مہک بخاری: ٹک ٹاک، بلیک میلنگ اور دوہرے قتل کا قصہ

Mehak

،تصویر کا ذریعہSUPPLIED

  • مصنف, جارج ٹور
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

مہک بخاری ایک ابھرتی ہوئی ٹک ٹاک سٹار تھیں، جنھیں ان کی ماں کی خوب حمایت حاصل تھی۔ لیکن پھر ان کی زندگی میں ایک ایسا بدقسمت واقعہ ہوا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ یہ قصہ دھوکہ دہی اور بلیک میلنگ سے ہوتا ہوا قتل تک جا پہنچا۔

برطانیہ کے شہر سٹوک آن ٹرینٹ سے تعلق رکھنے والی مہک نے یونیورسٹی چھوڑ کر سوشل میڈیا کو اپنے کیریئر کے طور پر چُن لیا اور پھر اپنی تمام تر توجہ اس طرف مرکوز کر دی۔

یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ مہک کے تقریباً ایک لاکھ 29 ہزار فالورز ہو گئے اور وہ ملک بھر میں پارٹیز اور افتتاحی تقاریب میں برینڈز کی پروموشن کے ذریعے خوب پیسہ کمانا بھی شروع ہو گئیں۔

وہ اپنی والدہ عنصرین، جو ان کی ویڈیوز میں اکثر موجود ہوتی تھیں، کے ساتھ اپنے بہترین تعلقات پر بھی خوب نازاں تھیں۔

مگر جب عنصرین 21 برس کے ثاقب حسین سے ملیں تو پھر اس کے بعد ایسے واقعات ہوئے کہ جو ایک حادثے پر جا کر ختم ہوئے۔ اس کے نتیجے میں دونوں ماں بیٹی دہرے قتل کے قصوروار ٹھہرائے گئے۔

دونوں کو عمر بھر قید کی سزا سنا دی گئی۔ مہک 31 برس اور آٹھ مہینے قید میں گزاریں گے جبکہ عنصرین کو 26 سال اور نو مہینے کی جیل کی سزا سنائی گئی۔

Mehak

،تصویر کا ذریعہTIK TOK

،تصویر کا کیپشن

مہک اور ان کی والدہ عنصرین

عنصرین اور ثاقب کی دوستی جو دشمنی میں بدل گئی

سنہ 2019 میں عنصرین اور ثاقب کی ویڈیو ایپ ’آزر‘ کے ذریعے بات چیت شروع ہوئی۔

ان دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے رابطہ نمبرز شیئر کیے اور پھر تقریباً روزانہ ہی دونوں بات کرتے۔ یہ تعلقات اتار چڑھاؤ کے ساتھ تین سال تک برقرار رہے۔

لیسٹر شائر پولیس سے تعلق رکھنے والے ڈیٹ انسپکٹر مارک پیرش نے کہا کہ ثاقب نے ان میں جو دلچسپی دکھائی اس سے عنصرین بھی ان کی جانب مائل ہو گئیں۔

مہک

،تصویر کا ذریعہSupplied

ان کا کہنا ہے کہ یہ دونوں کئی بار ہوٹلوں، ریستورانوں اور شیشہ لاؤنجز میں ملے۔ سنہ 2021 میں تعلقات میں کشیدگی آئی۔ عنصرین تعلقات ختم کرنا چاہتی تھیں جس پر ثاقب رنجیدہ تھے۔

انھوں نے اس صورتحال سے نکلنے کے لیے عنصرین سے درخواست کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں یعنی ان سے تعلقات ختم نہ کریں۔ تاہم معاملات مزید بگڑ گئے اور پھر ثاقب نے یہ دھمکی دی کہ وہ ان کی ذاتی نوعیت کی ویڈیوز ان کے سابقہ خاوند کو بھیج دیں گے۔

اس سال کے اختتام پر عنصرین نے سب کچھ اپنی بیٹی کو بتا دیا۔ تاہم اس بلیک میلنگ کے خلاف پولیس کو شکایت کرنے کے بجائے مہک نے معاملات کو خود ہی طے کرنے کی ٹھان لی۔

