وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات ناقابل تصور حد تک زیادہ ہیں۔ اس آب و ہوا کی تباہی نے گذشتہ تمام آفات کے پیمانے پیچھے چھوڑتے ہوئے کئی ممالک کی بڑی آبادی کو متاثر کیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں آج جینیوا میں اقوام متحدہ اور حکومت پاکستان کی سیلاب سے متاثرہ آبادی کیلئے امداد کی نئی نظرثانی شدہ فلیش اپیل کے اجراء کے موقع پر کیا۔
انہوں نے ملک کے ایک بڑے حصے میں پانی کی موجودگی کے باعث وبائی امراض پھوٹ پڑنے اور سیلاب سے صحت کو لاحق خطرات کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت نے ابھی ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی خارجی جھٹکا برداشت کیا ہے۔ اس سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہیے کہ وہ اس موسمیاتی تبدیلی کے فرنٹ لائن پر رہتے ہوئے اور عالمی کاربن کے کل اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ دار ہونے کے باوجود تنہا جدوجہد کرے گا۔
انہوں نے اس آفت کا مؤثر طریقے سے جواب دینے کیلئے ‘رضامندوں کے اتحاد’ کا مطالبہ کرتے ہوئے صحت، فوڈ سیکیورٹی اور بحالی کے شعبوں میں مخصوص اور فوری ضروریات کا خاکہ پیش کیا۔
انہوں نے اپنی گفتگو میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ یکجہتی کا نہیں بلکہ ماحولیاتی انصاف کا سوال ہے۔ اقوام متحدہ کے انڈر سیکریٹری جنرل برائے انسانی امور مارٹن گریفتھس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ‘پاکستان میں لوگ موسمیاتی بحران کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تباہ کن سیلاب نے سب سے زیادہ کمزور لوگوں پر تباہی مچائی ہے۔ اب ہم سردیوں کے موسم سے پہلے وقت کے خلاف ایک دوڑ میں ہیں۔ اس وقت فنڈز کی فوری ضرورت ہے تاکہ انسان دوست، صحت، بھوک اور دیگر ضروریات کا جواب دینے کیلئے تیار ہو سکیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم گیبرئیس نے اس موقع پر کہا کہ پانی بڑھنا بند ہوگیا ہے لیکن خطرہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ہم صحت عامہ کی تباہی کے دہانے پر ہیں۔ اگر ہم نے پاکستان کیلئے زیادہ سے زیادہ امداد کو متحرک نہ کیا تو آنے والے ہفتوں میں سیلاب میں ہونے والے جانی ضیاع سے زیادہ جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔
Comments are closed.