- مصنف, لٹیشیا موری
- عہدہ, بی بی سی نیوز برازیل
- 43 منٹ قبل
انتباہ: اس تحریر میں تشدد اور جنسی مناظر کی تصویرکشی پر مشتمل تفصیلات موجود ہیں۔جب 34 سالہ انگرڈ ریٹا نے حال ہی میں نیٹ فلکس کے ایک شو ’بلائنڈ میرج‘ میں شوہر کے ہاتھوں ریپ ہونے کا دعوی کیا تو انھوں نے شادی شدہ جوڑوں کی زندگی کے ایک ایسے پہلو پر روشنی ڈالی جو ہماری سوچ سے کہیں زیادہ عام ہے اور بڑھتی ہوئی آگہی کے باوجود خواتین اس معاملے پر بات کرنے سے کتراتی ہیں۔صرف برازیل کی بات کی جائے تو پبلک سکیورٹی فورم کے 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 16 سال سے بڑی 21 فیصد خواتین کو مرضی کے خلاف جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا گیا۔انگرڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹا گرام پر پوسٹ کی جانے والی ایک ویڈیو میں یہ بھی کہا کہ اکثر رات کے وقت ان کی آنکھ اس لیے کھل جاتی کیوں کہ ان کا شوہر ان کے ساتھ جنسی فعل میں مصروف ہوتا۔
انگرڈ کا بیان عوامی سطح پر سامنے آیا تو ان کے شوہر مارسیل نے اپنی سابقہ اہلیہ سے ابتدائی طور پر معافی مانگنے کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کسی مجرمانہ فعل سرزد ہونے سے انکار کیا اور کہا کہ ان پر عائد الزامات بے بنیاد ہیں۔برازیل میں اس معاملے کی سرکاری سطح پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ بی بی سی برازیل نے یہ معاملہ سامنے آنے کے بعد آٹھ خواتین سے بات چیت کی جنھوں نے شوہر یا بوائے فرینڈ کی جانب سے ریپ کی باقاعدہ شکایت درج کروائی تھی۔ان سب خواتین کے مطابق انھیں یہ سمجھنے اور تسلیم کرنے میں وقت لگا تھا کہ ان کے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ ریپ تھا۔43 سالہ کمیلا کو یہ احساس طلاق کے بعد ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ 18 سال کی عمر میں میری شادی ہو گئی تھی اور ’میرا شوہر چھ سال بڑا تھا لیکن میں اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کا رویہ آہستہ آہستہ شدت اختیار کرتا گیا۔‘’مجھے لگا کہ مسئلہ میرے ساتھ ہے کہ میں مخصوص طریقے سے سیکس سے انکار کر رہی تھی، اور یہ کہ میں بات کو غلط طریقے سے دیکھ رہی تھی۔‘
میریٹل ریپ
صدیوں سے رائج ازدواجی تعلق کے بارے میں معاشرتی سوچ یہی ہے کہ عورت کا جسم شوہر کی ملکیت ہوتا ہے اور جنسی تعلق نبھانا ایک ذمہ داری ہے جس میں عورت کو لطف حاصل کرنے کا حق نہیں۔ یہ کہنا ہے رجینا سیلیا کا جو برازیل میں خواتین کے خلاف تشدد پر کام کرنے والی ایک تنظیم کی صدر ہیں۔تاہم برازیل کی قومی پالیسی کے مطابق ’زبردستی، دھمکی، بلیک میل یا کسی اور ایسے طریقے سے جنسی تعلق قائم کرنا جس میں رضامندی شامل نہ ہو، جنسی تشدد شمار ہوتا ہے۔‘ رجینا کے مطابق اس تشریح کا اطلاق شوہر پر بھی ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ برازیل میں جنسی تشدد کی اس تشریح کے مطابق اگر عورت درد محسوس کر رہی ہو تو اس کے ساتھ جنسی فعل کرنا بھی تشدد کے ضمرے میں ہی آتا ہے۔رجینا کہتی ہیں کہ ’شادی کا مطلب اجازت کے بغیر جنسی فعل کا بلینک چیک نہیں ہوتا۔‘سلیوا برازیل کے پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک قسم کے جنسی عمل کی اجازت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کے ساتھ کسی بھی طریقے سے سیکس کیا جا سکتا ہے۔‘رجینا سیلیا بتاتی ہیں کہ ان کی تنظیم کے ادارے میں ایسی خواتین زیر علاج ہیں جنھیں ان کی پرضی اور پسند کے خلاف جنسی عمل کرنے پر مجبور کیا گیا جن میں اورل سیکس سمیت پرتشدد جسنی حرکات شامل تھیں۔ ان خواتین کو ان کی مرضی کے خلاف پورن دیکھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔رجینا کا کہنا ہے کہ خواتین اکثر ایسا دباؤ میں کرنے پر مجبور ہوتی ہیں کیوں کہ دوسری صورت میں انھیں خود پر تشدد ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ تاہم سلویا کے مطابق ایسی صورت حال میں بھی سیکس کو ریپ ہی شمار کیا جائے گا جس میں دباؤ یا ڈر کے تحت عورت بظاہر اپنی مرضی سے ہی اس عمل کا حصہ بنے۔
