انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں کبھی کبھار عقل کا استعمال بھی کرنا چاہیے۔۔۔ اگر آپ اس سارے معاملے کا بغور جائزہ لیں تو پھر اس کا بہتر حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔‘ ایک جذبات بھری ویڈیو میں جولیٹ ویلز اور ریک مورٹینسن نے کہا کہ انھوں نے اس ہفتے کے آغاز پر مولی کو کوئنزلینڈ کے انوائرنمنٹ کے شعبے کو دے دیا ہے کیونکہ کچھ لوگ یہ مسلسل شکایت کر رہے تھے کہ یہ پرندہ ان کی دیکھ بھال میں کیوں ہے۔انھوں نے آن لائن ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’آخر ایک جنگلی میگپائی کیوں یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ وہ کہاں رہنا چاہتا ہے اور کس کے ساتھ وہ وقت گزارنا چاہتا ہے۔‘
50,000 سے زیادہ ’فینز‘ نے جانوروں کی اس جوڑی کو ملانے کے لیے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں، جو چار برسوں سے ویڈیوز میں ایک ساتھ نظر آئے ہیں۔ ایک نے کتے کے بھونکنے کی مولی کی نقل کا حوالہ دیا کہ یہ ’اس کا خاندان‘ تھا۔ریاست کے محکمہ ماحولیات، سائنس اور اختراعات نے کہا ہے کہ اس نے ’مولی میں کمیونٹی کی دلچسپی کو سراہتی ہے مگر ساتھ ہی محکمے نے خبردار کیا کہ میگپیز گھریلو جانور نہیں ہیں اور انھیں صرف ’بحالی‘ کے مقصد کے لیے عارضی طور پر رکھا جانا چاہیے۔اس وقت اس پرندے کی دیکھ بھال محکمہ ماحولیات کر رہا ہے۔ محکمے کے ایک ترجمان نے بتایا کہ بدقسمتی سے یہ پرندہ اب انسانوں سے زیادہ مانوس ہو گیا ہے اور اب اسے دوبارہ جنگل میں نہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ جولیٹ ویلز اور ریک مورٹینسن نے اپنی مہم جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان دونوں کا کہنا ہے کہ اگر مولی کو پناہ نہیں دی گئی تو وہ صدمے سے مر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آسٹریلیا میں پائے جانے والے یہ میگپیز 30 برس تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ یہ پرندوں کی ایک محفوظ مقامی نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ملک کے ماحولیاتی نظام کے لیے یہ نسل اہم سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا نام ’یوریشین میگپائی‘ سے ان کی مشابہت کی وجہ سے رکھا گیا ہے، جس سے حقیت میں ان کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.