدیلی کی کوشش کر رہے تھے انھوں نے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ورلڈ اینیمل پروٹیکشن سے تعلق رکھنے والی اولیویا چارلٹن کہتی ہیں کہ مگرمچھوں کو رکھنے والے کچھ لوگوں کے ارادے اچھے ہو سکتے ہیں لیکن کوئی بھی جنگلی جانور قید میں اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان مگرمچھوں کو جنگل میں جو جگہ اور آزادی حاصل ہوگی، وہ کہیں اور نہیں ہو سکتی۔‘آر ایس پی سی اے این ٹی سے تعلق رکھنے والے چارلس گیلیم نے کہا کہ مگرمچھوں کی خطرناک نوعیت نے حکام کے لیے اس پروگرام کو ریگولیٹ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا انتہائی مشکل بنا دیا ہے کہ رینگنے والے جانوروں کا معیار زندگی اور طبی دیکھ بھال قابل قبول ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر میں صرف ایک جانوروں کے ڈاکٹر کو جانتا ہوں جو مگرمچھوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesلیکن مگرمچھوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے اور اب وہ اس وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہیں کہ اُن کے پالتو جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ہیز کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ آپ کئی راتیں صوفے پر بیٹھ کر بس ٹی وی دیکھتے ہوئے گزریں گی، اپنے ساڑھے چار میٹر لمبے مگرمچھ کے ساتھ گھومتے رہنا ایک اور ہی احساس ہے۔۔۔ لیکن یہ جذباتی وابستگی اب بھی موجود ہے۔‘حزب اختلاف کے ماحولیات کے ترجمان جو ہرسی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’لبرل پارٹی پرمٹ سسٹم کے تحت پالتو جانوروں کے طور پر مگر مچھ رکھنے کی حمایت کرتی ہے‘ اسی کے ساتھ انھوں نے یہ وعدہ کیا کہ پارٹی کی کامیابی کی صورت میں ان نئے قواعد پر غور کیا جائے گا۔ہیز اور سلیوان دونوں نے کہا کہ پرمٹ ہولڈرز کے لیے زیادہ سے زیادہ تربیت اور تعلیم کی ضروریات کے لیے وسیع حمایت موجود ہے۔لیکن ان کا کہنا ہے کہ رینگنے والے جانوروں کی دیکھ بھال کرنا آسان ہے اور ان دلائل کو مسترد کرتے ہیں کہ انھیں پالتو جانوروں کے طور پر رکھنا نقصان دہ اور انتہائی خطرناک ہے۔’جنگلی علاقوں میں ان کے پاس علاقے کا ایک حصہ ہوتا ہے اور پھر انھیں اس پر اپنا قبضہ قائم رکھنے کے لیے دوسرے مگرمچھوں کے ساتھ لڑنا ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ شکار یا اپنی خوراک کی تلاش میں رہتے ہیں، یا اپنے لیے ایک مادہ کی تلاش اور اُسے لبھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’قید میں اگر انھیں ایک اچھا ماحول، پانی، سورج کی مناسب روشنی، سایہ دار جگہ اور باقاعدگی سے خوراک کی فراہمی ہوتی رہے تو یہ کسی پر حملہ نہیں کرتے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesآسٹریلیا کہ شمالی علاقے کے اس قانون کو ختم کرنے کا فیصلہ خاص طور پر سلیون کے لیے تکلیف دہ اور برا وقت ہے۔ انھوں نے گذشتہ سال اپنے گھر اور اپنے پالتو جانوروں کو فروخت کرنے اور نیوزی لینڈ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ اپنے مگرمچھوں کو پُرسکون موت دے سکیں گے۔ ’میں آخری دم تک اب یہاں ہی رہوں گا یا شاید جب تک کوئی مثبت تبدیلی نہیں ہوتی۔‘ان کی امیدیں سنیچر کو سی ایل پی حکومت کے انتخاب پر مرکوز ہیں اور ان کے خیال میں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے رائے دہندگان میں جوش پیدا ہوگا۔لیکن دوسری طرف ہیز کو اُمید ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جن پر ووٹوں کا فیصلہ ہونا چاہیے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.