’میانمار کے فوجیوں نے جسموں سے ٹیٹو کاٹے اور قیدیوں کو پیشاب پلایا‘: عینی شاہدین کا دعویٰ،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنمیانمار کی ریاست رخائن میں باغیوں اور حکومتی افواج کے درمیان مہینوں سے لڑائی جاری ہے

  • مصنف, جوناتھن ہیڈ، برمی سروس
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

انتباہ: اس رپورٹ میں پُرتشدد مناظر اور واقعات کی تفصیلات موجود ہیں۔مقامی افراد اور حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے میانمار کی فوج نے رخائن صوبے کے ایک گاؤں پر حملے میں کم از کم 50 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ڈھائی روز تک فوجیوں نے گاؤں کے رہائشیوں کو مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا۔ لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں مارا گیا، ان پر جلتا پیٹرول ڈالا گیا اور کچھ لوگوں کو پیشاب پینے پر بھی مجبور کیا گیا۔میانمار کے فوجیوں کو حکومت مخالف ’اراکان آرمی‘ کے حامیوں کی تلاش تھی۔ حالیہ مہینوں میں اراکان آرمی میانمار میں سب سے موثر فوج مخالف قوتوں میں سے ایک بن کر ابھری ہے۔

معزول سویلین حکومت کی نمائندہ نیشنل یونٹی گورنمنٹ (این یو جی) کا کہنا ہے کہ 15 سے 70 سال کی عمر کے 51 افراد کو ’شدید تشدد کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا۔‘اراکان آرمی کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 70 سے بھی زیادہ ہے۔برسرِاقتدار فوجی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ یہ میانمار کی تین سالہ خانہ جنگی میں ہونے والے بدترین مظالم میں سے ہیں۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ فوجیوں نے لوگوں سے پوچھا کہ آیا اراکان آرمی کے اہلکار گاؤں میں موجود ہیں یا نہیں۔’لوگ جو بھی جواب دیتے کہ اراکان آرمی کے افراد گاؤں میں ہیں یا نہیں، یا انھیں نہیں معلوم، وہ جو بھی جواب دیتے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔‘پچھلے چھ مہینوں میں اراکان آرمی نے میانمار کی فوج کو پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے رخائن ریاست کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔ گذشتہ سال اراکان آرمی نے فوج کے ساتھ جنگ ​​بندی ختم کرنے کے بعد فروری 2021 سے اقتدار پر قابض فوجی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے دیگر باغیوں کے ساتھ مشترکہ آپریشن میں شریک ہو گئی ہے۔بی بی سی سے بات کرنے والی خاتون کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے شوہر کو فوجی گاڑی میں لے جایا گیا۔’ہمارے بیٹے کو ہم دونوں سے الگ کر دیا گیا اور اب مجھے نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے۔ میں نہیں جانتی کہ میرا شوہر اور بیٹا زندہ بھی ہے کہ نہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپچھلے کچھ ماہ اراکان آرمی نے میانمار کی فوج کو پسپائی پر مجبور کرتے ہوئے رخائن ریاست کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا ہے
عینی شاہدین کی حفاظت کے پیشِ نظر ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ہزار گھروں پر مشتمل گاؤں کے تمام افراد کو دو روز تک کھلے آسمان تلے رکھا گیا۔ اس دوران انھیں کھانے ہینے کے لیے بھی بہت کم دیا گیا۔ان کے مطابق درجنوں مردوں کو ہاتھ، پاؤں اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر رکھا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ افراد کو مزید تفتیش کے لیے ٹرکوں میں ڈال کر وہاں سے لے جایا گیا جن میں سے کئی اب تک نہیں لوٹے ہیں۔بی بی سی سے بات کرنے والی خاتون نے بتایا کہ ’وہ سارا دن دھوپ میں کھڑے رہنے کی وجہ سے بہت پیاسے تھے اور پانی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ لیکن فوجیوں نے پانی کی بوتلوں میں پیشاب کر کے انھیں پینے کے لیے دیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں لیکن وہ دیکھ نہیں سکے کہ کسے گولی ماری گئی کیونکہ انھوں نے اپنے سر نیچے کیا ہوئے تھے۔’