مودی کی اسرائیل سے اظہار یکجہتی پر بحث: ’منی پور کے ساتھ بھی کھڑے ہونے کی ضرورت ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, مرزا اے بی بیگ
- عہدہ, بی بی سی اردو، دہلی
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ پر جہاں دنیا منقسم ہے وہیں انڈیا کا سوشل میڈیا بھی کافی بٹا ہوا ہے۔
اگرچہ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے واضح انداز میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ انڈیا کے اس نئے رخ سے متفق نہیں ہیں۔ وہ انڈیا میں حکمراں جماعت بی جے پی کے پہلے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’اسرائیل نے فلسطین کی جس زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اسے خالی کرنا پڑے گی۔‘
حال ہی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا: ‘ اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کی خبر سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔
’ہمارے خیالات اور دعائیں معصوم متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑے ہیں۔’
انڈیا میں مودی کی مقبولیت کے باوجود کچھ لوگ اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
،تصویر کا ذریعہEPA
انڈیا اور اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ تعلقات سنہ 1992 میں قائم ہوئے لیکن اس میں تيزی بی جے پی کی حکومت میں آئی
وزیر اعظم مودی کے ٹویٹ کے جواب میں جہاں بہت سے لوگوں نے انھیں واضح مؤقف اختیار کرنے کے لیے سراہا ہے تو وہیں کچھ لوگوں نے انھیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور منی پور پر ان کی ’خاموشی‘ کو یاد دلایا۔
اس کے ساتھ ایسے بھی ٹویٹس نظر آئے جس میں یہ کہا جا رہا ہے کہ انڈیا میں بھی ’ایسے لوگ ہیں جو کہ اسرائیل پر اس طرح کے نامردانہ دشت گردانہ حملے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آج وہ ایسی ذہنیت رکھتے ہیں، کل کچھ اور ہوگا۔۔۔ قانون نافذ کرنے والوں کو انھیں یہیں روکنا ہوگا۔۔۔‘
اس کے برعکس آئی ایم ہارون خان نامی ایک صارف نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘ہم وطنوں کو فلسطین کے مسئلے پر سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اس بیان کو بھی سننا چاہیے۔’
اس ویڈیو میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے: ’جنتا پارٹی کی حکومت بن گئی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ وہ عربوں کا ساتھ نہیں دے گی وہ اسرائیل کا ساتھ دے گی۔ تو میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم ہر مسئلے کو ان کی بنیاد پر دیکھیں گے۔
’لیکن مشرق وسطی کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ عربوں کی جس زمین پر اسرائیل قبضہ کر کے بیٹھا ہے وہ زمین اس کو خالی کرنا ہوگی۔۔۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا کے دورے پر اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو
’ہم اسرائیل کی قبضہ کرنے کی پالیسی کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں‘
ہم نے اس معاملے پر دہلی کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مغرب ایشیائی امور کے پروفیسر محمد سہراب سے بات کی۔
پروفیسر سہراب نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘انڈیا-اسرائیل دوستی کی بنیاد ’اسلاموفوبک‘ ہے اور انڈیا کے وزیر اعظم کے ٹویٹ سے مکمل طور پر اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔
‘دوسری بات یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اور خاص طور پر 9/11 کے بعد یہ بیانیہ تیار کیا گیا کہ صرف مسلمان ہی دہشت گرد ہو سکتا ہے دوسری قومیت کے لوگ دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔ اس کا اظہار حالیہ بین الاقوامی بیانیہ میں ملتا ہے کہ جو قوم مقبوضہ ہے وہی دہشت گرد ہے جبکہ قابض دہشت گرد نہیں ہے۔
‘یہاں یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ اسرائیل اور فلسطین پر جب ہم بات کرتے ہیں تو بدقسمتی سے انڈیا میں اب ہم اس کے بنیادی تنازع کو بھول کر بات کرنے لگے ہیں۔ ہم جب بھی فلسطینی شورش کی بات کرتے ہیں تو اس شورش کی وجہ میں نہیں جاتے ہیں اور ہم اسرائیل کی قبضہ کرنے کی پالیسی کو دانستہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔’
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت جو اپرائزنگ یا بغاوت ہوئی ہے اس کے تار بین الاقوامی سیاست سے براہ راست منسلک ہیں کیونکہ دنیا کے اکثر ممالک اور بدقسمتی سے عرب ممالک کے اندر بھی یہ خیال جنم لینے لگا ہے کہ فلسطین کو چھوڑ کر اسرائیل سے رشتہ استوار کیا جائے۔