انسپکٹر مارک پیرش نے کہا کہ ’ثاقب کے خاندان کو جانتے ہوئے اور ان کے ساتھ وقت بتانے کے بعد، میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ خود ثاقب کو روک دیتے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر بخاری فیملی نے پولیس کو شکایت کی ہوتی تو ایسا بالکل نہ ہوتا اور معاملات کبھی اس نہج تک نہ پہنچتے۔

حملے کی منصوبہ بندی اور قتل

اپنی والدہ کی مدد کے لیے مہک اپنے کار مکینک دوست ریحان کاروان کے پاس چلی گئیں۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے ثاقب حسین کو عنصرین بخاری سے ملاقات کا ’لالچ‘ دے کر بلایا گیا۔ انھیں یہ کہا گیا کہ انھوں نے جو تین ہزار پاؤنڈ عنصرین پر خرچ کیے وہ انھیں واپس دیے جائیں گے۔ ثاقب اکثر اس رقم کا طعنہ دیا کرتے تھے۔

ریحان نے اپنے قریبی دوست رئیس جمال اور ان کے کزن امیر جمال اور دیگر دوستوں کی مدد حاصل کی۔ دیگر دوستوں میں نتاشہ اختر، صناف گل مصطفیٰ اور محمد پٹیل شامل ہیں۔

برطانیہ

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

11 فروری 2022 کے دن یہ گروپ لیسٹر میں ایک ٹیسکو سپر مارکیٹ پہنچا اور ثاقب کا انتظار کرنے لگا۔ اس منصوبے کا مقصد ثاقب پر اچانک حملہ آور ہونا تھا۔

اپنے آبائی شہر بینبری میں ثاقب لیسٹر جانے کے لیے کسی سے گاڑی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ثاقب نے چند دوستوں سے پوچھا۔ ان میں سے ایک ہاشم اعجاز الدین نے انھیں گاڑی پر وہاں لے جانے کی حامی بھر لی۔

مارک پیرش کے مطابق ’ہاشم کچھ نہیں جانتا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، وہ بطور دوست صرف رات کو ثاقب کو لیسٹر لے جانے پر رضامند ہوا۔ وہ اس معاملے سے بے خبر تھا۔‘

ان کے مطابق ’وہ ملزمان میں سے کسی کو نہیں جانتا تھا، اس بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے اور کچھ معاملات میں شاید وہ واحد شخص ہے جو غلط وقت پر غلط جگہ پر تھا۔‘

ثاقب اور ہاشم ٹیسکو کار پارک میں رات کے 01:17 پر پہنچے۔ چند لمحات کے انتظار میں انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔

وہ جلدی سے اس جگہ سے نکلے، لیکن اب دو کاریں ان کا تعاقب کر رہی تھیں۔ ایک گاڑی کو رئیس جبکہ دوسری میں ریحان تھے۔

دوران ٹرائل بتایا گیا کہ مہک اور عنصرین ریحان والی گاڑی میں سوار تھیں۔

پولیس

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

مارک پیرش کے مطابق ’پولیس کو فون ریکارڈ سے یہ معلوم ہوا کہ اس وقت مہک نے ثاقب کو کال کی تھی اور دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ دونوں نے کیا کہا مگر یہ واضح ہے کہ دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔‘

اس فون کال کے ایک منٹ کے بعد ثاقب نے 999 پر کال کر دی۔

انھوں نے آپریٹر کو بتایا کہ وہ ایک ایسی گاڑی میں سوار ہیں جس کا کچھ لوگ تعاقب کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے پیچھے آنے والی گاڑی انھیں ٹکر مار کر سڑک سے اتارنا چاہتی ہے۔

