موریطانیہ: امتحانی پرچے کے جواب پر طالبہ کے خلاف توہین مذہب کا الزام
موریطانیہ کے حکام نے ہائی سکول کی ایک طالبہ پر امتحان کے پرچےمیں مزاق کرنے پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا ہے۔
اس نوجوان خاتون کو گذشتہ ہفتےپیغمبر اسلام کی توہین کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جرم ثابت ہونے کی صورت میں اسے سزائے موت سنائی جا سکتی ہے اور اس کے خلاف اپیل کا کوئی امکان نہیں ہے۔
موریطانیہ نے حالیہ برسوں میں توہین رسالت کے قوانین کو مزید سخت کرتے ہوئے اس شق کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت مجرم پچھتاوا ظاہر کرنے کی صورت میں سزائے موت سے بچ سکتے ہیں۔
اس کے باوجود ملک میں 30 سال سے زیادہ عرصے سے توہین مذہب کے جرم میں کسی کو پھانسی نہیں دی گئی ہے۔
دارالحکومت میں پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ طالب علم کو 18 جولائی کو شمال مغربی قصبے عطار سے ’پیغمبر اسلام کی توہین اور مذاق اڑانے‘ اور سوشل نیٹ ورکس پر ’اسلام کی مقدس اقدار کو پامال کرنے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
طالبہ نے پرچے میں کیا لکھا تھا اس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
بعد ازاں طالبہ کے اہل خانہ نے عربی اخبار القدس العربی کو ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ طالبہ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔
ایک اور خبر رساں ادارے نے خبر دی ہے کہ ملزم کا تعلق ہراتین نسلی گروہ سے ہے، جو صحارا سے تعلق رکھنے والے غلاموں کی اولاد ہیں۔
اس گرفتاری کا باضابطہ اعلان ملک کے مذہبی حکام کی جانب سے پیغمبر اسلام کی توہین کے مرتکب افراد کو سزائے موت کا سامنا کرنے کے حکم کے بعد سامنے آیا ہے۔
موریطانیہ کی اسلامی سکالرز کونسل نے گذشتہ ہفتے یہ حکم نامہ اس وقت جاری کیا تھا جب صدر محمد اولد غزنوی نے علما کو توہین رسالت کے بارے میں اپنا موقف واضح کرنے کا حکم دیا تھا۔
سزائے موت کے علاوہ توہین مذہب کے کم جرائم میں ملوث افراد کو دو سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
Comments are closed.