اسلام آباد ہائیکورٹ نے میجر لاریب قتل کیس میں سزا کے خلاف ملزم بیت اللّٰہ و دیگر کی اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ایس پی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ایک ایس ایس جی کا میجر قتل ہوا ہے، اس کیس میں تو انویسٹی گیشن نہیں ہوئی، کون کرے گا؟
انہوں نے مزید کہا کہ قانون یہ ہے کہ جو پولیس اہلکار ڈیوٹی کے دوران کام نہ کرے، اُس پر سزا ہے، کیوں نہ اس وقت کے ایس ایس پی، تفتیشی افسر کو ذمہ دار قرار دے کر سزا دیں؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تفتیشی افسر نے خود خون جمع کیا، موقع پر گاڑی بھی نہیں ہے، یہ ساری چیزیں ہیر پھیر میں آتی ہیں، کیسے پتا چلا کہ بیت اللّٰہ ملزم ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال اٹھایا کہ لاش پمز اسپتال کیسے پہنچی؟ وہاں بتایا گیا سڑک حادثے کا کیس ہے۔
اس پر ایس ایس پی نے کہا کہ ہمیں کچھ وقت دیں، ہم کیس میں ذمے داروں کا تعین کریں گے۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ کون ذمہ دار ہے، اس ساری انویسٹی گیشن کا جو ہوئی ہی نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کوئی تو احتساب ہو، کوئی تو مثال سیٹ ہو، ہم تو اسلام آباد پولیس کے تفتیشی افسران کے معیار پر لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ تفتیشی کو الہام ہوگیا کہ یہی لوگ ہیں جو سڑک سے پکڑ لیے، شناخت پریڈ بھی صرف خانہ پوری کرنے کے لیے ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دو لوگ جیل کے اندر ہیں وہ بھی انسان ہیں، ان کا کیا قصور تھا، یہ کیسے پتا چلا کہ گولی بیت اللّٰہ نے ماری؟ ثبوت کہاں ہے؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اتنا ہائی پروفائل کیس ہے، مجسٹریٹ کا بھی کوئی احتساب ہونا چاہیے تھا، عدالت بلاوجہ کسی کو مزید اندر رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔
Comments are closed.