مودی کے ہاتھوں متحدہ عرب امارات میں مندر کا افتتاح: کیا یہ عرب دنیا میں پہلا ہندو مندر ہے؟،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشن27 ایکٹر پر محیط اس مندر کو راجستھانی گلابی پتھر اور اطالوی ماربل کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے

  • مصنف, مرزا اے بی بیگ
  • عہدہ, بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، دلی
  • 2 گھنٹے قبل

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی آج یعنی 13 فروری کو متحدہ عرب امارات کے دو روزہ دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ دیگر مصروفیات کے علاوہ وہ ابوظہبی میں 14 فروری کو (بی اے پی ایس ہندو) نامی مندر کا افتتاح بھی کریں گے جس کے بارے میں انڈیا بھر میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ عرب سرزمین پر پہلا ہندو مندر ہو گا، تاہم یہ دعویٰ حقیقت سے کافی دور ہے۔اس مندر کا پورا نام ’بوچاونواسی اکشر پروشوتم سوامی ناراین سنستھان‘ (بی اے پی ایس) مندر ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ آٹھ ماہ میں یہ وزیر اعظم نریندر مودی کا متحدہ عرب امارات کا ریکارڈ تیسرا دورہ ہے۔ سرکاری خبررساں ادارے ’اے این آئی‘ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں انڈیا کے سفیر سنجے سدھیر کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ پچھلے نو سے دس سالوں پر نظر ڈالیں تو انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات شاید سب سے زیادہ بدلے ہوئے رشتوں میں سے ایک ہیں، کیونکہ یہ رشتہ درحقیقت ہمارے رہنماؤں وزیر اعظم نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان کے وژن اور ان کی رہنمائی میں پروان چڑھا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ صرف گذشتہ آٹھ ماہ پر نظر ڈالیں تو یہ اُن (مودی) کا یو اے ای کا چوتھا دورہ ہو گا۔ اس عرصے میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان پہلے ہی دو بار انڈیا کا دورہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک بہت ہی خاص رشتہ ہے جو پچھلے 19 برسوں سے مستقل بلندی کی جانب گامزن ہے۔‘انڈین وزارت خارجہ کے مطابق آج سے شروع ہونے والے مودی کے دورہ یو اے ای کے دوران دونوں رہنما انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے درمیان سٹریٹجک تعاون کو مزید مضبوط بنانے کے بارے میں بات کریں گے اور مشترکہ دلچسپی کے علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر تبادلہ خیال کریں گے۔اس دوران انڈین وزیر اعظم متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ محمد بن راشد المکتوم سے بھی ملاقات کریں گے۔ شیخ محمد بن راشد وہاں کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع بھی ہیں۔ ان کی دعوت پر وزیر اعظم مودی دبئی میں ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں مہمان خصوصی ہوں گے اور اس کے اجلاس سے خطاب بھی کریں گے۔

’اھلاً مودی‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانڈین وزیر اعظم نریندر مودی گذشتہ آٹھ ماہ میں تین مرتبہ دورہ یو اے ای کر چکے ہیں
اس دورے کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی متحدہ عرب امارات میں مقیم انڈین برادری کے لوگوں سے بھی ملاقات کریں گے۔اس پروگرام کو ’اھلاً مودی‘ یعنی خوش آمدید مودی کا نام دیا گیا ہے جو کہ کئی سال قبل امریکہ میں ہونے والے پروگرام ’ہاؤڈی مودی‘ کی یاد دلاتا ہے۔ اخبار ’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ متحدہ عرب امارات میں آباد انڈین شہریوں کا سب سے بڑا پروگرام ہو گا جس سے مودی خطاب کریں گے۔یہ تقریب مندر کے افتتاح سے قبل منگل کو ابوظہبی کے زید سپورٹس سٹی سٹیڈیم میں منعقد ہونا ہے۔ اس پروگرام میں شرکت کے لیے 60 ہزار سے زائد لوگ پہلے ہی رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ اس تقریب کی ترجمان نشا سنگھ نے ’دی ہندو‘ کو بتایا کہ آخری بار وزیراعظم مودی نے یو اے ای میں 2015 میں انڈین شہریوں کے ایک پروگرام سے خطاب کیا تھا۔اس کے بعد بھی مودی یو اے ای گئے ہیں لیکن اس دوران انھوں نے ایسے پروگرام میں ہندوستانی کمیونٹی سے ملاقات نہیں کی۔