’اس کی وجہ سے فلسطینی قوم میں ایک واضح پیغام گیا ہے کہ تمہارے صحن میں تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ یہ تمہاری زندگی اور بقا کی لڑائی ہے اور یہ خالصتا تمہاری اپنی لڑائی ہے۔ لڑو یا بغیر لڑے تباہ ہو جاؤ۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر ’خطہ عرب کے عوام بہر حال اپنی حکومتوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر عرب حکومتیں دیانتداری کا ثبوت نہیں دیتی ہیں تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ لڑائی عرب کی سرزمین پر بھی شروع ہو جائے۔
’لہذا یہ عرب حکومتوں کے مفاد میں ہے کہ وہ دینانتداری کا ثبوت دیتے ہوئے حق و انصاف کا ساتھ دیں۔‘
،تصویر کا ذریعہReuters
سوشل میڈیا پر ’منی پور کے واقعات‘ سے موازنہ
سوشل میڈیا پر اسرائیل کے متعلق انڈین پی ایم کے ٹویٹ پر اس کا مقابلہ منی پر ان کی خاموشی سے کیا جا رہا ہے۔
آلوک یادو نامی ایک صارف نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘یہ منی پور کا ویڈیو ہے، ایک بار آپ لوگ ضرور دیکھیں اور اس بات پر غور کریں کہ ہمیں منی پور کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے یا اسرائیل کے ساتھ۔’
چندن شرما نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘میں چندن شرما اسرائیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ اگر حکومت ہند حکم دے تو انڈیا کا ایک ایک قوم پرست ہندو اسرائیل جاکر اسرائیل کی حمایت میں جنگ لڑے گا۔ ہندوؤں آپ تیار ہیں؟
’اسرائیل کے ساتھ 100 کروڑ ہندو ہے۔ انڈیا اسرائیل زندہ آباد۔’
جبکہ پنسٹر نامی ایک صارف نے اس طرح کے ٹویٹس کے حوالے سے لکھا: ‘برائے مہربانی جو سنگھی (سخت گیر ہندو قوم پرست) ‘اسرائیل کے لیے لڑنے کے لیے اسرائیل جا رہے ہیں’ توجہ دیں: ‘انڈیا میں منی پور نام کی ایک ریاست ہے جو اب پانچ ماہ سے جل رہی ہے۔ آپ کو یہاں امن کی بحالی کے لیے لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’لیکن آپ کم از کم اس کے بارے میں ٹویٹ تو کر سکتے ہیں۔’
بی جے پی کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹویٹ کیا گيا ہے کہ ‘اسرائیل کو جس چیز کا آج سامنا ہے، انڈیا 2004 سے 2014 کے درمیان اس حالت سے گزرا ہے۔ کبھی نہ معاف کریں نہ کبھی بھولیں۔’
اس کے جواب میں لوگوں نے شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور لکھا ہے کہ منی پور تو اپنا ہے اس پر بھی کچھ بولنا چاہیے۔ اس کے ساتھ پربھا نامی ایک صارف نے لکھا کہ ‘آپ مکمل ٹرول ہینڈل بن چکے ہو۔
’وہاں ایک جنگ جاری ہے اور آپ اس کا موازنہ کانگریس کے دور حکومت سے کر رہے ہیں۔ آپ کتنے مایوس ہو چکے ہیں؟’
اس کے ساتھ ہی بہت سے صارف نے بی جے پی کے دور کے چند واقعات کا ذکر بھی کیا ہے جس میں پلوامہ حملہ، چین کے ساتھ تنازع اور منی پور کے پرتشدد واقعات شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انڈیا کے موقف پر اسرائیل کے قونصل جنرل کوبی شوشانی نے کہا کہ ‘میں ان ہزاروں پیغامات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو مجھے صبح سے انڈین عوام کی طرف سے موصول ہو رہے ہیں، جس میں اسرائیل کی ریاست کی اس طرح حمایت کی جا رہی ہے کہ میرے دل کو اور اسرائیل کے عوام کے دل کو آج ایک بہت ہی افسوسناک دن گرمی محسوس ہو رہی ہے۔
’انڈین حکومت کا موقف آج دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہمیت کا حامل ہے۔ وزیر اعظم مودی ایک عالمی رہنما ہیں اور بحیثیت ریاست ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ ایک دوست اور بھائی کی طرح۔۔۔ اسرائیل کی خودمختاری پر حملہ ناقابل قبول ہے۔۔۔’
تاریخی طور پر عرب ممالک کے علاوہ انڈیا ان چند ممالک میں سے ایک تھا جس نے فلسطینی تحریک کی زبردست حمایت کی تھی۔
فلسطینی جدو جہدِ آزادی کی حمایت انڈیا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز رہی ہے۔ اندراگاندھی سے لیکر راجیو گاندھی تک اور بعد میں گُجرال سے لیکر اٹل بہاری واجپئی تک سبھی رہنماؤں نے نہ صرف فلسطینی جدوجہد کی حمایت کی بلکہ انکے یاسر عرفات سے قریبی تعلقات رہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
انڈیا ان ملکوں میں شامل تھا جب سنہ 1980 کی دہائی میں بالکل ابتدائی دور میں اس نے نئی دِلّی میں فلسطینی دفتر کو باضابطہ سفارتخانے کے طور پر تسلیم کیا تھا۔
بعد میں جب رملہ میں فلسطینی انتظامیہ وجود میں آئی اور چیئرمین عرفات اسکے سربراہ منتخب ہوئے تو انڈیا میں انھیں صدر کے طور پر تسلیم کیا گیا۔
یہاں تک کہ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت نے یہ بالکل واضح طور پر کہا کہ وہ فلسطینیوں کی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ایک فلسطینی مملکت کے قیام میں اپنے طور جو بھی مدد ہو سکتی ہے کریگی۔
اگرچہ اسرائیل کے لیے انڈیا میں ہمیشہ سے ایک حلقہ میں حمایت رہی اور بعض حلقوں میں نرم گوشہ رہا ہے لیکن موجودہ حکومت کے آنے کے بعد انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات بہت مستحکم ہوئے ہیں۔
Comments are closed.