میانمار میں فوجی بغاوت: فوج نے ایسا کیوں کیا اور اب میانمار کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
میانمار میں پارلیمان کے اجلاس سے قبل فوج نے سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا
لیکن پسِ پردہ رہتے ہوئے میانمار کی فوج نے معاملات پر اپنی گرفت انتہائی مضبوط رکھی، اور یہ میانمار کے آئین کی وجہ سے ممکن ہوا جس کے تحت پارلیمان اور ملک کی طاقتور ترین وزارتوں کا ایک چوتھائی حصہ فوج کو جاتا ہے۔
مگر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود فوج نے اب کیوں اقتدار پر قبضہ کیا، اور یہ کہ اب آگے کیا ہو گا؟
فراڈ کے الزامات
فوجی بغاوت کے لیے یہ وقت کیوں چنا گیا اس کی آسان سی وضاحت بی بی سی کے جنوب مشرقی ایشیا کے نمائندے جوناتھن ہیڈ نے دی ہے۔ ‘پیر کی صبح میانمار کی پارلیمان کا پہلا اجلاس ہونا تھا جس کے دوران الیکشن کے نتائج کی توثیق ہونی تھی۔ اب ایسا نہیں ہوگا۔’
نومبر میں ہونے والے انتخابات میں سوچی کی جماعت نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ملک میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے سنگین الزامات کے باوجود یہ پارٹی بہت زیادہ مقبول رہی۔
فوجی حمایت یافتہ اپوزیشن نے انتخابات کے فوراً بعد ہی دھوکہ دہی کے الزامات لگانا شروع کر دیے تھے۔ ان ہی الزامات کو نئے قائم مقام صدر کی طرف سے جاری کردہ ایک دستخطی بیان میں دہرایا گیا ہے اور ایسا شاید اس لیے کیا گیا تاکہ فوج کی جانب سے اعلان کردہ ایمرجنسی کے نفاذ کو جواز فراہم کیا جا سکے۔
رنگون میں فوجیوں کو سٹی ہال کے اندر دیکھا گیا ہے
سابق نائب صدر مائینٹ سوی، جو کہ ایک سابق جنرل بھی ہیں، نے کہا ہے کہ ‘میانمار کا الیکشن کمیشن آٹھ نومبر 2020 کو ہونے والے کثیر جماعتی عام انتخابات میں ووٹر لسٹ میں موجود بڑی بے ضابطگیوں کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔’
لیکن اس الزام کے بہت ہی کم ثبوت منظر عام پر لائے گئے ہیں۔
ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کے نائب ڈائریکٹر فل رابرٹسن نے بی بی سی کو بتایا ‘ظاہر ہے کہ آنگ سان سوچی نے زبردست انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس دوران انتخابی دھوکہ دہی کے الزامات لگے جو صدر ٹرمپ کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی طرح تھے، یعنی یہ دعوے بغیر ثبوت کے کیے گئے۔’
مسٹر رابرٹسن فوج کے اقتدار پر قبضے کو ‘ناقابل معافی’ قرار دیتے ہیں۔
‘کیا [ووٹ] کا مطلب اقتدار سے محروم ہونا تھا؟ اس کا جواب نہیں ہے۔’
’بابائے قوم شرمندہ ہیں‘
نومبر کے انتخابات میں یہ دیکھا گیا کہ فوج کی حمایت یافتہ جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) کچھ ووٹ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ لیکن فوج اس کے باوجود حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ 2008 کا آئین ہے جو فوجی جنتا کی حکومت کے دوران تشکیل دیا گیا تھا۔
اس کی بدولت فوج کو خود سے پارلیمان میں ایک چوتھائی سیٹیں مل جاتی ہیں اور انھیں داخلہ، دفاع اور سرحدی امور کی وزارت بھی دی جاتی ہے۔
جب تک یہی آئین رہے گا، فوج کا اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ لیکن کیا این ایل ڈی اس بار اپنی اکثریت کے ساتھ یہ آئین بدل سکتی تھی؟
جوناتھن ہیڈ کے مطابق یہ ہونا مشکل تھا کیونکہ اس کے لیے پارلیمان کی 75 فیصد اکثریت درکار ہوتی ہے جو کہ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ 25 فیصد سیٹیں تو فوج کے پاس ہوتی ہیں۔