یہ خوفناک کال تقریباً پانچ منٹ تک جاری رہی۔ ثاقب اور ہاشم نے تعاقب کرنے والوں سے بچنے کی غرض سے ڈبل کیریج وے پر اپنا سفر جاری رکھا اور سرخ اشارے پر بھی نہیں رکے۔

مہک

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

مارک پیرش کے مطابق ’پہلی چیز جو وہ بتاتے ہیں کہ ان کا رستہ روکا جا رہا ہے۔ فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا گیا ہے کہ کار کو ایک گاڑی کے ساتھ بلاک کیا جا رہا ہے جو آگے سے بریک لگانے اور کار کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

ان کے مطابق ’ثاقب اپنے دوست ہاشم سے کہتے ہیں کہ ’سینڈ اِٹ سینڈ اِٹ‘۔۔۔ یہ ہاشم کے لیے ایک اشارہ تھا کہ وہ گاڑی بھگائیں اور وہاں سے نکلیں۔‘

مارک کے مطابق ’اس وقت آپ واضح طور پر ان کے خوف کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وہ ریڈ سگنل پر بھی رُکے بغیر آگے بڑھ گئے پھر بھی ان کا تعاقب جاری تھا۔‘

مارک

،تصویر کا کیپشن

انسپکٹر مارک پیرش

ثاقب اور ہاشم کے اہل خانہ نے عدالت میں چلائی گئی 999 والی کال کو میڈیا پر نشر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

اس کال کے آخری لمحات انتہائی پریشان کن تھے۔ فون لائن پر خاموشی چھا جاتی ہے اور پھر آپریٹر ثاقب سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ اب بھی کال پر ہیں۔

مارک پیرش کے مطابق اب یہ ایک جذباتی، پریشان کن کال میں بدل جاتی ہے اور آپ سن سکتے ہیں کہ وہ لوگ ثاقب کے بالکل پیچھے پہنچ چکے تھے اور پھر اس کے بعد چیخیں سنائی دیتی ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔

واضح رہے کہ جیوری کو حادثے سے چند لمحے پہلے ثاقب حسین کی طرف سے پولیس کو کی گئی کال کی یہ ریکارڈنگ بھی سنائی گئی تھی۔

اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ثاقب حسین نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کرتے ہوئے بتایا کہ ماسک پہنے ہوئے لوگ دو گاڑیوں میں ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر سڑک سے اتارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کال میں پریشان ثاقب حسین آپریٹر کو کہہ رہے ہیں ’وہ لوگ میرا پیچھا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’میں مرنے والا ہوں، پلیز سر، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ کار کو پیچھے سے ٹکر مار رہے ہیں۔ بہت تیزی سے۔ میں آپ سے التجا کرتا ہوں۔ میں مرنے والا ہوں۔‘

کال کٹنے سے پہلے ایک زور دار چیخ بھی سنائی دیتی ہے۔

اس کے بعد کیا ہوا

رات ٹھیک ڈیڑھ بجے کے بعد ایک ریکوری ڈرائیور اسی شاہراہ پر سفر کر رہا تھا جب اس نے ایک کار کو درخت کے قریب جلتے ہوئے دیکھا۔ یہ محسوس کرنے کے بعد کہ کسی نے پولیس کو نہیں بلایا، اس نے اپنے ٹرک کے ساتھ سڑک کو بند کر دیا۔

پولیس افسران تقریباً 10 منٹ بعد وہاں پہنچے۔ فائر فائٹرز بھی تھوڑی ہی دیر میں وہاں پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیے

کار

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE LIVE/BPM MEDIA

آگ بجھانے کے بعد پولیس افسروں میں سے ایک نے گاڑی میں دو افراد کی لاشیں دیکھیں۔ ادھر مہک نے آڈی گاڑی خود چلانا شروع کر دی اور نتاشا ان کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔

پھر وہ روپوش ہونے کے لیے واپس لیسٹر کی طرف روانہ ہوئے۔ واپسی پر، وہ جلتے ہوئے ملبے کے قریب سے بھی گزرے۔

