مودی کا دورہ امریکہ اور ریڈ کارپٹ کی تیاریاں: کیا انڈیا واشنگٹن کا مزید قریبی اتحادی بننے جا رہا ہے؟

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ امریکہ عالمی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی سر گرمیوں کے درمیان بہت اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس مسٹر مودی کے استقبال کے لیے تمام طرح کے انتظامات کر رہا ہے۔ ان کا دورہ ایک سرکاری دورہ ہے جس کے لیے امریکہ اپنے ملک کا دورہ کرنے والے عالمی رہنماؤں کے لیے اعلیٰ ترین سطح کے سفارتی پروٹوکول کی پیروی کرتا ہے۔

اس تین روزہ دورے کے دوران نریندر مودی کا جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں استقبال کیا جائے گا اور اس کے بعد وہ امریکی صدر جو بائیڈن سے براہ راست ملاقات اور بات چیت کریں گے۔ اس کے بعد ایک ریاستی عشائیہ ہو گا، سی ای اوز کے ساتھ میٹنگ ہو گی، کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے مودی کا خطاب ہو گا۔

لیکن احتیاط سے تیار کی گئی ان تقریبات کے پس پشت ایسی گفتگو پوشیدہ ہے جو نہ صرف انڈیا اور امریکہ کے تعلقات میں نئی توانائی بھرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ عالمی نظام پر بھی اثر ڈالتی نظر آتی ہے۔

انڈو پیسیفک یعنی ہند اور بحرالکاہل کے خطے میں امریکہ کو اس وقت انڈیا کے اثر و رسوخ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ امریکہ طویل عرصے سے انڈیا کو خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے والے شراکت دار کے طور دیکھتا رہا ہے۔

مودی اور بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس دورے سے قبل امریکی کانگریشنل کمیٹی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ انڈیا کو ’نیٹو پلس گروپ‘ میں شمولیت کے ذریعے نیٹو کے مغربی اتحاد کا حصہ بنانے کی پیشکش کرے۔

تاہم انڈیا شاید اس وقت امریکہ یا مغربی ممالک کا اتنا قریبی اتحادی بننے کو تیار نہیں ہے تاہم انڈیا کی سفارتکاری زیادہ قوت کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ اس کے خیال میں یہ عالمی سطح پر اس ملک کے لیے مناسب وقت ہے۔

اس کی بڑی وجوہات میں یہ باتیں اہمیت کی حامل ہیں کہ انڈیا اس وقت دنیا کے چند بڑے اقتصادی مقامات میں سے ایک ہے، جیو پولیٹکس بھی اس کے حق میں ہے، زیادہ تر ممالک چین کا ایک مینوفیکچرنگ متبادل چاہتے ہیں، اور انڈیا کے پاس ایک بہت بڑی مارکیٹ بھی ہے جس میں گذشتہ برسوں میں متوسط طبقے کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ چین پلس ون پالیسی پر عمل پیرا ممالک اور عالمی کمپنیوں کے لیے ایک اچھا آپشن فراہم کرتا ہے۔

انڈیا اور امریکہ کے تعلقات ماضی میں کیسے رہے؟

جواہر لال نہرو

،تصویر کا کیپشن

جواہر لال نہرو

سنہ 1947 میں آزاد ہونے والے انڈیا نے آغاز میں امریکہ سے زیادہ قربت نہیں رکھی۔ وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ میں امریکہ کی حمایت کرنے سے انکار کیا۔ سنہ 1961 میں نہرو نے انڈیا کو ترقی پذیر اور نیوٹرل ممالک کی غیر وابستہ دار تحریک کا حصہ بنایا۔

چیٹم ہاؤس کے ڈاکٹر جیمی کا کہنا ہے کہ برطانوی تسلط سے آزادی ملنے کے بعد انڈیا نہیں چاہتا تھا کہ برطانیہ جیسی ایک اور مغربی طاقت اسے بتائے کہ کیا کرنا ہے۔

انڈیا نے امریکہ سے ہتھیار تو خریدے لیکن سنہ 1971 میں پاکستان کے خلاف جنگ کے نتیجے میں امریکہ نے مزید ہتھیاروں کی فراہمی سے انکار کیا تو انڈیا نے روس کی جانب رخ کیا۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز کے مطابق اب انڈیا کی 90 فیصد بکتر بند گاڑیاں، 60 فیصد لڑاکا جنگی طیارے اور 44 فیصد بحری جنگی جہاز اور آبدوزیں روسی ساختہ ہیں۔

تاہم حالیہ برسوں میں انڈیا نے امریکہ کے ساتھ مختلف دفاعی معاہدے کیے ہیں اور امریکی اسلحہ بھی خریدا ہے۔

اس کے باوجود سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو سنہ 2020 میں امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران فری ٹریڈ معاہدے پر دستخط کرنے پر آمادہ نہیں کر پائے تھے۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

’انڈیا کی 90 فیصد بکتر بند گاڑیاں، 60 فیصد لڑاکا جنگی طیارے اور 44 فیصد بحری جنگی جہاز اور آبدوزیں روسی ساختہ ہیں‘

اور اسی دوران انڈیا دنیا کی تمام دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔

انڈیا نے یوکرین پر حملے کے بعد روس کی مذمت کرنے سے انکار کیا اور مغربی پابندیوں کے باوجود روسی تیل کی خریداری جاری رکھی۔

