میانمار کے دھوکہ دہی کے مراکز جہاں پاکستانی، انڈین اور سری لنکن نوجوان جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں
- مصنف, ڈینی ونسنٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ہانگ کانگ
- 3 گھنٹے قبل
تنبیہ: اس خبر میں جنسی تشدد سمیت تشدد کی تفصیلات شامل ہیں، جو کچھ قارئین کو پریشان کن لگ سکتی ہیں۔ ایک کردار روی کا نام تبدیل شدہ ہے تاکہ ان کی شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔روی اپنی اور نئی نویلی دلہن کے لیے بہتر زندگی کا خواب لیے تھائی لینڈ روانہ ہوئے تھے لیکن 24 سالہ سری لنکن شہری نے ایک بہتر زندگی کی بجائے خود کو میانمار کے جنگل میں قید پایا۔ وہ ایک دھوکے میں آچکے تھے اور انھیں سینکڑوں تنہا اور امیر افراد کو دھوکہ دینے اور ان کے ساتھ نام نہاد رومانوی فراڈ کرنے سے انکار کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔وہ بتاتے ہیں ’انھوں نے مجھے برہنہ کیا، مجھے کرسی پر بٹھایا اور میری ٹانگ کو بجلی کے جھٹکے دیے۔ میں نے سوچا کہ یہ میری زندگی کا اختتام ہے، میں نے ان کی بات نہ ماننے پر 16 دن ایک کوٹھری میں گزارے۔‘’انھوں نے مجھے پینے کے لیے آلودہ پانی دیا جس میں سگریٹ کے ٹکڑے اور راکھ تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ لیکن یہ بدترین سلوک نہیں تھا۔ ’پانچ یا چھ دن بعد وہاں دو لڑکیوں کو لایا گیا اور میرے سامنے ان کے ساتھ اجتماعی ریپ کیا گیا۔‘روی کہتے ہیں ’جب میں نے یہ سب دیکھا، تو میں ڈر گیا کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ تب مجھے اس بات پر شبہ ہوا کے آیا یہ مجھے زندہ بھی چھوڑیں گے یا نہیں۔‘اگست 2023 میں اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق 120،000 سے زیادہ افراد، جن میں سے زیادہ تر ایشیائی مرد ہیں کو میانمار میں ان دھوکہ دہی کے مراکز میں جبری طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ان مراکز میں دنیا بھر سے بیرونِ ملک جانے کے خواہشمند تارکین وطن افراد کو بھیجا جاتا ہے۔ سری لنکن حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کم از کم 56 ایسے شہریوں کے بارے میں جانتے ہیں جو میانمار میں چار مختلف مقامات پر ایسے مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں، جبکہ میانمار میں سری لنکا کے سفیر جناکا بندرا نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں سے آٹھ کو حال ہی میں میانمار کے حکام کی مدد سے چھڑایا گیا ہے۔روی بھی ایسے ہی تارکین وطن میں سے ایک تھے، جنھیں تین لاکھ 70 ہزار روپے یعنی 1200 ڈالر کی بنیادی تنخواہ کے ساتھ ڈیٹا انٹری کی نوکری کا وعدہ کیا گیا تھا۔کمپیوٹر ماہر روی نے اسے بہترین موقع سمجھا کیونکہ اتنی بڑی رقم کا وہ سری لنکا جیسے معاشی بحران کا شکار ملک میں خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے اور اس لیے انھوں نے بھرتی کرنے والے کو ادائیگی کرنے کے لیے ڈھائی لاکھ کا قرض لیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.