ہان لے: فوج کے خلاف آواز اٹھانے والی میانمار کی ملکہ حسن
- جارج رائٹ
- بی بی سی نیوز
انھوں نے کہا ’خدارا میانمار کی مدد کریں، ہمیں آپ کی فوری بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے‘
ملکہ حسن کی تقاریر شاذ و نادر ہی شہ سرخیوں کا حصہ بنتی ہیں لیکن جب ہان لے نامی مس گرینڈ میانمار نے گذشتہ ہفتے بات کی تو ان کی تقریر شہ سرخی بن گئی۔
اس تقریر میں انھوں نے اپنے ملک کی فوج کی جانب سے مبینہ طور پر کیے جانے والے مظالم کا ذکر کیا تھا۔
تھائی لینڈ میں گرینڈ انٹرنیشنل 2020 کے موقع پر ان کا کہنا تھا ’آج میرے ملک میانمار میں بہت سے لوگ مر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا ’خدارا میانمار کی مدد کریں، ہمیں آپ کی فوری بین الاقوامی مدد کی ضرورت ہے۔‘
آج سے مہینہ پہلے 22 سالہ ہان لے میانمار کے سب سے بڑے شہر رنگون میں فوج کے خلاف ہونے والے والے مظاہرے کا حصہ تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ہان لے فوج مخالف ممظاہرے میں شریک
میانمار میں کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب دو ماہ پہلے فوج نے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور جمہوری انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی سربراہ آنگ سانگ سوچی کو معزول کر دیا۔
جب ملک بھر میں لاکھوں لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو فوج نے انھیں منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ جس کے ایک ہفتے بعد یہی ردعمل ربڑ کی گولیوں اور پھر آتش گیر اسلحےمیں بدل گیا۔
اس لڑائی کا سب سے خونریز دن گذشتہ سنیچر تھا جب سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ایک مقامی نگراں گروپ کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر پانچ سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ہیں جبکہ امدادی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں کم سے کم 43 بچے بھی شامل تھے۔
ملک حسن ہان لے نفسیات کی طالبہ ہیں اور یونیورسٹی آف رنگون میں پڑھتی ہیں۔ انھوں نے ملکہ حسن کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کے سامنے اپنے وطن کے بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے بی بی سی کو فون پر دیے جانے والے انٹرویو میں بتایا کہ ’میانمار میں صحافیوں کو قید کر دیا گیا ہے اس لیے میں نے بولنے کا فیصلہ کیا۔‘
انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کی دو منٹ کی اس تقریر کے بعد اب وہ فوج کے ریڈار پر آ سکتی ہیں لہذا انھوں نے کم از کم اگلے 3 ماہ تک تھائی لینڈ میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہان لے نے مقابلہ حسن کے پلیٹ فارم کو فوج کی مذمت کے لیے استعمال کیا
ہان لے کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ آنے سے پہلے وہ جانتی تھیں کہ وہ خود کو خطرے میں ڈال رہی ہیں اور اب انھیں کچھ عرصے تک وہیں رہنا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا ’میں اپنے خاندان کے بارے میں کافی پریشان ہوں اور اپنے تحفظ کے لیے بھی کیونکہ میں نے فوج کے سلوک اور میانمار میں صورتحال کے بارے میں بات کی ہے۔ میانمار میں سب جانتے ہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات کرنے کی ایک حد ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے دوستوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں میانمار واپس نہ آؤں۔‘
ان کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ میانمار کی فوج نے گذشتہ ہفتے کم سے کم اٹھارہ مشہور افراد کے وارنٹ جاری کیے ہیں جن میں سوشل میڈیا انفلوئنسر اور صحافی شامل ہیں۔
ریاستی میڈیا کے مطابق یہ وارنٹ فوج سے بغاوت یا ان کی توہین پر مبنی مواد کی اشاعت کے بعد جاری کیے گئے ہیں۔ ان تمام افراد نے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف بات کی تھی۔
فروری میں فوجی بغاوت کے بعد سینکڑوں لوگ مارے جا چکے ہیں
ہان لے کا کہنا ہے ان کی تقریر کے بعد ان سے فوج یا کسی دوسرے اہل کار نے رابطہ نہیں کیا تاہم ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر انھیں دھمکی آمیز کمنٹ مل رہے ہیں۔
’وہ میرے سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ میانمار جانے پر جیل میرا انتظار کر رہی ہے۔‘
وہ نہیں جانتیں ان دھمکی آمیز پیغامات کے پیچھے کون ہے تاہم زیادہ تر سوشل میڈیا کمنٹ ان کی حمایت میں ہیں۔
ہان لے کے ساتھ پڑھنے والے بیشتر طلبا کو اوائل ہفتوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے کے بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔
سیاسی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم’اسسٹنٹ ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز‘ کے مطابق کم سے کم ڈھائی ہزار افراد کو فوجی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا۔
سیاہ بیس بال کیپ پہنے ہان لے اپنے دوستوں کے ساتھ مظاہرے میں شریک ہوئیں
ہان لے کے مطابق ان کا ایک دوست ہلاک بھی ہو گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’وہ تو احتجاج بھی نہیں کر رہا تھا تھا وہ تو کافی پینے ریستوران گیا تھا اور اسے کسی نے گولی مار دی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان کا خاندان تاحال محفوظ ہے تاہم ان سے رابطے میں دشواری ہے کیونکہ میانمار میں انٹرنیٹ بار بار منقطع ہو جاتا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے درخواست کی کہ ان کے آبائی گھر کا نام شائع نہ کیا جائے تاکہ ان کا خاندان محفوظ رہ سکے۔
ہان لے کے سیاسی تبصرے، بشمول میانمار کی فوج پر براہ راست تنقید اور پیجینٹ کے سرکاری چینل پر شائقین کے ساتھ ایک انٹرویو میں انقلاب کی حمایت کرنا ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ عام طور پر مقابلے میں حصہ لینے والے غیر سیاسی رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مس گرینڈ کمبوڈیا کے لیو چیلی نے مقابلے سے قبل خطاب کرتے ہوئے شائقین سے سیاست سے دور رہنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ہان لے ایشیا میں فوجی حکومتوں کے خلاف علامتی سلیوٹ کرتے ہوئِے
مگر ہان لے سمجھتی ہیں کہ آواز اٹھانا ان کا فرض ہے۔ انھوں نے سوچی کو ایسی شخصیت قرار دیا جس سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ معزول جمہوری رہنما سوچی پر گذشتہ ہفتے میانمار کے سرکاری رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ انھیں 14 سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
ہان لے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد فلائٹ اٹینڈینٹ کی تربیت لینے کا سوچا تھا، لیکن اب وہ الجھن کا شکار ہیں کہ کون سا راستہ اختیار کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے انھیں سیاست میں حصہ لینے کا مشورہ دیا ہے لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ سیاست ان کے لیے نہیں۔
وہ تعلیم مکمل کرنے تک اپنی آواز کو کسی مقصد کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’یہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ فوری طور پر کارروائی کرے۔ ہم اپنی قائد کی واپسی چاہتے ہیں اور ہم حقیقی جمہوریت کی واپسی چاہتے ہیں۔‘
Comments are closed.