عرب سرزمین پر پہلا مندر؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمندر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ 400 ملین درہم لگایا گیا ہے
دبئی میں مقیم سینیئر صحافی احتشام شاہد کے مطابق ابوظہبی میں بننے والے مندر کے بارے میں انڈیا میں ایک جھوٹا بیانیہ چلایا جا رہا ہے کہ یہ خطہ عرب میں بننے والا پہلا مندر ہے جو کہ حقیقت سے بہت دور ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ’عرب ممالک میں مندر کئی دہائیوں سے موجود ہیں اور نہ صرف متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں بلکہ عمان اور بحرین میں بھی ہیں۔‘بحرین کے دارالحکومت منامہ میں بنایا گیا شری ناتھ جی کا مندر ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ اسے سندھی ہندو برادری نے بنایا تھا، جو تقسیم ہند سے کئی سال پہلے ٹھٹھہ (موجودہ پاکستان کے صوبہ سندھ) سے آئے تھے۔پڑوسی ملک سعودی عرب میں رہنے والے اور کام کرنے والے بہت سارے ہندو بھی مقدس مواقع پر اس مندر میں پوجا کرنے آتے ہیں۔عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہندوؤں کے دو مندر ہیں۔ ایک ہندوؤں کے بھگوان شنکر کا مندر موتیشور مندر ہے اور یہ پرانے مسقط کے ’مطرہ‘ نامی علاقے میں واقع ہے۔موتیشور مندر مشرق وسطیٰ کے قدیم ترین ہندو مندروں میں سے ایک ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 125 سال سے زیادہ پرانا ہے۔دوسرا مسقط کے ’روعی‘ نامی علاقے میں ایک کرشن وشنو مندر ہے۔ یہ 150 سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ یہ مندر عمان کے سلطان نے عمان میں آباد گجراتی برادری کے لیے دوستی کی علامت کے طور پر تعمیر کرایا تھا۔دبئی کی ترقی پذیر انڈین کمیونٹی میں جنوبی ہندوستانیوں کے علاوہ سندھی، مراٹھی، گجراتی، پنجابی اور دیگر برادریاں رہتی ہیں اور تقریباً تمام بڑے مذاہب کی وہاں کئی دہائیوں سے عبادت گاہیں ہیں۔یہاں مذہبی تقریبات، تہوار اور دیگر پروگرام صرف مندروں میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ دبئی اور اس کے آس پاس کے کچھ شہروں اور خلیج کے دیگر حصوں میں دیوالی کی رات میں ویسا ہی چراغاں ہوتا ہے جس طرح انڈیا میں دیکھا جاتا ہے۔

مندر کی شاندار عمارت

،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق اس مندر کو راجستھانی گلابی پتھر اور اطالوی ماربل کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔ابو ظہبی کے ولی عہد نے سنہ 2015 میں انڈین وزیر اعظم کے دورہ یو اے ای کے دوران اس مندر کے لیے 13.5 ایکڑ زمین عطیہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جنوری 2019 میں متحدہ عرب امارات کی حکومت نے مزید 13.5 ایکڑ زمین عطیہ کی جس کے بعد مجموعی طور پر 27 ایکڑ زمین مندر کے لیے تحفے میں دی گئی ہے۔اس مندر کی بنیاد سنہ 2017 میں وزیر اعظم مودی نے رکھی تھی۔ مندر کے سات مینار متحدہ عرب امارات کے سات امارتوں کی علامت ہیں۔اس مندر کی عمارت می مہمان خانہ، عبادت گاہ، باغ اور دیگر ادبی جگہیں بنائی گئی ہیں۔ زمین کی حرکت، درجہ حرارت سمیت دیگر عوام کی جانچ کے لیے اس عمارت میں 100 کے قریب سینسر نصب کیے گئے ہیں۔مندر پر آنے والی لاگت کا تخمینہ 400 ملین درہم لگایا گیا ہے۔