جب وہ شہر پہنچ گئے تو سوٹن پلیس کے علاقے میں گھس گئے۔ اب وہ محفوظ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے گاڑیوں سے نکل کر سڑکوں پر گشت شروع کر دی۔

انھیں سی سی ٹی وی کے ذریعے رات کے تقریباً 02:00 بجے مختلف مقامات پر فروری کی سردی میں گھومتے پھرتے دیکھا گیا۔

فوٹیج حاصل کرنے والے پولیس والوں کو یہ تو نہیں معلوم ہوا کہ وہ وہاں کیا کر رہے تھے مگر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کیے پر پردہ ڈالنے کے لیے کوشاں تھے۔

اس کے بعد کچھ پیدل اور کچھ کو گاڑیوں پر گھرچھوڑ دیا گیا۔ نتاشا، جو گاڑی کی مالک تھیں، واپس برمنگھم میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئیں۔ مہک اور ان کی والدہ عنصرین سٹوک آن ٹرینٹ کے شمالی علاقے کی طرف نکل گئے۔

مہک

،تصویر کا ذریعہLEICESTERSHIRE POLICE

ادھر لیسٹر شائر پولیس کچھ ایسا جانتی تھی جو اس گروپ کو نہیں معلوم تھا۔

ثاقب کی 999 کال تفتیش کاروں تک پہنچ گئی تھی اور انھوں نے خودکار نمبر پلیٹ ریکگنیشن کے کیمروں سے تحقیقات شروع کر دی تھیں۔

انھوں نے الرٹ جاری کیا اور ویسٹ مڈلینڈز میں دو افسران نے نتاشا کی گاڑی کا سراغ لگا لیا تھا۔

انھوں نے اس کا پیچھا کرنا شروع کیا اور بعد میں انھیں ایک پیٹرول سٹیشن پر دھر لیا۔ ایسا ہونے سے پہلے انھوں نے گھبراہٹ میں رئیس کو فون کیا۔

اس کے بعد انھیں گرفتار کر کے حراست میں لے لیا گیا۔

نتاشہ

،تصویر کا ذریعہCPS/STAFFORDSHIRE POLICE

آٹھ بجے سے تھوڑی دیر بعد مہک اور عنصرین آوازوں سے جاگیں تو پولیس مہک کے بھائی اور والد سے بات کر رہی تھیں۔

اس وقت پر مہک نے دیکھا کہ انھیں رئیس بار بار فون کر رہا تھا، جو یہ جانتے تھے کہ نتاشا کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔

جب سٹافورڈ شائر پولیس کے افسران گھر کے مرد اراکین سے بات کر رہے تھے تو مہک نے رئیس کو فون کیا۔

اس کے بعد انھوں نے دوسرے کمرے میں موجود اپنی والدہ کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا، جس میں بتایا گیا کہ وہ افسران کو کیا کہیں گی۔

مہک نے پولیس سے جھوٹ بولا اور کہا کہ حادثے کی رات وہ ایک سوشل میڈیا پروگرام کے لیے ناٹنگھم جا رہی تھیں۔

ماں بیٹی کو بعد میں گرفتار کر کے لیسٹر کے ایک پولیس سٹیشن لے جایا گیا۔

مہک

،تصویر کا ذریعہCPS/LEICESTERSHIRE POLICE

حراست کے دوران بھی مہک نے جھوٹ جاری رکھا کہ وہ اس رات کیا کرتی رہی تھیں۔

لیکن جب پولیس نے ثاقب کی 999 کال چلائی تو وہ حیران رہ گئیں۔

ہار ماننے کے بجائے وہ رو پڑیں اور کہا کہ ثاقب ’اتنا جھوٹ بولتا ہے‘ اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے۔

مہک اور عنصرین بخاری سمیت دیگر چھ افراد پر بعد میں قتل کی فرد جرم عائد کی گئی۔

ان میں سے ایک، محمد پٹیل، جسے بعد میں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا تھا، نے پولیس کو پوری کہانی سنائی اور انکشاف کیا کہ تعاقب کے ساتھ کیا ہوا تھا۔

اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے افسران کو بتایا کہ ثاقب کی گاڑی کو ٹکر مارنے کے بارے میں تعاقب کے دوران ریحان اور رئیس کی فون پر آپس میں بات چیت ہوئی۔

کٹہرے میں بہتے آنسو

جمعہ 4 اگست 2023 کی سہ پہر 18 ماہ کے طویل انتظار کے بعد حسین اور اعجازالدین دونوں کے خاندانوں نے اپنے پیاروں کے قتل کے ملزمان کا انجام جاننے کی تیاری کی۔

جیوری نے 28 گھنٹے سے زیادہ بحث کی۔

اس دن کے شروع میں مہک لیسٹر کراؤن کورٹ کے باہر نامہ نگاروں کی جان دیکھ کر ہنسیں اور ان کی جانب ہاتھ لہرائے۔

جیوری

،تصویر کا ذریعہHELEN TIPPER

لیکن یہ اعتماد زیادہ دیر قائم نہ رہا۔ جب جیوری نے ماں اور بیٹی دونوں کو دہرے قتل کا مجرم قرار دیا تو وہ رو پڑیں۔

مہک اور عنصرین بخاری کے علاوہ جن دو مجرمان کو قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے، ان میں ریحان کاروان اور رئیس جمال شامل ہیں۔

غیر ارادی قتل کے جرم میں جن تین افراد کو سزا سنائی گئی ہے، ان میں امیر جمال، نتاشہ اختر اور صناف گل مصطفیٰ شامل ہیں۔

نتاشہ اختر کو 11 برس قید، امیر جمال کو 14 برس آٹھ ماہ جبکہ صناف گل مصطفیٰ کو 14 برس نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

call

،تصویر کا ذریعہSupplied

،تصویر کا کیپشن

ثاقب حسین اور ہاشم اعجاز الدین

متاثرین

فیصلے کے بعد ثاقب کے کزن عادل بہار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے اہلخانہ کو کس تکلیف سے گزرنا پڑا۔

انھوں نے بتایا کہ وہ ’ہر روز انھیں یاد کرتے ہیں‘۔

’جب ہم عدالت میں نشست پر بیٹھے تھے اور جج نے کہا کہ جیوری ایک فیصلے پر پہنچ گئی ہے تو اس وقت میرا دل ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں اسے واپس لانے کے لیے کچھ بھی کروں گا۔‘

عادل بہار

،تصویر کا کیپشن

ہاشم اعجاز الدین کے بھائی ظہیر

ہاشم کی یاد میں منعقدہ فٹ بال ٹورنامنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ان کے دونوں بڑے بھائیوں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔

محمد ظہیر نے کہا کہ ’اپنی زندگی کے مختصر عرصے میں اس نے ملک اور پوری دنیا میں بہت سارے دلوں کو چھو لیا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو اس کے بارے میں فجر سے شام تک کہانیاں سنا سکتا ہوں۔۔۔ بہت زیادہ (باتیں اور یادیں) ہیں۔‘

’ہم ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔۔۔ وہ میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ ایک بھائی کے طور پر ایک بہترین دوست ہونا بہت خاص چیز ہے۔‘

محمد زین نے کہا کہ انھیں تقریباً ہر جگہ اپنے بھائی کی یاد آتی ہے۔

’ٹک ٹاک کا واحد حقیقی انفلوئنسر، وہ عام زندگی میں بھی ایک انفلوئنسر ہی تھے۔ آپ (ٹورنامنٹ میں) تمام لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں، آپ ان کے بارے میں ان کے تمام پیغامات دیکھ سکتے ہیں۔‘

’ہر کوئی اس کا بھائی بننا چاہتا ہے۔ اگر آپ آن لائن دیکھیں گے تو ہر کوئی کہے گا، یہ میرا بھائی ہے۔ وہ لاکھوں میں ایک تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