لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر مونس الہٰی کےخلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ خارج کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس اسجد جاوید گھرال نے مونس الہٰی کی درخواست پر 17 صفحات کا تحریری فیصلہ جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ مونس الہٰی کو ایک ہی الزام پر فوجداری مقدمے میں ملوث کرنا ایف آئی اے کی بد نیتی ہے، این او سی کے الزام پر مقدمے میں ملوث کرکے ایف آئی اے نے اختیارات کا نا جائز استعمال کیا، ایف آئی اے کے اختیار کے نا جائز استعمال کے باعث ہائیکورٹ نے مداخلت کی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے میں منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا جس کا اطلاق ہی نہیں ہوتا، آر وائی کے شوگر ملز 2007 میں قائم ہوئی، منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں آیا، اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کا اطلاق ماضی پر نہیں کیا گیا تھا، آرٹیکل 12 قانون کی عدم موجودگی میں ماضی کے جرم کی سزا دینے سے روکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے ملزموں کو وقوعہ سے جوڑنے میں بری طرح ناکام ہوئی، وفاقی حکومت کے وکیل کسی بھی جرم کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہے، مونس الہٰی کے خلاف مقدمے میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ کم تنخواہ دار ملازمین نے تمام شیئرز 7 رکنی اعوان فیملی کو فروخت کیے، مونس الہٰی نے کراس چیک کے ذریعے تمام شیئرز خریدے، ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کیے جانے کی دلیل سے عدالت اتفاق نہیں کرتی، سپریم کورٹ آصف زرداری کیس میں مقدمہ خارج کرنے کا اصول طے کر چکی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے نے نیب کے الزامات سے ہٹ کر کوئی انکوائری نہیں کی، مونس الہٰی کے والد نے لاہور ہائیکورٹ میں نیب کی انویسٹی گیشن کو 2020 میں چیلنج کیا تھا، ہائیکورٹ نے ڈی جی نیب کے بیان کی روشنی میں وہ درخواست نمٹائی تھی، احتساب عدالت کے جج نے نیب کی درخواست پر مونس الہٰی کے والد اور اہلخانہ کے خلاف ریفرنس بند کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ جب نیب کسی معاملے میں دائرہ اختیار استعمال کرلے تو کسی دوسرے ادارے کو تحقیقات کا اختیار نہیں، جب تک چیئرمین نیب دوسرے ادارے کو تحقیقات کا نہ کہیں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا۔
Comments are closed.