دوسری جانب انڈیا اور چین کی باہمی تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے سٹریٹیجک سٹڈیز کے ویراج سولنکی کا کہنا ہے کہ انڈیا مختلف معاملات پر مختلف طاقتوں سے تعلقات قائم کرتا ہے لیکن کسی اتحاد کا حصہ بننے پر راضی نہیں ہوتا۔

امریکہ کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کیسے مضبوط ہوئے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سنہ 2016 سے اب تک انڈیا اور امریکہ نے چار سکیورٹی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ سنہ 2000 سے سنہ 2021 کے درمیان انڈیا امریکی صنعت کاروں سے تقریبا 21 ارب ڈالر کی دفاعی مصنوعات خرید چکا ہے۔

انڈیا نے امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ’کواڈ‘ نامی گروپ میں بھی شمولیت اختیار کر رکھی ہے۔

ویراج سولنکی کا کہنا ہے کہ بظاہر کواڈ کا مقصد تجارتی غرض سے سمندی تجارتی راستوں کی سکیورٹی کو بہتر بنانا ہے لیکن اصل میں اس کا مقصد چین کا راستہ روکنا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو جنوبی ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر خدشات ہیں اور امریکہ بھی چین کے عالمی اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

کواڈ

،تصویر کا ذریعہReuters

انڈیا اور چین کے تعلقات کیسے ہیں؟

انڈیا اور چین کے باہمی تعلقات سرحدی تنازعات کی وجہ سے تناؤ کا شکار رہے ہیں۔ چین اروناچل پردیش میں زمین کا دعویدار ہے جبکہ انڈیا اکسائی چن کو اپنا حصہ کہتا ہے۔

دونوں ممالک ان تنازعات پر 1962 میں ایک جنگ بھی لڑ چکے ہیں جبکہ 1967، 2013، 2017 اور 2020 میں سرحد پر جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔

مستقبل میں چین سے تنازع ایک ایسا خطرہ ہے جس کی بنیاد پر انڈیا اپنی مسلح افواج کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے اور ایک مقامی دفاعی صنعت کو فروغ دے رہا ہے جو اس کے مطابق 2025 تک 25 ارب ڈالر کی مالیت تک پہنچ جائے گی۔

انڈیا اور چین کے درمیان تناؤ کی وجہ سے ہی انڈیا نے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے میں شمولیت سے انکار کیا جس کے تحت چین دنیا بھر میں نئی بندرگاہیں اور ٹرانسپورٹ لنک بنا رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مصنوعات برآمد کی جا سکیں۔

انڈیا میں چین کی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر بھی پابندی لگائی گئی۔

واشنگٹن میں ولسن سینٹر کے تھنک ٹینک ساؤتھ ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ امریکہ اور انڈیا نے اب ’وسیع تر انڈو پیسیفک تھیٹر کو ایک آنکھ سے دیکھنا‘ شروع کر دیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا ’ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اب بحر ہند کے خطے کی اہمیت کو تسلیم کرنے لگا ہے۔ کئی سالوں سے انڈیا کی بنیادی تشویش کی بڑی وجہ بحر ہند کا علاقہ تھا۔ جبکہ امریکہ کی نظر بحرالکاہل کے ساتھ جنوبی بحیرہ چین کا خطہ تھا۔ لیکن اب وہ اس خطے کی بھی میری ٹائم سکیورٹی پر نظر رکھیں گے۔‘

کیا انڈیا نیٹو کا اتحادی بن سکتا ہے؟

ایک امریکی کانگریشنل کمیٹی نے جون کے آغاز میں تجویز دی تھی کہ انڈیا کو ’نیٹو پلس‘ گروپ میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔

یہ امریکی سربراہی میں بنایا جانے والا ایسا گروہ ہے جس میں نیٹو کے دفاعی اتحاد میں شامل مملک کے علاوہ آسٹریلیا، جاپان، اسرائیل، نیوزی لینڈ اور جوبی کوریا شامل ہیں۔

اس امریکی کمیٹی، جس کا نام ہاؤس سیلیکٹ کمیٹی آن دی سٹریٹیجک کمپیٹیشن بیٹوین یو ایس اینڈ دی چائنیز ہے، کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا اس گروہ میں شامل ہوتا ہے تو اس سے چین کو روکنے میں مدد ملے گی۔

امریکی کمیٹی کو خارجہ امور پر فیصلہ سازی کا کوئی اختیار نہیں اور ان کی جانب سے یہ صرف ایک تجویز ہے۔

تاہم چین کی جانب سے نیٹو کو تنبیہ کی جا چکی ہے کہ وہ انڈو، پیسیفک خطے میں نئے اتحادی بنانے کی کوشش مت کرے۔

چینی وزیر دفاع لی شینگفو نے حال ہی میں بیان دیا تھا کہ ایسا کرنے سے لڑائی بڑھے گی اور خطہ نہ ختم ہونے والے تنازعات کا شکار ہو جائے گا۔

یونیورسٹی آف لندن کی ڈاکٹر پالوی رائے کا کہنا ہے کہ انڈیا نیٹو پلس کا حصہ بننے سے ہچکچائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ نیٹو کو روس مخالف تنظیم کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انڈیا روس کو ناراض نہیں کرے گا۔

’دوسری جانب اس سے چین کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ انڈیا اب چین مخالف اتحاد کا حصہ ہے جو انڈیا کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