میانمار: آنگ سان سوچی کو مزید سات سال قید کی سزا
میانمار کی ایک فوجی عدالت نے آنگ سان سوچی کو مزید سات سال قید کی سزا سنائی ہے جس کے بعد ان مجموعی قید کی معیاد 33 ہو گئی ہے۔
77 سالہ نوبل انعام یافتہ آنگ سان سو چی فروری 2021 میں فوجی بغاوت قید میں ہیں۔
آنگ سان سو چی کو فوجی عدالتوں میں 19 الزامات پر 18 ماہ تک مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے جن کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ایک دکھاوا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
جمعے کے روز انہیں آخری پانچ الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ ایک عدالت نے انہیں بدعنوانی کا مجرم قرار دیا کیونکہ انہوں نے ایک سرکاری وزیر کے لئے ہیلی کاپٹر کرایے پر لینے میں قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا تھا۔
انہیں پہلے ہی 14 مختلف جرائم کا مجرم قرار دیا جا چکا ہے جن میں کووڈ پبلک سیفٹی قوانین کی خلاف ورزی، واکی ٹاکیز درآمد کرنا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی شامل ہے۔
آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمات کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے ہوئی جہاں عوام اور میڈیا کو رسائی حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ان کے وکلاء پر بھی صحافیوں سے بات کرنے پر پابندی عائد ہے۔
انہوں نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کیا ہے۔
اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز (برما) کے مطابق محترمہ سوچی اور ان کی جماعت کے کئی ارکان ان 16,600 سے زائد افراد میں شامل ہیں جنہیں فوجی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے گرفتار کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے میانمار میں تشدد کے خاتمے اور تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ قرارداد کے الفاظ میں ترمیم کے بعد چین اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور اپنے ویٹو پاور کا استعمال نہیں کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سے قبل کہا تھا کہ سوچی پر ‘مسلسل قانونی حملے’ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح فوج کس طرح اپنے مخالفین کے خلاف عدالتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس فروری میں فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے جس کے بعد میانمار کی فوج نے جمہوریت کے حامی مظاہرین اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔
فوجی حکومت پر ماورائے عدالت قتل اور دیہاتوں پر فضائی حملے کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اختلاف رائے کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن میں اب تک 2600 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
Comments are closed.