مجھے سر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ انھوں نے میرے نزدیک کھڑے کسی شخص کو بلایا۔ اس کے بعد میں نے گولی چلنے کی آواز سنی۔ وہ کبھی واپس نہیں آیا۔‘بی بی سی سے بات چیت کے دوران وہ مسلسل روئے جا رہی تھیں کیونکہ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے لیے فکرمند تھیں۔’مجھے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ میں بس ان کے لیے دعا کرتی ہوں کہ بدھا ان کو بچا لے۔‘بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فوجیوں کو لاشوں کو دفنانے کے لیے بیلچے مانگتے سنا تھا۔ ان میں کچھ فوجی یقیناً شراب کے نشے میں دھت تھے۔خیال کیا جاتا ہے کہ بدھ کے روز ریاست کے دارالحکومت سیٹوے کے نزدیک واقع گاؤں بیائی فیو پر مارے جانے والے چھاپے میں 100 سے زائد فوجی ملوث تھے۔دولاکھ کی آبادی والا سیٹوے شہر برمی فوج کے چند باقی ماندہ مضبوط مورچوں میں سے ایک ہے۔ اس شہر میں ایک بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈہ بھی موجود ہے۔ لیکن باغی نزدیک پہنچ چکے ہیں اور زیادہ تر مقامی آبادی کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہیں۔مقامی افراد کے مطابق جن لوگوں نے جسموں پر اراکان آرمی کی حمایت کے ٹیٹو بنوائے ہوئے تھے انھیں خاص طور پر سخت سزا کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق فوجیوں نے جسم پر جس جگہ ٹیٹو بنے ہوئے تھے، وہاں سے جلد کو کاٹ کر اس پر پیٹرول ڈالا آگ لگا دی۔ایک اور عینی شاہد کے مطابق چھاپے میں ملوث ایک فوجی افسر نے گاؤں والوں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے شمالی ریاست شان میں تعینات تھا جہاں گذشتہ سال کے آخر میں فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ اس افسر کا کہنا تھا کہ وہ یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ وہ اس شکست کا بدلہ لے سکیں۔اگر میانمار کی فوج کو بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحق ریاست رخائن میں شکست ہو جاتی ہے تو یہ ان کی اب تک کی سب سے بڑی ہار ہو گی۔ سنہ 1948 میں آزادی سے لے کر ملک پر اب تک فوج غالب رہی ہے۔دو روز کے بعد جب جمعے کے دن فوجیوں نے باقی رہ جانے والوں کو جن میں زیادہ تر بچے، خواتین اور بڑی عمر کے افراد شامل تھے حکم دیا کہ وہ اپںی ضرورت کی کچھ چیزیں اٹھائیں اور وہاں سے چلے جائیں۔گاؤں والوں کا کہنا تھا کہ فوجی پہلے ہی ان کے گھروں سے قیمتی اشیا، جیسے سونا، زیورات یا سولر پینل لوٹ چکے تھے۔ابتدائی طور پر ان مقامی افراد کو سیٹوے کے ایک سٹیڈیم میں لے جایا گیا۔ بعد ازاں ان میں سے زیادہ تر نے شہر میں موجود بدھ مت خانقاہوں میں پناہ لے لی تھی۔بی بی سی کا اندازہ ہے کہ بیائی فیو اب بھی فوج کے کنٹرول میں ہے اور گاؤں کے رہائشیوں کو گھر لوٹنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گاؤں کا بیشتر حصہ جل کر خاکستر ہو چکا ہے۔این یو جی نے بیائی فیو میں جنگی جرائم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا وعدہ کیا ہے جبکہ اراکان آرمی نے ’فاشسٹ ملٹری کونسل‘ پر بیائی فیو میں کچھ خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کا بھی الزام لگایا ہے۔فوجی حکومت ان تمام الزامات کی تردید کرتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے گاؤں میں ریت کے تھیلوں سے بنے بنکروں کی موجودگی پر ’امن و امان‘ کے اقدامات کیے تھے۔ انھوں نے اراکان آرمی پر الزام لگایا ہے کہ وہ سیٹوے کے اس علاقے سے ڈرون حملے کر رہی ہے۔ریاست رخائن تک محدود رسائی اور تنازع کی شدت کی وجہ سے بیائی فیو میں جو کچھ ہوا اس کی آزادانہ تحقیقات کرنا مستقبل قریب میں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ایسی صورتحال میں جب مسلح حزب اختلاف کی قووتیں تیزی سے فوج کو پیچھے دھکیل رہی ہے، بچ جانے والوں کی جانب سے دیے گئے بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ میانمار میں دیگر جگہوں پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}