’وہ نشے میں بلکل الگ انسان ہوتا تھا‘
،تصویر کا ذریعہDaniel Arce-Lopez
’وہ میرے بچوں کا باپ ہے‘
سلویا کا کہنا ہے کہ ایسے کیسز بھی رپورٹ نہیں ہوتے جن میں خواتین تنگ آ کر تعلق ختم کر دیتی ہیں۔رجینا کے مطابق پدرانہ معاشرے میں ایسے جرائم کے بارے میں پولیس کو بتانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین اپنے دوستوں اور خاندان والوں تک سے بات نہیں کرتی ہیں، اس ڈر سے کہ ان کی بات پر یقین نہیں کیا جائے گا۔بی بی سی نے جب خواتین سے بات کی ان میں سے کسی ایک نے بھی پولیس میں شکایت درج نہیں کروائی۔42 سالہ ڈیکوریٹر تھائیس طلاق یافتہ ہیں اور ان کے سابق شوہر سے دو بچے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کو اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر سزا پاتے دیکھنا چاہتی ہیں لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہیں کہ ان کے بچے اپنے باپ کو سلاخوں کے پیچھے دیکھیں۔’میرے شوہر کے بارے میں ایسے الزامات اب میرے گھر والے بھی نہیں مانیں گے کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔‘تھائیس کے لیے بھی یہ تسلیم کرنا مشکل تھا کہ ان کے شوہر نے ان کا ریپ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اسے پورن دیکھنا پسند تھا اور وہ ایسے کام کرنا چاہتا تھا جو مجھے پسند نہیں تھے۔ وہ پورن فلموں میں جو بھی دیکھتا، میرے ساتھ دہرانے کی کوشش کرتا تھا۔‘’ایک دن میری آنکھ کھلی تو وہ مجھے چھو رہا تھا اور ساتھ ساتھ میسٹربیشن یا خود لذتی کر رہا تھا۔ میں نے اس سے جھگڑا کیا تو اس نے معافی مانگی لیکن پھر ایک دن میری آنکھ کھلی جب وہ ایک کھلونے سے میرے ساتھ سیکس کر رہا تھا۔ ایسا بہت بار ہوا کہ میری آنکھ کھلتی جب وہ کچھ ایسا کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا جس کے بارے میں اسے علم تھا کہ میں منع کر دوں گی۔‘’مجھے کبھی یہ نہیں محسوس ہوا کہ یہ ریپ تھا کیوں کہ میری آنکھ کھلتے ہی وہ رک جایا کرتا تھا۔ لیکن طلاق کے بعد مجھے افسوس ہوا کہ میں نے اس کی حرکتوں کو نظرانداز کیوں کیا۔‘
ازدواجی قرض
سلویا کا کہنا ہے کہ فوجداری قانون شوہر کے ہاتھوں ریپ کو تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن 2005 میں ایک تبدیلی آئی جب قانون میں کسی متاثرہ فرد کے ازدواجی ساتھی یا پارٹنر کے جنسی جرائم پر سزا کا اضافہ کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ اس قانون کے بعد وکلا، پولیس یا جج یہ فرض نہیں کر سکتے کہ شادی کے بعد بیوی پر کسی قسم کا ازدواجی قرض ہے جس میں سیکس لازمی ہے۔تاہم بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے تشدد کو ثابت کرنا مشکل ہے۔سلویا کے مطابق ایسے جرم کسی عینی شاہد کی نظر کے سامنے نہیں ہوتے اور ملزم متاثرہ فرد کے ساتھ تعلق سے بھی انکار نہیں کرتا کیوں کہ مسئلہ صرف اجازت کا ہوتا ہے۔تاہم ان کے مطابق متاثرہ فرد کے قریبی اہلخانہ یا دوست جو یہ جانتے ہوں کہ حقیقت میں کیا ہوا ہے، مقدمے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ایسی خواتین جو اپنے شوہر یا ساتھی کے ایسے جرائم کی باقاعدہ شکایت درج نہ کروانا چاہتی ہوں، مدد حاصل کر سکتی ہیں۔رجینا کا کہنا ہے کہ اگر کوئی عورت رشتہ ختم نہیں کر سکتی تب بھی مدد حاصل کرنا ضروری ہے کیوں کہ مدد سے ہی عورت خود کو مضبوط کر سکتی ہے۔نوٹ: اس تحریر میں جن خواتین کا انٹرویو کیا گیا ہے، ان کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں تاکہ ان کی شناخت ظاہر نہ ہو۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.