مودی کا دورہ اور رواداری پر بحث

،تصویر کا ذریعہGetty Images’انڈین ایکسپریس‘ سے بات کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے انڈیا میں سفیر عبدالناصر جمال الشعالی نے نریندر مودی کے دورہ یو اے ای کو خاص موقع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ رواداری اور قبولیت کے اقدار کے مطابق ہے جو ہمارے دو طرفہ تعلقات کی رہنمائی کرتا ہے۔‘ ’یہ دورہ علامتی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کو ظاہر کرتا ہے۔‘سفیر جمال الشعالی نے کہا کہ مندر کے افتتاح کے علاوہ امید ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات ’مثبت اور تعمیری‘ ثابت ہو گی۔انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ممکن ہے کہ ہم دو طرفہ تعلقات کے اہم شعبوں میں مزید تعاون سے متعلق اعلانات سنیں۔‘انڈیا کی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں۔ سنہ 2022-23 کے درمیان دونوں کے درمیان دو طرفہ تجارت 85 ارب ڈالر تھی۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاملے میں قطر 2022-23 میں انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے والے سرفہرست چار ممالک میں شامل ہے۔دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اقتصادی تعاون پر تبصرہ کرتے ہوئے جمال الشعالی نے کہا کہ ’متحدہ عرب امارات انڈیا کے ساتھ اپنے دو طرفہ اور سفارتی تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، جو مشترکہ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مفادات پر مبنی ہیں اور جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر امن اور خوشحالی کو فروغ دینا ہے۔‘رواداری پر بحث سوشل میڈیا پر جہاں ایک طبقہ اسے ’مودی کا کرشمہ‘ بتانے پر لگا ہے وہیں ایک حلقہ اسے متحدہ عرب امارات اور مسلمانوں کی رواداری کی مثال بتا رہے ہیں۔جنوبی ریاست کیرالہ سے رکن پارلیمان پی وی عبدالوہاب نے گذشتہ دنوں پارلیمان میں اس حوالے سے بات کی۔ پارلیمنٹ میں دیے گئے ان کے بیان کو بہت سے لوگ شیئر کرتے ہوئے اس کا موازنہ ایودھیا کے رام مندر سے کر رہے ہیں۔آر کے رادھا کرشنن نے عبدالوہاب کے بیان کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے انڈیا میں مذہبی رواداری کے حال کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ’نریندر مودی متحدہ عرب امارات میں 14 فروری کو ہندو مندر کا افتتاح کریں گے۔ یہ ہوتی ہے رواداری۔ انڈیا میں مسجدوں کو کھودنا اور ڈھانا بند کریں۔‘کلپ میں عبدالوہاب کو کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’13 کو ہمارے وزیر اعظم متحدہ عرب امارت کے لیے پرواز کر رہے ہیں جہاں وہ 14 فروری کو ایک مندر کا افتتاح کریں گے جو کہ 25 ایکڑ اراضی پر محیط ہے اور یہ ایودھیا کے 5۔2 ایکڑ پر بنے مندر کی طرح نہیں (ان کا اشارہ بابری مسجد کے مقام پر بنے رام مندر کی طرف ہے)۔ ان کی درخواست پر متحدہ عرب امارات کے صدر اور رواداری کے وزیر، وہاں رواداری کی ایک وزارت ہے جو کہ ہمارے یہاں نہیں ہے، انھوں نے ان 25 ایکڑ اراضی دینے پر رضامندی ظاہر کی، زمین الاٹ کی گئی، مندر بنا اور اب اس کا افتتاح کرنے کے لیے وہ وہاں جا رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا: ’اب یہاں کی بات کرتے ہیں جہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ گیان واپی مسجد دے دو، یہ مسجد دے دو، وہ مسجد دے دو اور وہاں ایک مسلم ملک میں مندر کے لیے جگہ دی جا رہی ہے۔ آپ کھودیں گے تو بہت سی چیزیں ملیں گی، صرف تیل ہی نہ ملے گا، برائے مہربانی اپنے وزیر اعظم سے کہیں کہ اس چیز کی اجازت نہ دیں۔‘سدھانت سمبل نامی ایک صارف نے یو اے میں تعمیر ہونے والے مندر کی تصویر ڈال کر لکھا کہ ’یہ مندر ہندو روایات اور متحدہ عرب امارات کی رواداری اور سخاوت کے ہم آہنگ امتزاج کی علامت ہے۔‘ اس سے قبل سنہ 2019 میں جب اس وقت کے کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے دبئی کا دورہ کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’متحدہ عرب امارات اور انڈیا کے لوگوں کو اکٹھا کرنے والی اقدار عاجزی اور رواداری ہیں، مختلف نظریات، مذاہب اور برادریوں کے لیے رواداری۔ مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارے وطن میں ساڑھے چار سال سے عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}