جاپان میں میانمار کے شہریوں نے اس مارشل لا کے خلاف مظاہرے کیے ہیں
سابق صحافی اور ٹیکنالوجی کی پروفیسر ایئی مِن تھینٹ کہتی ہیں کہ آج کے اقدام کی ایک اور وجہ ہوسکتی ہے: فوج میں ندامت پائی جاتی ہے۔
رنگون سے انھوں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’انھیں توقع نہیں تھی کہ انھیں شکست ہوگی۔ فوج سے خاندانی تعلقات رکھنے والوں نے بھی ان کے خلاف ووٹ ڈالے۔‘
ظاہر ہے کہ بات اس سے بڑی ہے۔
’آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ فوج ملک میں اپنی پوزیشن کو کیسے دیکھتی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اکثر آنگ سان سوچی کو ’ماں‘ کا درجہ دیتی ہے۔ لیکن فوج خود کو ’بابائے قوم‘ تصور کرتی ہے۔‘
اس کے نتیجے میں فوج میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومتی سرگرمیوں میں اس پر ذمہ داری ہے۔ حالیہ برسوں میں ملک میں بین الاقوامی تجارت بڑھی ہے اور یہ پہلے اس شدت کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔
’وہ باہر کے لوگوں کو خطرہ سمجھتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ عالمی وبا اور روہنگیا افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق نہ ملنے پر بین الاقوامی تشویش فوج نے اس اقدام کا سوچا ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود یہ ان کے لیے بھی حیران کن ہے۔
مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے؟
ماہرین اس حوالے سے کسی ایک وجہ پر متفق نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ لیکن ان میں ایک بات پر اتفاق ہے کہ اس سے بہت کم فائدہ ہوگا۔
نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور میں ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر جرارڈ مکارتھی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ قابل فہم ہے کہ موجودہ نظام فوج کے لیے کافی فائدہ مند ہے۔ اسے مکمل خودمختاری حاصل ہے، اس کے بین الاقوامی سرمایہ کاری کے بھی اچھے مواقع ہیں اور عام شہریوں کے لیے جنگی جرائم کے ذمہ دار سیاسی حلقے ہیں۔‘
’اپنے اعلان کے مطابق ایک سال تک اقتدار پر قابض رہنے پر چین کے علاوہ بین الاقوامی ساتھی اسے تنہا چھوڑ دیں گے، فوج کے تجارتی منصوبوں کو بھی نقصان پہنچے گا اور آنگ سان سوچی کے لاکھوں حمایتی جنھوں نے ان کی جماعت کو ووٹ دیا تھا وہ بھی ان کے لیے رکاوٹ بن جائیں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ شاید مستقبل کے انتخابات میں یو ایس ڈی پی بہتر کارکردگی کر سکے لیکن اس اقدام سے بہت زیادہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے فِل رابرٹسن کہتے ہیں کہ خدشہ ہے کہ اس سے میانمار ایک بار پھر ’خارج شدہ ریاست‘ بن سکتی ہے اور اس سے ملکی شہری بھی ناخوش رہیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا ہے میانمار کے لوگ اسے چپ چاپ قبول کر لیں گے۔ وہ مستقبل میں فوج کے ساتھ آگے جانا نہیں چاہتے۔ وہ آنگ سان سوچی کو فوجی آمریت کے خلاف ایک دیوار کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
یہ امید بھی ہے کہ مسئلہ بات چیت سے حل ہوجائے گا۔ ’اگر ہم نے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنا شروع کردیے تو یہ ایک بڑے بحران میں تبدیل ہوسکتا ہے۔
Comments are closed.