استغاثہ کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنے والدین کی دولت حاصل کرنے کے لیے اُن کا قتل کیا تھا جبکہ لائل اور ایرک مینیندیز کے وکیل کا دعویٰ تھا کہ دونوں بھائیوں نے والدین کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا۔لائل اور ایرک کے حق میں جو گواہیاں دی گئیں اُن کی وجہ سے آج بھی دونوں بھائیوں کی رہائی کے لیے مہم جاری ہے۔لائل اور ایرک پر بننے والے اس مقدمے کو امریکہ میں ٹی وی پر نشر کیا گیا تھا اور اسے لاکھوں لوگوں نے دیکھا تھا۔
ایرک اور لائل مینیندیز اپنے والدین کے قتل میں کیوں گرفتار ہوئے؟
انٹرٹینمنٹ کی دنیا سے منسلک مشہور شخصیت ہوزے مینیندیز اور ان کی اہلیہ کِٹی کو 20 مارچ 1989 کے دن اُن کے گھر میں گولی مار کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ان کے دونوں بیٹوں ایرک اور لائل نے دوسرے دن پولیس کو فون کر کے اپنے والدین کے قتل کی اطلاع دی تھی۔پولیس کو اپنے بیان میں دونوں بھائیوں نے بتایا تھا کہ جب وہ گھر پہنچے تو انھیں ان کے والدین مردہ حالت میں ملے تھے۔تحقیقات کی ابتدا میں پولیس کو شک گزرا تھا کہ ان ہلاکتوں میں مافیا گروہ یا مینیندیز خاندان کے قریبی لوگ ملوث ہیں۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد پولیس نے مقتول جوڑے کے بیٹوں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔ مگر آخر اس شک کی وجہ کیا تھی؟لائل اور ایرک پر پولیس کو اس لیے شک ہوا کیونکہ والدین کے قتل کے بعد دونوں بھائیوں نے شاپنگ اور دیگر معاملات پر بڑی رقوم خرچ کرنا شروع کر دیں، جیسا کہ مہنگی گھڑیوں، مہنگے فلیٹس اور سپورٹس کارز کی خریداری۔،تصویر کا ذریعہNetflix
باپ پر جنسی تشدد کا الزام
ایرک کے کونسلر نے پولیس کو اس اعتراف جرم کے بارے میں آگاہ کیا اور اس کے بعد ہی دونوں بھائی اس مقدمے میں بطور ملزم پیش ہوئے۔دونوں بھائیوں کو سنہ 1990 میں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر قتل کا الزام عائد کیا گیا، جس کے بعد ایک طویل قانونی کارروائی کا آغاز ہوا۔تاہم باقاعدہ طور پر ان دونوں بھائیوں کے خلاف مقدمہ سنہ 1993 میں شروع ہوا تھا۔ایرک اور ان کے بڑے بھائی لائل نے جیوری کے سامنے اعتراف کیا کہ انھوں نے اپنے والدین کا قتل کیا ہے، تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام انھوں نے ذاتی دفاع میں اٹھایا تھا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد مبینہ طور پر ان پر جنسی، ذہنی اور جسمانی تشدد کرتے تھے۔دونوں نے اپنے بیانات میں دل دہلا دینے والی تفصیلات بتائیں کہ کس طرح ہوزے مبینہ طور پر اپنے دونوں بیٹوں کا ریپ اور ان پر تشدد کرتے تھے۔ایرک اور لائل نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد نے انھیں دھمکایا تھا اگر دونوں نے کسی کو بھی ان کے رویے کے بارے میں بتایا تو وہ انھیں جان سے مار دیں گے۔دونوں بھائیوں نے کٹہرے میں روتے ہوئے اپنی کہانی بیان کی کہ کس طرح انھوں نے سالوں اپنے والد کے ہاتھوں استحصال برداشت کیا، جبکہ ان کی والدہ نے کبھی مداخلت نہیں کی اور ان کے والد کو یہ سب کرنے سے نہیں روکا۔
مقدمے میں مینیندیز خاندان کے اراکین اور دوست احباب نے دونوں بھائیوں کے حق میں گواہی دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوزے تحکمانہ طبیعت رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے اہلخانہ کو دبا کے رکھا ہوا تھا۔تاہم استغاثہ نے ایرک اور لائل کے خلاف مقدمہ اس بنیاد پر بنایا کہ دونوں بھائیوں نے منصوبے کے تحت اپنے والدین کا قتل کیا تاکہ ان کی ملکیت اور جائیداد پر قبضہ کیا جا سکے۔جیوری کے کچھ اراکین نے بھائیوں کے بیانات پر اعتبار کیا، جبکہ کچھ نے استغاثہ کی بات کو زیادہ وزن دیا۔جیوری کے اراکین متفقہ طور پر کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے تھے اس لیے پہلی مرتبہ ان کے خلاف یہ مقدمہ خارج کر دیا گیا تھا۔تاہم دوسری مرتبہ جب مقدمے کا آغاز ہوا تو اس بار حالات مکمل طور پر مختلف تھے۔اس مرتبہ سماعت کے دوران عدالت میں کیمرہ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ عدالت نے اس بار ملزمان کو جنسی استحصال کے بارے میں ثبوت اور گواہیاں دینے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔اس طرح ملزمان کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے اپنی خود کی گواہیوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔جج نے ایک فیصلہ میں یہ بھی کہا کہ دونوں بھائی قتلِ خطا کے مجرم نہیں ہیں، کیونکہ ان کا الزام ہے کہ وہ بڑے عرصے سے اپنے والد کے ہاتھوں تشدد کا شکار رہے ہیں۔قتلِ خطا کا الزام خارج ہو جانے کی وجہ سے جیوری کے پاس اب صرف دو ہی آپشنز بچے تھے: یا تو بھائیوں کو قاتل قرار دیں یا پھر انھیں بے گناہ قرار دے کر باعزت بری کر دیں۔پھر 18 اپریل 1996 کو عدالت میں لائل اور ایرک کو اپنے والدین کے قتل کے جرم میں پیرول پر رہائی کے بغیر عمر قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔22 برسوں تک دونوں بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ جیلوں میں رکھا گیا اور وہ ایک دوسرے سے خطوط کے ذریعے بات کیا کرتے تھے۔سنہ 2018 میں کیلیفورنیا کے شہر سین ڈیاگو میں دونوں بھائیوں کی ملاقات کے دوران جذباتی مناظر دیکھے گئے۔تا حال دونوں بھائی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
مقدمے میں نئے ثبوت؟
جب دونوں بھائیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تو ان کے کچھ رشتہ داروں اور دوستوں نے ان کی رہائی کے لیے مہم شروع کر دی تھی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.